کافی کی کئی اقسام معدومی کے خطرے سے دوچار


ہم عام طور پر کافی کے صرف دو اقسام استعمال کرتے ہیں

ہم عام طور پر کافی کے صرف دو اقسام استعمال کرتے ہیں

دنیا بھر میں کافی کے پودوں کو لاحق خطرات کا پہلی بار تفصیلی اندازہ لگایا گیا ہے جس میں یہ امر سامنے آیا ہے کہ کافی کے 124 پودوں میں سے 60 فیصد پودے معدوم ہونے کے قریب ہیں۔

کافی کی سو سے زائد اقسام کے پودے قدرتی طور پر جنگلوں میں اگتے ہیں جن میں وہ دو اقسام بھی شامل ہیں جو پینے والی کافی کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار ‘پریشان کن’ ہیں کیونکہ جنگلی کافی عالمی طور پر کافی کے فصل کے استحکام کے لیے انتہائی اہم ہے۔

دنیا میں پانچ میں سے ایک پودے کو معدومی کا خطرہ ہے، اور 60 فیصد کا ہندسہ ‘بہت زیادہ’ ہے۔

رائل بوٹینیک گارڈنز، کیو کے ڈاکٹر آرون ڈیوس کہتے ہیں کہ ‘اگر جنگلی اقسام نہ ہوتیں دنیا کو آج پینے کے لیے اتنی کافی نہ ملتی۔

‘کیونکہ اگر آپ کافی کی کاشتکاری کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو ہم نے کافی کی فصل کو مستحکم بنانے کے لیے جنگلی اقسام کا استعمال کیا ہے۔’

عربیکا کافی ایتھوپیا میں پائی جاتی ہے

عربیکا کافی ایتھوپیا میں پائی جاتی ہے

‘سائنس ایڈوانسز’ جریدے میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق جنگلی کافی کے تحفظ کے لیے ‘ناکافی’ اقدامات کیے گئے، جن میں وہ اقدامات بھی شامل تھے جو طویل المدت عالمی طور پر کافی کی پیداوار کے لیے ‘انتہائی اہم’ سمجھے جاتے ہیں۔

تحقیق سے یہ سامنے آیا ہے کہ جنگلی کافی کی 75 اقسام کو معدومی کے خطرے کا شکار سمجھا گیا ہے، 35 کو کوئی خطرہ نہیں اور بقیہ 14 کے بارے میں کوئی فیصلہ کن رائے دینے کے لیے بہت کم معلومات دستیاب ہیں۔

اس کے علاوہ، یہ بھی پتا چلا کہ جنگلی کافی کی مختلف اقسام کا 28 فیصد غیرمحفوظ علاقوں میں اگتی ہیں اور ان میں سے تقریباً نصف سیڈ بینکس میں محفوظ ہیں۔

اسی حوالے سے گلوبل چینج بیالوجی کی ایک اور تحقیق کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کو مدنظر رکھتے ہوئے جنگلی ‘عربیکا’ کافی کو باضابطہ طور پر خطرے سے دوچار (آئی یو سی این کی سرخ فہرست) قسم قرار دیا جا سکتا ہے۔

اس تحقیق کے مطابق اس کی قدرتی آبادی سنہ 2088 تک صرف موسمیاتی تبدیلی سے 50 فیصد تک سکڑ جانے کا امکان ہے۔

جنگلی ‘عربیکا’ کافی کی کاشت کے لیے بیجوں کی فراہمی کا کام دیتی ہے اور اس کو ایک الگ سے فصل کے طور پر بھی کاشت کیا جاتا ہے۔

ایتھوپیا عربیکا کافی کا گھر ہے جیاں یہ برساتی جنگلوں میں قدرتی طور پر پیدا ہوتی ہے۔

ادیس ابابا میں قائم انوائرمنٹ اینڈ کافی فارسٹ فورم کے ڈاکٹر ٹڈیس وولڈمریم گول کہتے ہیں کہ ’ایتھوپیا کے لیے اور دنیا میں عربیکا کافی کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہمیں اس کے جنگلوں میں بچاؤ کے خطرات کو سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔‘

جنگلی کافی کیا ہے اور ہمیں اس کی ضرورت کیوں ہے؟

کافی استعمال کرنے والے بہت سے افراد اس امر سے بے خبر ہیں کہ ہم کافی کی ہزاروں قسم کے ذائقوں کے لیے کافی کی صرف دو اقسام کا استعمال کرتے ہیں یعنی ’کافیا عربیکا‘ اور ’کافیا روبسٹا۔‘

کافی کو مختلف ذائقوں میں پیش کیا جاتا ہے

درحقیقت، کافی کی 122 اقسام قدرتی طور پر جنگلوں میں پیدا ہوتی ہیں۔

ان جنگلی کافی کی بہت سی اقسام پینے میں خوش ذائقہ نہیں ہوتیں لیکن بہت سی اقسام میں ایسے جینیاتی عناصر ہوتے ہیں جو موسمیاتی تبدیلی اور کافی کے پودوں میں بیماری پیدا ہونے جیسے عوامل کے باوجود کافی کے پودوں کی مستقبل میں بقا میں کے لیے مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔ محققین کہتے ہیں کہ ‘طویل المدت میں، ہمیں دنیا میں کافی کی فصل کے مستقبل کے لیے جنگلی اقسام کو بچانے کی ضرورت پر زور دینا ہوگا۔

معدومی کے خطرات سے دوچار دیگر پودوں سے موازنہ

عالمی طور پر کافی کے 60 فیصد کے مقابلے میں پانچ میں سے ایک پودا معدومی کے خطرے سے دوچار ہے۔

تقابلی طور پر، تقریباً نصف جنگلی چائے اور آم کی اقسام کو معدومی کے خطرے کا سامنا ہے، چھ فیصد ریٹھے اور نو فیصد پستے کے پودوں کو خطرہ ہے۔

جنگلی کافی کہاں پائی جاتی ہے؟

جنگلی کافی کی زیادہ تر اقسام افریقہ کے دور دراز جنگلوں اور جزیرہ مڈغاسکر میں اگتی ہے۔ افریقہ کے علاوہ یہ انڈیا، سری لنکا اور آسٹریلیا کے کچھ حصوں میں بھی پائی جاتی ہے۔

ہم کس قسم کی کافی پیتے ہیں؟

کافی کی عالمی تجارت دو اقسام پر منحصر ہے یعنی عربیکا اور روبسٹا۔

کولمبیا میں کافی کی فصلیں

ایک تیسری قسم لبریکا (کافیا لبریکا) بھی دنیا بھر میں اگائی جاتی ہے لیکن کافی نوش افراد اس کا استعمال کم ہی کرتے ہیں۔

فصلوں کے جنگلی رشتے دار کیا ہے؟

ایسے جنگلی پودے جو جینیاتی طور پر کاشت کی جانے والی فصلوں سے منسلک ہوتے ہیں۔

وہ خودساختہ طور پر نشو نما پاتے رہتے ہیں اور ان کی پیوندکاری گھریلو استعمال کے لیے اگائی جانے والی فصلوں کے ساتھ کیا جا سکتا ہے۔

کاشتکاری کے ابتدائی دور سے ہی ان کا استعمال فصلوں کی پیداوار اور غذائی معیار کو بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

سائنسدانوں کا مطالبہ کیا ہے؟

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ ہمیں کافی کی کاشتکاری کو لاحق خطرات کو ضرور سمجھنا چاہیے اور اس امر کو یقینی بنانا چاہیے کہ ہمارے پاس ان خطرات سے نمٹنے کے لیے ذرائع موجود ہوں۔

گرم علاقوں میں پائے جانے والے بہت سے پودوں کی طرح جو کافی کے بیج بھی سخت ٹھنڈ میں ِخراب ہو جاتے ہیں اور 45 فیصد کافی کی اقسام جنگلی علاقوں کے علاوہ کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔

ڈاکٹر ایمیئر نک لگھدھا کہتی ہیں کہ کافی کی معدومی کے خطرے کو جاننے کے لیے پہلی بار آئی یو سی این ریڈ لسٹ نے تخمینہ لگایا ہے اور ساٹھ فیصد کا ہندسہ ‘انتہائی زیادہ’ ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ‘ہم امید کرتے ہیں کہ نئے اعداد و شمار ان اقسام کی نشاندہی کریں گے جنھیں کافی کی پیداوار مستحکم رکھنے لیے ترجیح دینا ہوگی تاکہ ان اقسام کو بچانے کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32540 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp