ظالمو کیا ایدھی کو بھی اسلام دشمن کہو گے؟


عبدالستار ایدھی کو پاکستان میں جتنی دعائیں ملی ہیں، شاید ہی کسی دوسرے پاکستانی کو ملی ہوں۔ انسانیت کا اس سے بڑا خادم پاکستانیوں نے نہیں دیکھا ہے۔ ایسے میں جب قوم ان کی وفات کے سوگ میں ہے اور ابھی ان کو دفن بھی نہیں کیا گیا ہے، ان کے خلاف ایک مذموم مہم چل پڑی ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ کیونکہ ایدھی صاحب نے 2010 میں احمدی جماعت کی طرف سے ایوارڈ لیا ہے، اس لیے ان کی سماج سیوا ایک طرف اور دوسری طرف ان کی آقائے نامدارؐ کے دشمنوں سے ہمدردی ہے۔ ایدھی صاحب کی شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنے کو رسول پاکؐ کی ناراضگی کا سبب قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ ان کا یہ فعل اسیران ختم نبوت کے جذبے کی گستاخی ہے اور شہدائے ختم نبوت کے مقدس لہو کا سودا ہے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ ایدھی صاحب ایک قادیانیت نواز شخص تھے۔ یہ کہا جا رہا ہے کہ ایدھی صاحب کا جذبہ خدمت انسانیت ایک طرف، لیکن قادیانیت سے اظہار ہمدردی کرکے، قادیانیوں سے اس ضمن میں ٹرافی لے کر، انہوں نے روضہ رسولؐ کو دکھ پہنچایا۔

ایک مفتی صاحب فتوی جاری کرتے ہیں کہ ایدھی صاحب زندیق اور ملحد ہیں اور ان کو صدقات اور چندے دینے والے بھی اللہ کے عذاب کے لیے تیار رہیں کیونکہ وہ بلا امتیاز مذہب انسانیت کی خدمت کی بات کرتے ہیں، اور ان کے ہاں نمازی اور ہیروئنچی ایک ہیں۔ ایدھی صاحب نے بچوں کی جان بچانے کے لیے جو پنگھوڑے لگائے ہیں، وہ مفتی صاحب کو زنا کی ترویج کا باعث نظر آتے ہیں۔

غالباً یہ مفتی صاحب ان بچوں کو قتل کرنا مناسب سمجھتے ہیں، اور وہ بھی اس انداز میں کہ کوڑے کے ڈھیر پر کتے انہیں نوچ نوچ کر کھا جائیں۔ کیا کبھی ایدھی نے ختم نبوت کا انکار کیا ہے جو تم ان پر ایسی الزام تراشی کرتے ہو؟

آئیے دیکھتے ہیں کہ ایدھی صاحب آخر کہتے کیا ہیں۔ احمدی ایوارڈ دیے جانے کے موقع پر ایدھی صاحب کے کمرے میں ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا تھا۔ ایدھی صاحب کے الفاظ بعینہ یوں ہیں:۔

’میرا کام انسانیت کا ہے اور انسانیت سب سے بڑا مذہب ہے۔ جب انسان انسان بن جاتا ہے تو پھر کوئی سے بھی تعلقات نہیں رہتے صرف ڈائریکٹ اللہ سے اور انسانیت سے تعلق ہوتا ہے۔ میرے یہاں اتنے لوگ داخلہ ہونے آتے ہیں، میں نہیں پوچھتا کہ تمہارا مذہب کیا ہے۔ میں یوں سمجھتا ہوں کہ انسان ہے۔ میں احمدیہ جماعت کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ یہ لوگ مجھے انسانی ناتے ایک ایوارڈ دے رہے ہیں اور یہ ایوارڈ انشا اللہ انسانوں کی بھلائی کے لیے استعمال ہو گا‘۔

ایک دوسری جگہ ایدھی صاحب کو پاکستان کا غدار قرار دیا جا رہا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ ’باچا خان اور ولی خان جیسے مسلمہ غداروں کو آزادی کے مجاہد اور خصوصا باچا خان کو عظیم سماجی مصلح قرار دینے پر ایدھی کو معلوم ہونا چاہئے تھا کہ یہ بات کہہ کر وہ تحریک پاکستان کے عظیم رہنماؤں خان عبدالقیوم خان، چودھری خلیق الزمان ، مولوی فضل الحق، افتخار حسین ممدوٹ، لیاقت علی خان وغیرہ کی روحوں کو تکلیف پہنچارہا ہے جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے مفاد کو اپنے تن، من دھن پر قربان کر دیا (کذا، یعنی اس قول کو بعینہ کاپی کیا جا رہا ہے، غلطی سمیت)‘. ان سے یہ سوال ہے کہ کیا ایدھی صاحب نے پاکستان کے مسلمانوں پر اپنا تن من دھن قربان نہیں کیا ہے؟ ایدھی صاحب کو پاک فوج نے مکمل فوجی اعزاز کے ساتھ دفن کیا ہے، ان کے جنازے کو سرکاری پروٹوکول کے ساتھ توپوں کی سلامی دے کر ان کی حب الوطنی اور قوم کے لیے خدمات کا  اعتراف سرکار اور فوج نے کیا ہے۔ ریاست پاکستان اور افواج پاکستان جس کی خدمات کا اعتراف کر رہی ہیں، وہ ان نام نہاد محب وطن افراد کو غدار دکھائی دے رہا ہے۔

