مجھے وزیر بنایا جائے


جھنگ وسطی پنجاب کا ایک پسماندہ ترین ضلع ہے۔ اس شہر کی قسمت میں ایسے سیاسی رہنما آئے کہ جن کے نام بڑے اور درشن چھوٹے تھے۔ ان میں سیدہ عابدہ حسین، فیصل صالح حیات، شیخ وقاص اکرم، وغیرہ ماضی میں کئی اہم عہدوں اور وزارتوں پر براجمان رہے ہیں، اور صاحبزادہ محبوب سلطان، صاحبزادہ امیر سلطان اور مہر اسلم بھروانہ وغیرہ اب بھی وزارتوں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ لیکن ان سب لوگوں سے جھنگ کو کوئی فائدہ حاصل نہ ہو سکا۔ آج بھی اس شہر کی تنگ گلیوں میں سے آدھی سے زیادہ گندے پانی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔

پورا شہر کچرا کنڈی بن چکا ہے۔ ہسپتالوں، اسکولوں اور سڑکوں کی حالت بد سے بدترین ہو چکی ہے۔ شہر میں تجاوزات کی بھر مار ہے، اور کسی قسم کی کوئی صنعت قائم کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی گئی۔ جھنگ سے دوسرے شہروں کو جانے والی سڑکوں پر سفر کرنا ایک کٹھن امتحان بن چکا ہے۔ خاص طور پر جھنگ سے شورکوٹ جانے والی سڑک انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ لگتا ہے ان جیسے پسماندہ ضلعوں میں رہنے والے لوگ حکمرانوں کے نزدیک انسان ہی نہیں ہیں۔ اگر ان علاقوں سے سابق خادم اعلیٰ کی سواری گزرنا ہوتی تو اس کی لیپا پوتی ضرور کر دی جاتی، لیکن اس اعزاز سے محروم رہنے والے باقی پنجاب کے سب علاقوں کی طرح اس کا بھی یہی حال ہے۔

خیر میں نے اپنے علاقے کا تعارف تو اس لئے کروایا ہے کہ مجھے بھی ایک عدد وزارت چاہیے۔ وزارت مواصلات میرے لئے زیادہ مناسب رہے گی۔ کیونکہ اس سڑک پر میں اکثر سفر کرتا رہتا ہوں اور اس سفر کے بعد کئی روز تک کسی اور سفر کے قابل نہیں رہتا۔

میرے کئی پڑھنے والے زیر لب مسکرا رہے ہوں گے، کئی کی ہنسی چھوٹ رہی ہوگی، اور کئی میری دماغی صحت کے بارے متفکر ہو گئے ہوں گے۔ تو جناب میرا دماغی توازن ابھی تک تو الحمدللہ سو فیصد درست ہے۔

اگرچہ میری تجویز کے قابل عمل ہونے میں کئی دشواریاں حائل ہیں۔ جیسا کہ میں کسی بھی معزز ایوان کا منتخب رکن نہیں ہوں، لیکن اس صورت میں بھی مجھے کم از کم مشیر تو تعینات کیا جا سکتا ہے۔

اور رہی بات یہ کہ میں اس وزارت کا صحیح حق دار ہوں یا نہیں، تو جناب جان لیجیے مجھ سے زیادہ اس وزارت کا کوئی حق دار نہیں ہے، اور یہ بات میں مثال دے کر ثابت کر سکتا ہوں۔

اگر گیارہ کروڑ کی آبادی والا پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ایک ایسے شخص کے حوالے کیا جا سکتا ہے، جس کی واحد قابلیت یہی ہے کہ اس کا تعلق ایک پسماندہ علاقے سے ہے، جہاں بجلی اور اسکول نہیں ہے، تو اسے میعار مان کر مجھے وزارت موصلات کیوں نہیں دی جا سکتی۔ میرے علاقے میں بھی تو یہ سب کچھ نہیں ہے۔

اگر تو قابلیت، انتظامی صلاحیت، تجربہ، سیاسی بلوغت، قوت فیصلہ اور ویژن جیسی بے وقعت چیزیں تبدیلی سرکار کے لئے میعار ہوتیں تو میں یہ مطالبہ ہرگز نہ کرتا، لیکن نئے پاکستان کو چلانے کے لئے جو قابلیت چاہیے اس کے حساب سے تو وزارت پر پہلا حق میرا ہے۔

اور صرف یہی نہی بلکہ اسی میعار کے مطابق میں کم از کم پنجاب حکومت کی پوری کابینہ کے لئے لگ بھگ سبھی اہم وزیر مہیا کر سکتا ہوں۔

میرے گاؤں میں ہی ہمارے پڑوس میں چاچا رمضان لوہار سارا دن اپنی جھگی کے سامنے ٹوٹی ہوئی چارپائی پر دھوپ میں لیٹا رہتا ہے، اور کھانس کھانس کر خون تھوکتا رہتا ہے۔ چاچا ٹی بی کا پرانا مریض ہے۔ اب ڈاکٹروں نے یرقان بھی بتایا ہے۔ چاچے کو اور بھی کئی بیماریاں ہوں گی۔ کیونکہ چاچا پاس والے گاؤں کی سرکاری ڈسپنسری کے باقاعدگی سے چکر لگاتا رہتا ہے۔ میرے خیال سے چاچا رمضان وزارت صحت کی سربراہی کے لئے سب سے موزوں امیدوار ہے۔ ظاہر ہے چاچے سے زیادہ کسے بیماریوں کی سنگینی، لاچاری، اور دکھ کا اندازہ ہو گا۔

