سیاسی عدم استحکام اور قصہ 18 ویں ترمیم کا


مملکت خداداد کا پہلا آئین مرتب ہونے میں تقریباً نو سال لگے۔ 12 مارچ 1949 ء کو لیاقت علی خان نے آئین ساز اسمبلی میں قراردادِ مقاصد پیش کی، جو علامہ شبیر احمد عثمانی نے تیار کی تھی۔ اسمبلی نے بل کا مسودہ تیار کیا، جو کہ 29 فروری 1956 ء کو پاکستان کا آئین قرار پایا۔ اس وقت ملک میں افراتفری بہت تھی۔ ون یونٹ پالیسی کی وجہ سے مغربی پاکستان کے صوبوں کے مابین عدم اطمینان پایا جاتا تھا، جس کا مقصد مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کو ایک بڑے صوبہ بنا کر مشرقی پاکستان کی اجارہ داری روکنا تھا۔

آئین کے مسودے نے پاکستان کو ایک اسلامی جمہوری مملکت کے طور پر متعارف کروایا۔ جس کے بعد سندھیوں، پشتونوں، بلوچوں اور بنگالیوں نے یہ محسوس کیا کہ بل کا مسودہ تمام صوبوں کی مختلف ثقافتوں کو شامل کرنے کی بجائے، پنجابیوں کے مفادات کا نگہبان ہے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان اختلافات اور کشیدگی میں پہلے ہی مسلسل اضافہ ہو رہا تھا اور یہ مزید اس وقت بڑھا جب 1956 ء کا آئین منظور کیا گیا۔ اس کے بعد، عوامی لیگ، آزاد پاکستان پارٹی، پاکستان کمیونسٹ پارٹی، متحدہ پروگریسو پارٹی اور مذہبی اقلیتی گروپوں سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں نے ایک ریلی نکالی۔ بنیاد یہ بنی کہ بنگالیوں کی کثیر آبادی ہونے کے باوجود ان کے ووٹروں کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا گیا۔ مزید برآں، ون یونٹ اسکیم میں صوبائی خودمختاری بہت کم تھی، اور صدر کو ایمرجنسی نافذ کرنے اور فوج کو کنٹرول سنبھالنے کے لیے بلانے کی اجازت دے کر فوج کو باضابطہ سیاست کا حصہ بنانے کی کوششیں واضح تھیں۔ مذکورہ چالاکیوں اور کہہ مکرنیوں کے باوجود شکوک و شبہات دور اور گھر کی بات گھر میں رہ کر حل کی جا سکتی تھی۔

طالع آزماؤں نے آئین پر صرف دو سال تک ہی عمل ہونے دیا پھر اسے معطل کر کے جنرل محمد ایوب خان نے مارشل لاء نافذ کر دیا۔ اس کے بعد جبر اور گھٹن کی چادر تن گئی۔ جس دور کو ہم سنہرا باب سمجھتے ہیں اور ڈیمز کی تعمیر پر فخر کرتے ہیں۔ اسی دورانیے میں ہم نے تین دریا ہندوستان کی جھولی میں ڈالے اور نہ صرف مس ایڈونچر کی وجہ سے جنگ کو گلے لگایا بلکہ کشمیر کاز کو نقصان پہنچانے کے مرتکب ہوئے۔ داخلی محاذ پر باہم کدورت اتنی بڑھا لی کہ اکہتر میں بے تحاشا کشت و خون بہنے کے باوجود گھر کی تقسیم نہ رک سکی۔ آج دردمندی سے اختلاف رکھنے والی آواز اگر دبائی جاتی ہے، تو اس وقت بھی یہی چلن رائج تھا۔

پاکستان میں فی الوقت وفاقی پارلیمانی نظام رائج ہے جس میں اصل اختیار وزیراعظم کے پاس ہے جسے عوام براہ راست ووٹ سے منتخب کرتے ہیں، بعدازاں ایوان زیریں کے ارکان کی اکثریت سے وہ اس عہدے پر فائز ہوتا ہے۔ اس کے برعکس صدر مملکت کا انتخاب عوام کے بجائے پارلیمانی الیکٹورل کالج کرتا ہے۔ ماضی میں صدر کے عہدے کو دیگر بہت سے اختیارات مثلا 58 ( 2 ) b بھی حاصل رہے جس کی وجہ سے جمہوری سفر میں رخنہ اندازی کے ساتھ ریاستی ادارے بھی متنازع اور تباہ ہو کر رہ گئے۔

