دس سالہ چیلنج کا عالمی بخار


دنیا بھر کے سوشل میڈیا پر آج کل ”دس سالہ چیلنج“ کے نام سے ایک نئے رجحان کا بہت چرچا ہے۔ اس سادہ سے چیلنج میں صارف اپنی تازہ ترین اور دس سال پرانی تصاویر کا موازنہ پیش کرتا ہے اور اس کے آن لائن حلقہ احباب میں شامل لوگ ان تصاویر کو لائک کرتے یا متعلقہ شخص کے خدوخال میں آنے والی تبدیلیوں پر اپنی رائے دیتے ہیں۔

سماجی رابطے کی تقریبا تمام ہی ویب سائٹس پر ہیش ٹیگ کے ساتھ انگریزی میں دس سالہ چیلنج کے الفاظ لکھ کر تصاویر پوسٹ کی جا سکتی ہیں۔

آپ دس سال کے فرق سے لی گئی اپنی دو تصاویر کسی بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر لگائیں اور بیتے ہوئے ماہ و سال کے دوران اپنے چہرے کے خدوخال اورشخصیت میں آنے والی تبدیلیوں پر دوستوں کی آرا جان لیں۔ اور اگر کوئی آپ کی تصاویر پر یہ تبصرہ کردے کہ آپ تو ان دس سالوں میں بالکل نہیں بدلے تو سونے پہ سہاگہ ہو جائے۔ اس مقبولیت کے پیچھے انسانی نفسیات کا وہی پہلو کارفرما ہے جسے ماہرین خود پسندی یا نرگسیت قرار دیتے ہیں۔

معاملہ چاہے خود ستائشی کا ہو یا وقت گزاری کے ایک دلچسپ بہانے کا۔ آخر اس نئے ٹرینڈ کی پیروی کرنے میں ہرج ہی کیا ہے۔ اس چیلنج کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی تصاویر پوسٹ کرنے والے کروڑوں لوگوں کا یہی خیال ہے لیکن جدید علوم کے بعض ماہرین کے نزدیک سیدھے سادھے سے اس ٹرینڈ کے پیچھے بات کچھ اتنی سادہ نہیں ہے۔

انٹرنیٹ پر صارفین کی معلومات اور ڈیٹا کی مختلف تجارتی اور سیکیورٹی اداروں کو فروخت اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ بڑی انٹرنیٹ کمپنیاں صارفین کی پسند ناپسند اور ترجیحات پر مبنی معلومات تجارتی اداروں کو فروخت کرتی ہیں اور وہ ادارے اس ڈیٹا کو اپنی مصنوعات کی مارکیٹنگ اور فروخت میں اضافے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

ان ماہرین کا خیال یہ ہے کہ دس سالہ چیلنج نامی یہ آن لائن رجحان وقت کے ساتھ انسانی چہرے کے نقوش میں آنے والی تبدیلیوں کی پہچان کرنے والے سافٹ وئیرز کو بہتر بنانے کے لیے شروع کرایا گیا ہے۔

فیس بک کی جانب سے اگرچہ یہ وضاحت دی جا چکی ہے کہ یہ ٹرینڈ انتظامیہ کی بجائے صارفین نے خود شروع کیا ہے اور ادارہ اس ڈیٹا کو کسی مقصد کے لیے ہرگز استعمال نہیں کرے گا۔ تاہم ماہرین کا اصرار ہے کہ اس ٹرینڈ کے پیچھے اگر کسی باقاعدہ منصوبہ بندی کا وجود نہیں ہے اس صورت میں بھی کوئی ٹیک کمپنی اس سارے عمل کو اپنے مالی فائدے کے لیے استعمال کرسکتی ہے۔

ان ماہرین کے مطابق یہ تمام تصاویر مصنوعی ذہانت اورانسانی چہرے کے خدوخال پہچاننے کی ٹیکنالوجی پر کام کرنے والی بڑی کمپنیوں کو بیچی جا سکتی ہیں۔ اس نکتے پر ایک اعتراض یہ کیا جاسکتا ہے کہ تصاویر تو لوگ ویسے بھی پوسٹ کرتے رہتے ہیں بلکہ ایسا بھی ممکن ہے کہ اس چیلنج کے تحت پوسٹ ہونے والی بہت سی تصاویر پہلے سے ہی صارفین کے پیج پر موجود ہوں تو پھراس نئے ٹرینڈ میں خدشے والی نئی بات کیا ہے۔

آن لائن پرائیویسی کے ماہرین کے مطابق عام تصاویر اور ”دس سالہ چیلنج“ والی تصاویر میں بہت فرق ہے۔