خدا بخش موچی کے ایک ہی بیوی سے تیرہ بچے ہیں چودھواں خیر سے پیٹ میں ہے۔ اس کے بچوں میں سے کسی کے پیر میں جوتا نہیں ہوتا تو کسی کے تن پر کپڑا نہیں ہوتا۔ بھوکے تو سب اکثر ہی رہتے ہیں اور ناک بھی آدھوں کی ضرور بہتی رہتی ہے اب خدا بخش کو معاملے کی سنگینی کا احساس ہونے لگا ہے۔ میرا خیال خاندانی منصوبہ بندی کی وزارت اسے سونپ دینی چاہیے۔

کرم دین ترکھان کے سات لڑکے تھے اور چار لڑکیاں ہیں۔ غربت کی وجہ سے کسی کو بھی پڑھا نہیں سکا۔ بڑا سارا دن ہاتھ میں تیتر کا پنجرہ لئے سڑکوں پر گھومتا رہتا ہے، اور چرس کے سوٹے بھی لگاتا ہے۔ اس سے چھوٹے دونوں جواری بن چکے ہیں۔ ایک سائیں بن گیا اور نزدیک ہی ایگ بزرگ کے دربار پر پڑا رہتا ہے۔ ایک بس کنڈکٹری کرتا تھا پچھلے سال سڑک حادثے میں ایک ٹانگ گنوا بیٹھا اور اب سارا دن گھر پڑا رہتا ہے۔ اس سے چھوٹا مزدوری کرتا ہے۔ ساتواں ابھی چھوٹا ہے۔ بڑی لڑکیوں میں سے ایک کی شادی کی تھی جو چھ ماہ سسرال میں رہنے کے بعد روٹھ کر گھر واپس آگئی۔ اس سے چھوٹی دو سال پہلے مصلیوں کے لڑکے کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ باقی دو لڑکیاں اپنی ماں کے ساتھ کپاس کے کھیتوں میں مزدوری کرنے جاتی ہیں۔

کرم دین وزارت داخلہ یا وزارت تعلیم کے لئے سب سے زیادہ کوالیفائی کرتا ہے۔

چاچے وریام سیال کے پاس پورے آٹھ بیگھے زمین ہے۔ چاچا وریام اپنے تین بیٹوں کے ساتھ برسوں سے اس زمین پر کاشتکاری کر رہا ہے۔ بیچ میں کچھ اچھے سال بھی آئے تھے گیہوں، کپاس اور گنے کے دام اچانک بڑھ گئے تھے۔ چاچے نے کچھ پاس پڑوس کی زمین ٹھیکے پر لے لی اور گنا اگانا شروع کر دیا تھا۔ گھر کا ایک کمرہ پکا بن گیا اور دوسرے کی اینٹیں بھٹے سے اٹھوا لی تھیں۔ زرعی ترقیاتی بینک سے کچھ قرض لے کر ایک پرانا ٹریکٹر بھی خرید لایا تھا، بس اس سے اگلے سال ان لوگوں کی سرکار آگئی جن کی پورے صوبے میں گنے کی ملیں تھیں۔

انہوں نے سب سے پہلے تو صوبے میں گنے کی جو قسم سب سے زیادہ کاشت کی گئی تھی اس کو ممنوعہ قسم قرار دے دیا، اور وزن اور پیسے کی کٹوتی شروع کر دی۔ اس کے بعد رقم کی ادائیگی بھی روک لی۔ چاچے نے ٹریکٹر، درخت اور بیوی بیٹیوں کے زیورات بیچ کر کھاد، ڈیزل اور دوائی والوں کے حساب بڑی مشکل سے چکائے، پر زرعی بینک کا قرض پھر بھی باقی رہ گیا۔ اب چاچے کی اپنی زمین پر بھی گنے کی فصل باقی نہیں رہی۔ دوسرے کمرے کی تعمیر کے لئے منگوائی گئی اینٹوں کاچٹھا ویسے کا ویسا پڑا رہ گیا ہے۔ چاچے کا ایک بیٹا اب کرائے کا چنگ چی چلاتا ہے، اور دوسرے دو صبح سویرے اپنی سائیکلوں پر شہر مزدوری کرنے چلے جاتے ہیں۔ چاچا اب سارا دن چارپائی پر بیٹھ کر حقا پیتا رہتا ہے۔ چاچے کا تجربہ اور لیاقت کس کام کی؟ اگر اس کے ہوتے ہوئے کسی اور کو وزیر زراعت یا وزیر خزانہ لگا دیا جائے۔

پاکستانیوں کی آگے کنواں پیچھے کھائی والی مثال ہے۔ گزرے دس سال کی لوٹ مار سے تنگ آ کر اپنی آخری امیدیں عمران خان کے ساتھ لگا لی تھیں کہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ اچھے دن دیکھیں گے، لیکن ان لوگوں کی نا اہلی، غیر سنجیدگی اور ناتجربہ کاری کی وجہ سے تبدیلی کی ہانڈی بیچ چوراہے پھوٹ چکی ہے۔ عمران خان کی مثال اس مرغی کی سی ہے جو صحت مند چوزے نکلنے کی امید لے کر گندے انڈوں پر بیٹھ گئی ہے۔

خیر یہ مرغی اور انڈوں کا ذکر کسی اور وقت تک کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔ ابھی تو آپ سب سے دست بستہ گزارش ہے کہ مجھے وزارت مواصلات دلوانے کے لئے ایک بھر پور مہم چلائیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).