ایدھی صاحب کا مسلک رنگ، نسل، زبان اور مذہب سے بالاتر ہو کر دکھی انسانیت کی خدمت کرنے کا تھا۔ ان کے ہاں قرب الہی پانے کا ذریعہ انسانیت کی خدمت تھا۔ اس تقریر سے واضح ہو رہا ہے کہ اس خدمت کے لیے ان کو جہاں سے بھی پیسہ ملا، انہوں نے لینے سے انکار نہیں کیا۔ ان کو بھارت سے گاندھی امن ایوارڈ سمیت چار ایوارڈ ملے، سوویت یونین سے لینن پیس پرائز ملا، روٹری کلب نے ان کی خدمات کا اعتراف کیا، اٹلی، عرب امارات اور کوریا سے بھی ان کو ایوارڈ ملے۔ انہوں نے کبھی نہیں کہا کہ ’ہمارے ازلی دشمن بھارت‘ سے میں ایوارڈ نہیں لوں گا، ’خدا کا منکر سوویت یونین‘ مجھے اپنے ایوارڈ سے دور رکھے، کلیسائے روم کے ملک اٹلی کا پیسہ مجھ پر حرام ہے، انہوں نے سب سے ایوارڈ اور پیسے لیے کیونکہ انسانیت کے لیے وہ کچھ بھی کرنے پر تیار تھے۔ وہ انسانیت کے لیے بھیک مانگنے کو بھی تیار تھے۔

اگر تم نے ایدھی کو گھر بیٹھے ہی اتنے عطیات جمع کر کے دے دیے ہوتے کہ اس کو انسانیت کی خدمت کے لیے در در بھیک نہ مانگنی پڑتی، تو پھر تمہارا یہ اعتراض حق بجانب ہوتا۔ مگر خود اگر کچھ کرنا نہیں اور کرنے والوں پر اعتراض کرنا ہے، تو پھر یہ چاند پر تھوکنا ہی کہلائے گا۔ انگریزی محاورہ کہتا ہے کہ بھکاری انتخاب نہیں کرتا ہے کہ اسے پیسہ کہاں سے ملے گا۔ ان کا طرز زندگی سب کے سامنے ہے۔

یہ پیسہ انہوں نے اپنی ذات پر خرچ نہیں کیا۔ دفن کے وقت ان کی متاع کیا نکلی؟ دو جوڑے سلیٹی ملیشیا کے سوٹ، ایک ٹوٹا ہوا مرمت شدہ جوتوں کا جوڑا۔ ایوارڈوں کا یہ سارا پیسہ کہاں گیا؟ یہ اس ایمبولینس پر لگا جو ہم لوگوں کو جائے حادثہ سے اٹھا کر ہسپتال لے جاتی ہے اور ہماری جان بچاتی ہے۔ یہ ان نوزائیدہ بچوں کو زندہ رکھنے پر لگا جنہیں لوگ مرنے کے لیے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک جاتے تھے۔ یہ ان بیواؤں اور بوڑھوں پر لگا جنہیں ان کے اپنے عزیز در بدر کی ٹھوکریں کھانے کو لاوارث چھوڑ دیتے تھے۔ مرتے وقت بھی انہوں نے یہی کہا کہ ان کو انہی پرانے کپڑوں میں دفن کیا جائے، کہ نئے کپڑے پر تو زندوں کا حق ہے۔ اس وصیت پر حضرت ابو بکر صدیقؓ کا کفن یاد آتا ہے۔

جب مرض الموت میں حضرت ابو بکر صدیقؓ نے حضرت عائشہؓ سے پوچھا کہ سرورعالم صلی اﷲ علیہ وسلم کو کتنے کپڑوں کا کفن دیا گیا تھا؟ انہوں نے بتایا تین کپڑوں کا۔ وصیت کی میرے کفن میں بھی تین کپڑے ہوں، دو چادریں جو میرے بدن پر ہیں دھو لی جائیں اور ایک کپڑا نیا لے لیا جائے۔ حضرت عائشہؓ نے کہا کہ ہم تنگ دست نہیں کہ نیا کپڑا نہ لے سکیں۔ جواب فرمایا: نئے کپڑوں کی زندہ لوگوں کو زیادہ ضرورت ہوتی ہے ،کفن تو لہو اور پیپ کے واسطے ہے۔