عام معمول کے مطابق پوسٹ کی گئی تصاویر میں ماہ و سال کی تصدیق نہیں ہوتی۔ تصاویر لینے اور پوسٹ کرنے کے وقت میں فرق، سکین کی گئی تصاویر میں صارف کی عمر کا معلوم نہ ہونا اور بغیر کسی مستند کیپشن کے پوسٹ کی گئی تصاویر کے ڈیٹا سے نتائج اخذ کرنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ اس میں غلطی کا امکان بھی زیادہ ہے۔ لیکن ”دس سالہ چیلنج“ والی تصاویر میں ایسی کوئی الجھن نہیں۔ ہر صارف دس سال کے فرق سے لی گئی اپنی دو تصاویر خود چھانٹ کر پوسٹ کررہا ہے اور موازنے پر مبنی اس مستند ڈیٹا سے عمر میں اضافے کے ساتھ خدوخال میں ممکنہ تبدیلی کے بارے میں نتائج اخذ کرنا آسان بھی ہے اور اس میں غلطی کا اندیشہ بھی کم سے کم تر ہے۔

فیشل ریکگنیشن یا چہرے کے خدوخال کو پہچاننے کی صلاحیت رکھنے والا نظام مصنوعی ذہانت کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔ گوگل کی ہم پلہ چائینیز کمپنی بائیڈو نے دو ہزار سترہ میں اسی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے بچپن میں کھو جانے والے فوگوئی نامی شخص کو ستائیس سال بعد اس کے والدین سے ملوا دیا تھا۔ بائیڈو کے سوفٹ وئیر نے کروڑوں تصاویر میں سے عمر کے مختلف حصوں میں لی گئی فوگوئی کی صرف دو تصاویر کے درمیان تعلق کو ٹھیک ٹھیک پہچان کر یہ معجزہ کر دکھایا تھا۔

اب جبکہ کروڑوں صارفین خود ہی دس سال کے فرق سے لی گئی اپنی تصاویر کو دھڑادھڑ اپ لوڈ کررہے ہیں تو یہ تمام مستند ڈیٹا انسانی چہرے کی ”کراس ایج“ پہچان کرنے والے نظام کو مزید فعال بنانے میں استعمال ہوسکتا ہے۔

لیکن اگر ایسی بات ہے تو پھر اس میں کیا بری بات ہے۔ اگر ہماری تصاویر سماجی بھلائی کے لیے وضع کردہ ٹیکنالوجی کی ترقی میں استعمال ہو بھی جائیں تو اس میں کیا برائی ہے۔

اس سوال کے جواب میں ہمیں چند نکات ذہن میں رکھنے ہوں گے۔

یہ تصاویر انٹرنیٹ صارفین کی ملکیت ہیں اور کوئی بھی ویب سائٹ اگر ان تصاویر کو ان کے مالکان کی اجازت یا علم کے بغیر کسی کمپنی کو فروخت کرتی ہے تو اسے انتہائی غیر اخلاقی اور پیشہ وارانہ بددیانتی پر مبنی اقدام سمجھنا چاہیے۔

پھر یہ بھی ضروری نہیں کہ یہ تصاویر انسانی بھلائی اور سماجی ترقی کے کسی سافٹ وئیر کی تیاری میں ہی استعمال ہوں۔ اِن اَن گنت تصاویر کو عالمی خفیہ اور دفاعی ادارے بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرسکتے ہیں۔ اس ڈیٹا کی مدد سے شہریوں کی جاسوسی کے نظام کو مزید جدید بنایاجاسکتا ہے۔ شہری آزادیوں پر قدغن لگانے کے عمل کو سائنسی بنیادوں پر استوار کیا جاسکتا ہے اور حکومتیں اپنے ناقدین اور احتجاج کرنے والے افراد کی نقل و حرکت پر کڑی نظر رکھ سکتی ہیں۔

ذاتی معلومات اور نجی تصاویر اندھا دھند انٹر نیٹ پر لگانے کے عمل میں یہ وہ چند نئے خدشات ہیں جو ”دس سالہ چیلنج“ نے اجاگر کیے ہیں۔ ہمیں سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں تصاویر اور دوسری معلومات شئیر کرتے وقت ان تمام امکانات کو ذہن میں رکھنا چاہیے کیونکہ اگر ہم خود ہی اپنی پرائیویسی کا خیال رکھنے میں کوتاہی برتیں گے تو پیسہ کمانے کے مقصد کے لیے قائم اداروں سے اس کی توقع رکھنا بے معنی ہے۔

شاہد وفا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شاہد وفا

شاہد وفا ایک براڈکاسٹ جرنلسٹ اور لکھاری ہیں۔ معاشرے میں تنقیدی سوچ اور شعور اجاگر کرنا چاہتے ہیں اس لیے معاشرتی ممنوعات کو چیلنج کرنے، جمود توڑنے اور سماجی منافقت کو بے نقاب کرنے کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

shahid-wafa has 31 posts and counting.See all posts by shahid-wafa