لاپتہ افراد کی بازیابی: دس سالہ احتجاج اور دو ماہ کی مہلت


پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے لواحقین کی جانب سے احتجاجی کیمپ وزیر اعلی بلوچستان جام کمال خان اور صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاء اللہ لانگو کی اس یقین دہانی پر دو ماہ کے لئے بند کر دیا گیا ہے کہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے صوبائی حکومت غیر معمولی اقدامات اٹھاتے ہوئے اس اہم مسئلے کو حل کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرے گی یہ احتجاجی کیمپ کوئٹہ پریس کلب سے متصل گزشتہ دس سال سے قائم تھا وزیر سیکرٹریٹ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصراللہ بلوچ ڈپٹی چیئرمین ماما عبدالقدیر بلوچ اور صوبائی وزراء کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلی بلوچستان جام کمال خان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے لوگ مسنگ پرسنز کے حوالے سے کٹھن دور سے گزر رہے تھے ہم نے سنجیدگی سے مسنگ پرسن کے مسئلے پر غور کیا اس حوالے سے وزیراعظم کی جانب سے بھی مثبت جواب ملا، مسنگ پرسن کے حوالے سے تمام اسٹیک ہولڈرزسے بات کریں گے مسنگ پرسن کے لواحقین کا ہمارے پاس آنا تعجب کی بات نہیں بات چیت اور دلائل سے معاملات کا حل ممکن ہے بطور وزیر اعلی کوشش ہے کہ مسنگ پرسنز کا مسئلہ حل ہو ہم نے مسنگ پرسن کے کیمپ میں بیٹھے لوگوں سے کچھ وقت مانگا ہے کوشش ہے کہ مسنگ پرسن کی فیملیز کو خوش خبریاں دیں ہم کوئی پوائنٹ سکورنگ نہیں کر رہے، ماما قدیر اور نصراللہ ساتھ بیٹھے ہیں انہیں یقین دلاتے ہیں کہ مسائل حل ہوں گے۔

وزیر اعلی بلوچستان نے کہا جب سے صوبے میں ہماری حکومت بنی ہے ہم نے اس وقت سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے سنجیدہ کوششیں شروع کر دی ہیں ہم نمبر گیمز کے عادی نہیں ہم عملی کام کرنا چاہتے ہیں ہماری حکومت گزشتہ 5 ماہ سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے کوششوں میں مصروف ہے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز نے حکومت سے رابطہ کیا ہماری ان سے میٹنگ ہوئی انہوں نے فی الوقت ڈھائی سو افراد کے لاپتہ ہونے کی فہرست دی ہے اس فہرست کا موازنہ ہم وزارت داخلہ کی مرتب کردہ فہرست سے کرکے اتفاق رائے قائم کریں گے اس سے پہلے جو افراد لاپتہ ہوئے ہیں ان کے بارے میں بھی تحقیقات ہو رہی ہیں بہت سے معاملات ہیں جن کی نوعیت الگ ہے جن پر کام کرنے کی ضرورت ہے گزشتہ چند دنوں میں 12 افراد بازیاب ہو کر اپنے گھروں کو پہنچ چکے ہیں۔ بلوچستان کی کئی سیاسی جماعتوں نے اس مسئلے کوسیاسی ایشو بنانے کی کوشش کی ہم اس مسئلے پر کسی سے سیاسی اسکورنگ نہیں کرنا چاہتے عملی طور پر کام کرنے کے خواہاں ہیں ہماری حکومت وزیر اعظم سمیت متعلقہ اداروں اور اسٹیل ہولڈر سے بھی اس مسئلے پر رابطے میں ہیں

نصر اللہ بلوچ نے ہمیں دو ماہ کی مہلت دی ہے کہ ہم لاپتہ ہونے والے افراد کی بازیابی کے لئے اپنی کوشش کریں ہم ان کو یقین دلاتے ہیں کہ ہماری بھر پور کوشش ہو گی کہ جن اڑھائی سو افراد کی فہرست حکومت کودی ہے اس کی تصدیق کرکے انہیں بازیاب کرایا جائے تمام متعلقہ ادارے اور حکومت ایک پیج پر ہیں اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے بھر پور کوشش کر رہے ہیں نیک نیتی اور خلوص دل سے کوشش کررہے ہیں انشاءاللہ ہم نیک مقاصد میں کامیاب رہیں گے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چئیرمین نصر اللہ بلوچ نے پریس کانفرنس میں کہا کہ ہم نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے گزشتہ 10 سال سے کیمپ لگایا ہو ا ہے ہماری تنظیم غیر سیاسی ہے ہمارا مطالبہ ہے کہ لاپتہ افراد کے خلاف کوئی مقدمات ہیں تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے اور جن کے خلاف کوئی مقدمہ نہیں انہیں رہا کیا جائے اور جن کو شہید کیا گیا ہے ان کے لواحقین کو اس بارے میں اطلاع دی جائے۔ اور تمام معاملات کو ملکی قوانین کے مطابق حل کیا جائے۔

انہوں نے کہا ہم نے صوبائی حکومت کو دو ماہ کی مہلت دی ہے۔ امید ہے کہ وہ دو ماہ کے اندر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لئے اپنی کوششیں کرے گی اور کوششیں کامیاب ہوں گی اس وقت ہم نے پریس کلب کے سامنے جو کیمپ لگایا ہوا ہے وہ عارضی طور پر بند کرنے کا اعلان کرتے ہیں اور اگر دو ماہ کے بعد بھی لاپتہ افراد بازیاب نہ ہوئے تو ہم کیمپ دوبارہ کھول دیں گے اس موقع پر ماما قدیر نے کہا سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بھی وعدہ کیا تھا کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے گا مگر ایسا نہیں کیا گیا انہوں نے کہا موجودہ وزیر داخلہ میر ضیاءاللہ لانگو نے ہمارے کیمپ کا دورہ کیا اور ہمیں یقین دہانی کرائی کہ لاپتہ افراد کو بازیاب کیا جائے گا ہمیں ان کی اس بات پر یقین ہے کہ وہ بازیاب ہوں گے وزیر اعلیٰ بلوچستان نے مزید کہا کہ جن گھروں سے افراد لاپتہ ہوئے ہیں وہ کن سخت حالات سے گزرے ہیں ہمیں اس کا احساس ہے۔ انہوں نے کہا سوشل میڈیا پر اس بارے میں جو کچھ شائع ہوتا رہا ہے وہ حقائق پر مبنی نہیں تھا ہم خاموش نہیں بیٹھے۔ اس مسئلے کے حل کے لئے ہم کوششوں میں مصروف ہیں اور انشاءاللہ ہم اس مقصد میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مسنگ پرسنز کے حوالے سے سربراہ بلوچستان حکومت جام کمال خان کی اس پریس کانفرنس کو سیاسی و عوامی حلقوں میں غیر معمولی اقدام قرار دیا جارہا ہے اگر وزیر اعلی بلوچستان اس حساس نوعیت کے معاملے کو کسی حد تک حل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو اس معاملے پر ہونے والا ایک سیاسی چیپٹر بند ہوگا اور ایک دہائی سے چلنے والا احتجاجی سلسلہ اختتام پذیر ہو گا جس کا کریڈٹ جام حکومت کو جائے گا اور اسی تناظر میں بلوچستان کی سیاست پر جام کمال خان کی سیاسی گرفت میں غیر معمولی استحکام آئے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).