چیف جسٹس کی ریٹائر منٹ: سورج غروب ہوتا ہے


مسیحائے زماں، خضرِ راہِ دوراں، پاسبانِ ملتِ بیضا، فاتحِ روایاتِ جمہوریت، حامی لشکرِ بے اماں، محافظِ بساطِ عدل و انصاف، خورشیدِ مساواتِ روشن و روایاتِ کہن، دشمنِ اربابِ سیاست، حبیبِ صفِ دوستاں و رقیبِ نظامِ ملکِ پاکستاں ; عزت مآب، فخرِ شعور و آگہی چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کا آج عدالتِ عالیہ میں آخری دن ہے۔ عدل و انصاف کے وسیع و عریض ایوان حسرت و یاس کی تصویر بنے ہیں۔ درو و دیوار سے حسرت ٹپک رہی ہے۔ سبزہ زار، لہلہاتے پھول اور ننھی کلیاں بھی خون کے آنسو رو رہی ہیں۔ ہر طرف گریہ و ماتم، نالہ و شیون، آہ و زاری اور سینہ کوبی جاری ہے۔ ایوان ہائے عدل و انصاف ملکی تاریخ کے عظیم ترین قاضی القضا کی رخصتی پر غم و اندوہ کی تصویر بن چکے ہیں۔

وہ قاضی القضا کہ جو ملکی سیاست کے سیاہ و سفید کے مالک رہے۔ اپنے ہنگامہ پرور دور میں وزارتِ عظمٰی کے عہدے پر بھی متمکن رہے، صوبوں کے گورنرز اور وزرائے اعلٰی بھی رہے، وزیرِ صحت اور وزیرِ بہبودِ آبادی بھی رہے، وزارتِ پٹرولیم، پانی، بجلی، برقیات اور ڈیم سازی کے باوا آدم بھی رہے، فنڈ ریزنگ سکیموں کی قیادت کے علاوہ سٹیل ملز، اوگرا، ہوابازی و ہلڑ بازی، نیب، بلدیہ، الیکشن کمیشن سمیت بے شمار اداروں اور محکموں کے بلا شرکتِ غیر ویکہ و تنہا سربراہ بھی رہے۔

ان تمام ”قومی“ ذمہ داریوں کی بھرپور و پرجوش ادائیگی کے بعد جو تھوڑا بہت وقت ملا اس میں بطور چیف جسٹس پاکستان بھی کردار ادا کرنے کی سعی کی۔ ان کاہنگامہ خیز و تند و تیز دور اپنے تمام تر خوب و زشت، حسن و قبح اور جاہ جلال کی جزئیات سمیت یاد رہے گا۔ دیگر کارناموں کے علاوہ یہ عظیم کارنامہ بھی سر انجام دیا کہ ان دیکھی آمریت کے ہاتھوں کو ہر ممکن طور ہر مضبوط بنایا۔ سیاستدانوں کے خلاف شمشیرِ براں بننے والے ”نوشیروانِ وقت“ نے بڑے جتن کرکے ملک کے ”اصل حاکموں“ کو با انداز دیگر ملکی انتظام و انصرام میں دخیل کیا۔

لاڈلوں کے لاڈلے کو اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان کرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ لاڈلے کی الیکشن میچ میں ہر ممکن فتح کی خاطر حریف سیاستدان کو عوام کی نظر میں عبرت کا نشان بنا ڈالا۔ اسی کے عہدِ بے ننگ و نام میں جہاں سیاستدانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا، وہاں جنرلوں کے منجمد اکاؤنٹس سے رقم نکلوانے کا معجزہ بھی رونما ہوا۔ آخر میں منیر نیازی کی غزل کے کچھ اشعار کی مدد لے کر ہم ”ہردلعزیز“ چیف صاحب کو نمناک آنکھوں، دکھی دل اور گھائل روح کے ساتھ الوداع کہہ رہے ہیں

کتابِ عمر کا اک اور باب ختم ہوا

شباب ختم ہوا اک عذاب ختم ہوا

ہوئی نجات سفر میں فریب صحرا سے

سراب ختم ہوا اضطراب ختم ہوا

برس کے کھل گیا بادل ہوائے شب کی طرح

فلک پہ برق کا وہ پیچ و تاب ختم ہوا

جواب دہ نہ رہا میں کسی کے آگے منیر

وہ اک سوال اور اس کا جواب ختم ہوا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).