ساہیوال سی ٹی ڈی مقابلہ: ڈپٹی کمشنر ساہیوال کے بیان نے مزید متنازع بنا دیا


 

اڈا قادر آباد کے قریب سی ٹی ڈی کی جانب سے کیے جانے والے مشکوک پولیس مقابلے کو ڈپٹی کمشنر ساہیوال کے بیان نے مزید متنازع بنا دیا ہے۔

ساہیوال میں مشکوک سی ٹی ڈی مقابلے کو پولیس کے اپنے ہی بیانات نے پہلے ہی متنازع کردیا تھا لیکن اب ڈپٹی کمشنر ساہیوال کے بیان نے اسے مزید مشکوک بنا دیا ہے۔ ڈپٹی کمشنر ساہیوال نے کہا ہے کہ سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے مارے جانے والے کار سواروں کی جانب سے کوئی مزاحمت نہیں کی گئی۔ لاشیں پوسٹ مارٹم کیلئے ہسپتال منتقل کی جارہی ہے۔

خیال رہے کہ سی ٹی ڈی اور پولیس کی جانب سے مقابلے کے حوالے سے ایک موقف یہ آیا کہ مقابلے میں مارے جانے والے افراد اغوا کار تھے جنہوں نے تین بچوں کو اغوا کیا تھا۔ ایک اور بیان میں موقف اپنایا گیا کہ مارے جانے والے افراد عالمی دہشت گرد تنظیم داعش کے کارندے تھے جنہوں نے سی ٹی ڈی پر فائرنگ کی اور جوابی کارروائی میں مارے گئے۔

پاکستان بالخصوص پنجاب میں اکثر پولیس مقابلوں کیلئے ایک ہی کہانی کو دو مختلف انداز میں سنایا جاتا ہے۔ اس کہانی کا ایک انداز یہ ہے کہ پولیس ملزمان کو لے کر برآمدگی کے لئے جا رہی تھی کہ ان کے ساتھیوں نے آ کر فائرنگ کر دی، پولیس نے بھرپور مقابلہ کیا لیکن پولیس کے ساتھ برآمدگی کے لئے جانے والے ملزمان اپنے ہی ساتھیوں کی گولیوں سے ہلاک ہو گئے جبکہ انہیں چھڑانے کی کوشش کرنے والے ملزمان اندھیرے کا فائدہ اٹھا کر فرار ہوگئے۔ اسی کہانی کا دوسرا انداز کچھ یوں ہے کہ پولیس نے ایک جگہ پر چھاپہ مارا تو وہاں موجود ملزمان نے اہلکاروں پر فائرنگ کر دی جس پر پولیس نے جوابی کارروائی کی اور ملزمان مارے گئے۔

واضح رہے کہ سی ٹی ڈی کی جانب سے ساہیوال اور اوکاڑہ کے وسط میں واقع اڈا قادر آباد کے قریب ایک مقابلے کے دوران 4 افراد کو ہلاک کیا گیا ہے۔ جاں بحق ہونے والے افراد لاہور کے علاقے چونگی امر سدھو کے رہائشی تھے جو بورے والا اپنے ایک عزیز کی شادی میں جا رہے تھے۔ سی ٹی ڈی کی جانب سے جس گاڑی پر فائرنگ کی گئی اس میں سے تین انتہائی کم عمر کے بچے بھی ملے ہیں جبکہ جاں بحق ہونے والوں میں ایک خاتون اور ایک 12 سالہ بچی شامل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).