بخدا ایدھی بھی تنگ دست نہ تھے کہ ان کو نیا کفن نہ مل پاتا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ انسانیت کے اس عظیم محسن اور سچے مسلمان پر روزہ رسول کو دکھ پہنچانے کا الزام وہ لگا رہے ہیں جنہوں نے داعش کی جانب سے روضہ رسول کی دیوار تلے دھماکے پر ایک لفظ نہیں کہا ہے۔ وہ لوگ بات کر رہے ہیں جنہوں نے وظائف اور چلوں کو ہی دین سمجھ لیا ہے اور یہ جاننے کی زحمت نہیں کی کہ رسول پاکؐ کا سب سے اہم لقب رحمت العالمین کیوں تھا۔ یا پھر شاید یہ لوگ اپنی فطری تنگ نظری کے باعث یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں صرف مسلمان ہی رہتے ہیں اور نبی پاکؐ صرف مسلمانوں کے لیے ہی رحمت تھے، بنی نوع انسان اور تمام مخلوقِ خدا کے لیے نہیں۔

کیا ایدھی صاحب کو برا بھلا کہنے والوں نے کبھی ایدھی کی ایمبولینس کو کال کرتے ہوئے یہ سوچا ہے کہ اس کا پیسہ کہاں سے آ رہا ہے؟ انہوں نے یہ فتوی تو لگایا ہو گا کہ صرف مسجد اور مدرسے کو زکوۃ اور خیرات دینا جائز ہے اور ایدھی اور ہسپتال کو دینا حرام ہے، مگر حادثے کا شکار ہر کر سڑک پر پڑے ہوئے جب انہوں نے ایدھی کو کال کیا ہو گا تو ان کو یہ سب کچھ یاد نہ آیا ہو گا۔

ظالمو، جب تم ہسپتال جاتے ہو تو کیا ڈاکٹر سے بھی یہ پوچھتے ہو کہ تیرا مذہب و مسلک کیا ہے؟ کیا تمہیں اس حلف کا علم ہے جو ڈاکٹر اٹھاتے ہیں؟ ڈاکٹر حلف اٹھاتے ہوئے وہی کہتا ہے جو ایدھی کہتا ہے۔ پاکستانی ڈاکٹر کے حلف میں یہ مذکور ہے کہ وہ اپنی زندگی کو انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دے گا۔ وہ کسی مریض کی عمر، بیماری یا معذوری، مذہب و مسلک، نسل، صنف، قومیت، سیاسی وابستگی، جنسی رجحان، یا سماجی مرتبے کو خاطر میں نہ لائے گا۔

یہی ایدھی صاحب کرتے تھے۔ انسانیت کی خدمت کے جس جرم کا تم ایدھی صاحب کو مرتکب ٹھہراتے ہو، ہر ڈاکٹر اس کا مجرم ہے۔ کیا تم اب ہر ڈاکٹر کو بھی ویسے ہی برا کہو گے جیسے ایدھی صاحب کو کہہ رہے ہو اور علاج کے لیے صرف حکیم کے پاس جاؤ گے جو غالباً یہ حلف نہیں اٹھاتا ہے؟

لیکن قوم کے محسنوں پر کیچڑ اچھالنے کی یہ روش نئی نہیں ہے۔ منٹو کی لازوال کتاب ’سیاہ حاشیے‘ میں سے ایک ’جوتا‘ ان کیچڑ اچھالنے والوں کی نذر ہے۔

’ہجوم نے رخ بدلا اور سر گنگا رام کے بت پر پل پڑا۔ لاٹھیاں برسائی گئیں، اینٹیں اور پتھر پھینکے گئے۔ ایک نے منہ پر تارکول مل دیا۔ دوسرے نے بہت سے پرانے جوتے جمع کئے اور ان کا ہار بنا کر بت کے گلے میں ڈالنے کیلئے آگے بڑھا۔ مگر پولیس آ گئی اور گولیاں چلنا شروع ہوئیں۔ جوتوں کا ہار پہنانے والا زخمی ہو گیا، چنانچہ مرہم پٹی کیلئے اسے سر گنگا رام ہسپتال میں بھیج دیا گیا‘۔

ایدھی صاحب کو ملحد اور زندیق قرار دینے والے بھی جب کبھی ایدھی صاحب کی ایمبولینس میں ہی ہسپتال پہنچائے جائیں گے تو ان کو منٹو کا یہ ’جوتا‘ یاد آئے گا۔

عبدالستار ایدھی کے جنازے میں یہ لوگ مت آئیں، لیکن یہ دیکھ کر دل خوش ہو گیا ہے کہ صدر مملکت ممنون حسین، چئیرمین سینیٹ رضا ربانی، گورنر سندھ عشرت العباد،  وزیراعلی سندھ قائم علی شاہ، وزیراعلی پنجاب شہباز شریف جو کہ میاں نواز شریف کی نمائندگی کر رہے ہیں،  تینوں مسلح افواج کے سربراہان، دوسرے سیاسی رہنما اور بے شمار عام افراد اس جنازے میں موجود ہیں۔ مکمل ریاستی پروٹوکول کے ساتھ نماز جنازہ ادا کی جا رہی ہے اور فوج کی جانب سے گارڈ آف آنر دیا جا رہا ہے اور توپوں کی سلامی دی جائے گی۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments