منٹو، فحش نگار اور چغد


منٹو فحش نگار ہے جو لوگ یہ کہتے ہیں شاید ان کو معلوم نہیں ہے کہ عام آدمی اردو ادب میں پہلا نام ہی منٹو کا لیتا ہے۔

جو لوگ کتب بینی نہیں بھی کرتے وہ بھی منٹو اور عصمت چغتائی کا نام جانتے ہیں اور ان کی کتب ایسے گھروں میں دیکھی ہیں جہاں اور کوئی کتاب نہیں ہوتی لیکن منٹو اور عصمت چغتائی کی کتاب موجود ہوتی ہے اپنے ذاتی تلذذ کے لئے اور یہی وہ لوگ ہیں جو منٹو کے چند افسانے پڑھ کر منٹو کو فحش نگار قرار دیتے ہیں۔ منٹو ایک ادیب تھے جن کے قلم سے نکلے نشتر رہتی دنیا تک ایسے لوگوں کے دماغوں میں چبھتے رہیں گے جن کی سوچ جنس اور مذہب سے باہر نہیں نکلتی۔

منٹو انسان کو انسانیت کی اس بلندی پر دیکھنا چاہتے تھے جہاں اس کو ہونا چاہیے۔ اشرف المخلوقات کو اسفل درجے پر فائز ہوتے دیکھنا ان کے لئے ناقابل برداشت تھا، لیکن ان کو دیکھنا پڑا، بر صغیر کی تقسیم کے دوران انسانیت کا برہنہ جنازہ جس طرح اٹھا وہ تاریخ کا سیاہ باب ہے جس کو ہر ایک نے اپنے انداز میں بیان کیا لیکن منٹو نے جس طرح اس عظیم دکھ کو اپنے افسانچوں میں سمو یا ہے وہ صرف صاحب دل انسان ہی سمجھ سکتا ہے۔

حیوانیت۔ رعایت۔ مزدوری۔ جیلی۔ ہمیشہ کی چھٹی جیسے افسانچوں کے بعد کوئی منٹو کو فحش نگار کہے تو وہ منٹو کا کردار ”چغد“ لگنے لگتا ہے۔

منٹو ایک ادیب تھے انہوں نے وہی لکھا جو دیکھا ایک ادیب اپنے سماج کا نمائندہ ہوتا ہے وہ اپنے دل کی بات من و عن بیان کردیتا ہے، چاہے وہ کسی کو پسند آئے یا نہ آئے، یہ تو ویسے بھی قاری کی مرضی ہے کہ وہ کیا پسند کرتا ہے لیکن کسی کو زبردستی مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ یہ پڑھو اور یہ نہ پڑھو ایسا نہیں کیا جا سکتا، ایک آزاد ملک کی فضا میں سانس لینے والے فرد کو ہم کیسے مجبور کر سکتے ہیں، فحاشی ہے کیا؟ میرے ذہن میں فحش یا غلط بات وہ ہے جو میں کسی کے سامنے نہ کہہ سکوں نہ کر سکوں لیکن معاشرے میں جگہ جگہ ایسی باتیں اور افعال ہوتے نظر آتے ہیں جو نہ صرف اسلامی بلکہ سماجی لحاظ سے ممنوع ہیں لیکن کھلے عام ہو رہے ہیں گویا ہم سب ہی فحش نگار ہیں، اسی نکتے کو منٹو نے یوں بیان کیا ہے۔

ہم لکھنے والے پیغمبر نہیں، ہم ایک ہی چیز کو ایک مسئلے کومختلف حالات میں مختلف زاویوں سے دیکھتے ہیں اور جو کچھ ہماری سمجھ میں آتا یے، دنیا کے سامنے پیش کر دیتے ہیں اور کبھی مجبور نہیں کرتے کہ وہ اسے قبول ہی کرے۔

ہم اپنے افسانوں میں خاص عورتوں اور خاص مردوں کے حالات پر روشنی ڈالتے ہیں۔ (افسانہ نگار اور جنسی مسائل) ۔
اپنے مضمون شریف عورتیں اور فلمی دنیا میں رقم طراز ہیں ”ویشیا پیدا نہیں ہوتی، بنائی جاتی ہیں یا خود بنتی ہے، جس چیز کی مانگ ہو منڈی میں ضرور آئے گی۔
”اگر عورت عصمت باختہ ہو سکتی ہے تو کیا مرد نہیں ہو تا اگر ان سوالوں کا جواب اثبات میں ہے تو کیا وجہ ہے کہ ہمارے تیروں کا رخ صرف عورت کی طرف ہوتا ہے“

کسی اور ادیب نے اس دھڑلے سے صنفی مساوات پر نہیں لکھا جس طرح منٹو لکھ گئے۔

چچا سام کے نام خطوط، تحدید اسلحہ میں منٹو نے فراست کے ساتھ بین الاقوامی معاملات پر روشنی ڈالی ہے وہ دلچسپ ہونے کے ساتھ ساتھ فکر انگیز بھی ہے لیکن لوگوں کو صرف ٹھنڈا گوشت اور کالی شلوار یاد رہتی ہے حالانکہ کالی شلوار کس کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ ہے سمجھنے والے سمجھتے ہیں۔

افسانہ اللہ دتہ کے پس منظر کو ذرا اپنے معاشرے کے اللہ دتوں کو سامنے رکھتے ہوئے پڑھئے اور کانپیے، منٹو کو فحش نگار نہ کہیے۔
منٹو نے عمومی انسانی نفسیات کا بیان سادہ زبان میں تحریر کیا ہے۔ افسانہ سبز سینڈل۔ ڈر پوک۔ الو کا پٹھا اس کی مثالیں ہیں۔

سماجی حقیقت نگاری کو بیان کرنے والے ادیب سے ہم نظر نہیں چرا سکتے چاہے ہم اس پر بحث کریں نہ کریں، پابندی لگائیں یا نہ لگائیں۔ منٹو ہمیشہ زندہ رہیں گے، اپنے افسانوں۔ اپنے مضامین اور اپنے خاکوں کے ذریعے، وہ خود لکھتے ہیں ”میرے افسانے تندرست اور صحت مند لوگوں کے لئے ہیں“

منٹو کے عمیق مشاہدے اور سوچ کی گہرائی میں اترنے کے لئے منٹو کے افسانوں کے ساتھ ساتھ ان کے تحریر کردہ مضامین اور خاکوں کا مطالعہ ضروری ہے تا کہ ہم بہ حیثیت انسان ایک روشن ضمیر ادیب کو سمجھ سکیں اور اپنی محدود سوچ کو وسیع کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).