جمہوریت کی بنیاد: بلدیاتی نظام


جس طرح عمارت کی مضبوطی اور پائیداری کا تعلق اُس کی بنیادوں سے ہوتا ہے ٹھیک اسی طرح دنیا بھر کے ترقی یافتہ معاشروں میں رائج جمہوری نظام کی بنیاد وہاں کا فعال ، مستحکم اور بااختیار بلدیاتی نظام ہوتا ہے جس کا تسلسل وہاں کے پارلیمانی یا صدارتی نظام کو مضبوط تر بنا کر معاشرے کو خوشحال بناتا ہے۔
مقامی حکومتوں کے زیرِ انتظام بلدیاتی نظام کی ایک کتاب میں درج تعریف کے مطابق ’’مقامی حکومت سے مراد ایسا ادارہ ہے جو اپنے محدود اور معین علاقے میں اختیارات کے تعین اور ان کو رُوبہ عمل لاکر عام یا خاص ضرورتوں کو پورا کرے اور حکومت کے مقابلے میں کم اختیار رکھتا ہو‘‘۔ مقامی حکومت جمہوری نظام کی اکائی اور جمہوری اقدار کے فروغ کا ذریعہ ہونے کے ساتھ ایک بنیادی سیاسی تربیت گاہ بھی ہے جس میں عوام سیاسی تربیت کے ساتھ عملی طور پر نظم و نسق، انتظامی اُمور کا تجربہ حاصل کرتے ہیں اور اس کے ذریعے سے مستقبل کی قومی سیاسی قیادت بھی سامنے آتی ہے۔
جب حقیقی جمہوری معاشروں نے جمہوریت کے تسلسل کے دوران اس کمی کو شدت سے محسوس کیا کہ بڑے قومی مسائل حل کرنے پر یکسوئی کی بدولت نچلی سطح پر عوام کے مسائل پر وہ ارتکاز نہیں کر پارہے ہیں جس کی وجہ سے عوام کو مشکلات پیش آنے کے ساتھ عوام اور حکومتوں کے مابین فاصلے بھی بڑھ رہے ہیں جو ملک، جمہور اور جمہوریت کے ساتھ زیادتی ہے تولہذا جمہور کی مشکلات کونچلی سطح پر حل کرکے جمہوریت کی جڑوں کو مضبوط کرنے کی غرض سے ترقی یافتہ ممالک مقامی حکومتوں کا نظام وجود میں لائے اور اُنہیں انتخابات اور مکالمے کے ذریعے مسلسل فعال ،مستحکم اور باختیار بنا دیا جس کے سبب اُن معاشروں میں سیاسی شعور بیدار ہوا اور جمہوریت نچلی عوامی سطح تک مضبوط ہوئی نتیجتاً وہ معاشرے خوشحال ہوئے۔
سال 2019ء میں ریاست ہائے متحدہ امریکہ، عوامی جمہوریہ چین،جاپان،جرمنی ،برطانیہ،بھارت،فرانس،اٹلی،برازیل اور کینیڈا کا ترقی میں دنیا بھر کے ممالک میں پہلے دس ممالک میں آنے کی ایک وجہ ان ممالک کا اپنے ملکوں میں مسلسل جمہوری اداروں اور بلدیاتی نظام کو بھی مستحکم، فعال اور بااختیار بنائے رکھنا ہے۔ ان مُہذب معاشروں میں اس حد تک مقامی حکومتوں کو اختیارات دئیے گئے ہیں کہ انفرااسٹرکچر، تعلیم، پولیس اور صحتِ عامہ بھی مئیر کے اختیار میں ہوتے ہیں۔
یہ بھی واضح رہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں 1688ء میں پہلی بار بلدیاتی اداروں کا تصور متعارف کرایا تھا جس کا سہرا لارڈ رٹن کے سر جاتا ہے انہوں نے پہلی میونسپل کمیٹی مدراس میں بنوائی تھی۔
بدقسمتی سے پاکستان میں اکہتر سالوں میں اشرافیہ نے اپنے مفادات کی غرض سے مقامی حکومتوں کے نظام کو پنپنے ہی نہیں دیا۔ پاکستان میں ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے آمرانہ ادوارمیں ان آمروں نے بلدیاتی انتخابات اس لئے منعقد کرائے تاکہ عوام کو نچلی سطح پر مصروف رکھ کر اپنے راستے کی رکاوٹوں کو کم سے کم کیا جا سکے جس میں یہ کامیاب رہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن ) کی نیم جمہوری (جاگیردارانہ) حکومتوں نے بھی محض اپنے مفادات کو مقدم رکھا اوربلدیاتی انتخابات منعقد نہیں کرائے بلکہ اپنے اراکین سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلی کو رشوت کے طور پر وہ بلدیاتی فنڈز دیے جس کے وہ آئینی طور پر حق دار ہی نہیں ہوتے صرف اس لئے کہ یہ ارکانِ اسمبلی اپنے آقاؤں کے سامنے زبان کھول نہ سکیں اور ان کے آقا جمہور، جمہوریت کے ساتھ جو چاہے کھلواڑ کریں۔ یہ ایک بڑی وجہ ہے کہ گزشتہ اکہتر سالوں سے پاکستان میں جمہوریت کی بنیاد نہایت کمزور رہی ہے۔

سندھ میں رائج حالیہ بلدیاتی نظام ِ حکومت کا جائزہ لیں تو حکمرانوں کے منافقانہ جمہوری چہروں کے پیچھے چھپے گھناؤنے وڈیرا شاہی چہرے واضح دکھائی دیں گے جو لسانیت، قوم و نسل پرستی کا منفی زہریلا راگ پسے ہوئے سادہ لوح عوام کے اذہان میں دہائیوں سے مسلسل اُنڈیل کر خود تو اقتدار حاصل کر کے عیاشیاں کرتے آرہے ہیں اور عوام کو سسکنے اور مرنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔ منافقانہ پن کی صرف ایک مثال دیکھیے کہ آئین کے مطابق وفاق سے این ایف سی ایوارڈ حاصل کرنے کے لئے تو وزیرِ اعلی بہت شور مچاتے ہیں لیکن اسی آئین کی رُو سے صوبائی فنانس کمیشن کے تحت فنڈز کو صوبے میں مقامی حکومتوں کو منتقل نہیں کرتے ہیں اور بیشتر اختیارات اور فنڈز اپنے اختیار میں اور اپنے دیگر وزراء کو سونپ رکھے ہیں جو آئین و جمہوریت کی کھلی نفی ہے۔ اپنی اکثریت کی بنیاد پر پی پی پی کے وڈیرہ اذہان نے سندھ کے بلدیاتی نظام کو دانستہ نیم مُردہ کر رکھا ہے تاکہ عوام سیاسی شعور حاصل نہ کر سکیں اور ہمیشہ ان ہی کے دستِ نگر رہیں۔ پیپلز پارٹی کے اس آمرانہ طرزِ عمل کی وجہ سے 2017ء میں کراچی کو ’’ کچراچی‘‘ کہا گیا جبکہ کراچی سمیت سندھ کے دیگر شہری اور دیہی علاقے بھی اب تک تباہ حالی کا شکار ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان ملک بھر میں یکساں اور بااختیار بلدیاتی نظام لانے کا دعوی کرتے چلے آرہے ہیں۔ اگر عمران خان اور ان کی جماعت تحریکِ انصاف واقعی جمہوریت سے مخلص ہیں اور حقیقتاً عوام کی بے لوث خدمت کرنا چاہتے ہیں تو وہ آئین کے آرٹیکل 140A کے تحت صوبوں کو اس ضمن میں جلد راضی کریں کہ مکمل بلدیاتی اختیارات و فنڈز منتخب بلدیاتی نمائندوں کو دیے جائیں اس کے ساتھ آئین میں بلدیاتی قوانین کو اتنا موثر بنائیں کہ مستقبل میں کوئی بھی جماعت بلدیاتی اختیارات اور فنڈز کو اپنے ارکان سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلی میں تقسیم نہ کرسکے اور آنے والابلدیاتی نظام اتنا با اختیار ہو جس کے سبب عوام حقیقی جمہوریت کے ثمرات سے مستفید ہوں اس کے بعد ہی نیا پاکستان وجود میں آسکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).