یہ متنازعہ آئینی شق پیپلز پارٹی کے پچھلے دور حکومت میں بذریعہ اٹھارویں ترمیم آئین سے نکال باہر کر دی گئی اس کے ساتھ ساتھ وفاق کی اکائیوں کے تحفظات کے ازالے کی بڑی حد تک تدبیر بھی کر لی گئی۔ لیکن گمان ہوتا ہے ہم پون صدی سے اک دائرے میں محو سفر ہیں، اور گاہے یہ لگتا ہے یہ قوم ہی نہیں بلکہ بھیڑوں کا اک گروہ ہیں جسے نا دیدہ لاٹھی جس طرف چاہے ہنکا لے جاتی ہے۔

شنید ہے کہ حالیہ سیاسی محاذ آرائی کو جلا بخشنے والے دلوں میں اسی ترمیم کا کانٹا کھٹک رہا ہے۔ کہا جاتا ہے مضبوط مرکز کی حامی لابیز کو مجموعی وسائل میں وفاقی حکومت کے حصے کی کٹوتی پر زیادہ غصہ ہے جو ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں 50 فیصد سے کم کر کے 42.5 فیصد کردیا تھا۔ 18 ویں ترمیم میں، آئین کے آرٹیکل 160 ( 3 ) (a) میں صراحت سے صوبوں کو یہ تحفظ دیا گیا تھا کہ ”قومی مالیاتی کمیشن کے ہر ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ، اُس حصے سے کم نہیں ہوگا جو صوبوں کو پچھلے ایوارڈ میں دیا گیا تھا۔

” اس ترمیم کے ناقدین کو زیادہ اعتراض بھی اس پر ہے کیونکہ یہ وفاقی حکومت کو مجموعی وسائل میں اپنا حصہ بڑھانے کی اجازت نہیں دیتی۔ وفاق کے حصے کی رقم کا بڑا حصہ ایک دفاعی بجٹ کی مد میں جاتا ہے۔ دوسرا بڑا حصہ debt سروسنگ پر خرچ ہوتا ہے۔ لہذا وفاقی اخراجات پورے ہونے مشکل ہو جاتے ہیں اسی باعث واویلا ہوتا ہے۔ غیر متناسب شرح آبادی اور وسائل رکھنے والی وفاقی اکائیوں کو باہم مربوط رکھنے کے لیے اس ترمیم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ سنگین مضمرات کی حامل یا چھوٹی اکائیوں کے لیے تحفظات کا سبب بن سکتی ہے۔ وفاق کو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے دیگر ذرائع مثلا محاصل اور مجموعی قومی پیداوار میں اضافے کی سنجیدہ کاوش کرنی چاہیے۔

18 ویں ترمیم پر صوبوں کو بھی کچھ اعتراض ہیں۔ بعض اعتراض اپنی جگہ اہم بھی ہیں مثلا مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے میں وفاق کی جانب سے لیت و لعل سے کام لینا۔

مشترکہ مفادات کونسل کا اپنا سیکریٹیریٹ نہ ہونا۔ قدرتی وسائل کی تقسیم پر اعتراض بھی قابل غور ہیں۔ 18 ویں ترمیم کے ناقدین کہتے ہیں یہ ترمیم جلد بازی میں منظور کی گئی۔ حالانکہ ترمیم کرنے والی پارلیمانی کمیٹی کے نو ماہ میں 200 اجلاس ہوئے۔ اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے رائے عامہ لی گئی۔ بار کونسلوں سے بھی درخواست کی گئی کہ وہ تجاویز دیں۔

اب اچانک زرداری صاحب چیخ رہے ہیں کہ ان پر زمین و آسمان تنگ کرنے کے پیچھے 18 ویں ترمیم ختم کرنے کی خواہش ہے۔ قائد انقلاب خود اس بات کو یہ کہہ کر مہمیز دے رہے ہیں کہ چوروں اور لٹیروں کے خلاف کارروائی ہوتی ہے تو جمہوریت اور 18 ویں ترمیم خطرے میں پڑنے کی دہائی دی جاتی ہے۔ قائد انقلاب یہ جانتے ہوئے بھی کہ وفاق اور پنجاب حکومت ایک پھونک کی مار نہیں سندھ فتح کرنے کی کوشش میں ہیں۔ حالانکہ جس شاخ نازک پر وہ بیٹھے ہیں ان کا یہ عمل خودکشی کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔

درون خانہ کیا کھچڑی پک رہی ہے واقفان حال ذرائع بتاتے ہیں فوجی عدالتوں کی توسیع پر دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں کے طرز عمل سے اندازہ ہوگا۔ پھر بھی اگر تبدیلی نا گزیر ہو تو ان ہاؤس ہونی چاہیے۔ انقلاب کی راہ دکھلانے والے دانشور مگر چند دنوں سے غیر محسوس انداز سے صدارتی نظام اور 18 ویں ترمیم کے خاتمے کے لیے عوام کو تیار کر رہے ہیں، مختلف لسانی اکائیوں والے وفاق پر اس کے نتائج سوچ کر دل میں ہول اٹھتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).