میں غزل کے خلاف نہیں ہوں


غزل کے بارے میں بات کرتے وقت سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ غزل کا مطالعہ بحیثیت مجموعی ہمیں کیا دیتا ہے۔ ہم اس زمانے سے کچھ باہر نکل آئے ہیں، جہاں استاد اپنے شاگردوں کو دو سو، پانچ سو غزلیں یاد کرنے کے لیے دیا کرتے تھے۔ ان غزلوں کو یادکروانے کا مقصد زبان کے ساتھ ساتھ غزل کے اصولوں کو گھول کر شاگرد کے ذہن و دل میں اتاردینا ہوتا تھا، مگر چند شاعروں کو چھوڑ کر ایسے ہزاروں شاعر، جن سے ہمارے پرانے تذکرے بھرے ہوئے ہیں، کس کام کے ہیں۔

میں بہت چھوٹی عمر سے دیکھتا آرہا ہوں کہ اردو رسالوں میں افسانوں، نظموں، تنقیدی مضامین وغیرہ کے ساتھ ساتھ غزلیں بھی شائع ہوتی ہیں۔ ان چھوٹی بڑی غزلوں سے، جو کہ ہمارے شاعر لکھا کرتے ہیں، آخر فائدہ کیا ہے، اچھا فائدہ تھوڑا غیرضروری سا لفظ ہے، یہ پوچھنا چاہیے کہ ان کی تُک کیا ہے؟ روایت کے طور پر ہر چیز کو قبول کرنا چاہیے مگر روایتی چیزوں پر سوال اٹھاتے رہنا اور ان کے بارے میں سوچنا ایسا برا کام کیوں سمجھا جائے؟

غزل اپنی پوری شکل میں کوئی چیز ہے ہی نہیں، وہ اپنے الگ الگ شعروں سے مل کر تیار ہونے والی ایک اونڈی بینڈی سی کوئی چیز ہے۔ ہر شعر کی پہچان اس کا خیال ہے، ہر خیال کی حد بندی اس کے قافیے اور ردیف کی وجہ سے ہوتی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر تو یہی محسوس ہوا ہے کہ آج تک کوئی ایسی غزل نہیں لکھی گئی ہے، جو مکمل طور پر اچھی یا بری ہو، اس میں اگر دس اشعار لکھے گئے ہیں تو چار پانچ اچھے ہوں گے، پانچ لکھے گئے ہیں تو دو یا زیادہ سے زیادہ تین۔

باقی بھرتی کے طور پر لکھے جانے والے ایسے اشعار ہوتے ہیں جو لاشعوری طور پر شاعر کو اشعار کا خلا پر کرنے کے لیے اور غزل کی مالا کو پورا پرونے کے لیے لکھے جاتے ہیں۔ اس لیے یہ تو کہا جاسکتا ہے کہ اس غزل کے اتنے شعر اچھے ہیں اور اتنے برے، مگر چونکہ غزل اپنے ساتھ تعریف اور واہ واہ کا ایک روایتی ڈھونگ بھی لپیٹے چلی آرہی ہے، اس لیے لوگ ہر شعر پر کلیجہ چیر کر رکھ دینے والی آہ اور واہ نچھاور کیے جاتے ہیں۔

یہیں سے شروع ہوتی ہے غزل کے خلاف اعتراضات کی ایک برسات۔ غزل کیا کرتی ہے اور کیا کرتی آئی ہے۔ میرے خیال میں غزل پڑھنے اور لکھنے کے کچھ ایسے نقصانات ہیں، جن پر نظر ڈالنا اور ان کے تعلق سے گفتگو کرنا ضروری ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ شعر کی حیثیت کسی لطیفے سے زیادہ کچھ نہیں۔ دو مصرعوں کا ایک شعر، آپ کو زیادہ سے زیادہ چونکا یا گدگدا سکتا ہے، اس میں فکر کے لحاظ سے پھیلاؤ نہیں ہوتا۔ گنے چنے الفاظ میں اپنی بات کہنی ہوتی ہے، بات بھی ایسی جو سننے والے کے دماغ پر ایسا اثر کرے، جس سے وہ بس دل پکڑ کر بیٹھ رہے یا پھر کسی بات کے ایسے نئے پہلو کی طرف اشارہ کردیا جائے جو سننے والے کو چونکا دے۔

پھر ان باتوں میں بھی آپ پر گزشتہ تین سو برسوں کی روایت کا ایسا اثر ہے کہ صنم، ہجر، وصال، درد، مجنوں، صحرا غزل سے پوری طرح کبھی دور نہیں کیے جاسکتے۔ اردو کے ایک بسیار گو شاعر سے جب اس بات پر کبھی جواب مانگا گیا تھا تو انہوں نے ایک اسلامی خلیفہ کا قول پیش کردیا تھا کہ باتیں اگر دوہرائی نہ جاتیں تو ختم ہوجاتیں۔ مگر غزل کے تعلق سے سمجھنا چاہیے کہ ایسی باتیں جو مستقل دوہرائی جاتی رہیں، ان کے ختم ہوجانے میں ہی عافیت ہے۔

غزل پر دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اس کا سماجی تبدیلیوں، انسانی ذہن کے ارتقا و تنزل سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔ وہ لکیر کی فقیر ہے، اس کے مسائل اور معاملات طے شدہ ہیں۔ اس لیے دوسری اصناف کے مقابلے میں جب آپ غزل کا ترجمہ کسی دوسری زبان میں کرتے ہیں تو اس کے شعروں کی قلعی کھل جاتی ہے۔ ترجمہ تو دور کی بات ہے، آپ ذرا کبھی غزل کے اچھے سے اچھے شعر کو عام الفاظ میں بیان کرکے دیکھیے، معلوم ہوگا کہ بس یونہی سی کوئی بات ہے، جس پر اتنا شور مچایا گیا ہے۔ میری رائے میں غزل میں جو بڑی سی بڑی فکری گنجائش تھی، غالب اس کا فائدہ اٹھا چکے ہیں۔ اس لیے میر کی دو ہزار غزلوں کے مقابلے میں غالب کے متداول دیوان کی ڈھائی سو غزلیں فکری اعتبار سے زیادہ کارآمد معلوم ہوتی ہیں۔

اب آپ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ اگر غزل ایسی ہی سستی اور اوچھی صنف سخن ہے تو اسے اتنی شہرت کیوں حاصل ہوئی ہے۔ اس کی وجہ ہے انسانی دماغ کا چیزوں کو آسانی کے طور پر زیادہ قبول کرنا۔ عام طور پر ہمارا ذہن ان باتوں کو جلدی قبول کرتا اور پسند فرماتا ہے، جن کو سمجھنے اور جاننے کے لیے زیادہ محنت نہ کرنی پڑے۔ بات سامنے کی ہو اور پھر اگر اس کو دو برابر کی باٹوں کے درمیان رکھ کر اور سجا بنا کر پیش کیا جائے تو وہ اور قابل قبول ہوجاتی ہے۔

کیا آپ اخبار پڑھتے ہیں؟ اخباروں میں لکھنے والے ایسے بہت سے سستے رائٹر آپ کو مل جائیں گے جو نہایت مختصر کہانیاں لکھا کرتے ہیں۔ ان مختصر کہانیوں میں کسی بھی بات کو بس گھما پھرا کر ایک چٹکلے کی شکل میں ڈھال دیا جاتا ہے، اخبار میں ان کے لیے ایک چھوٹی سی جگہ مخصوص ہوتی ہے، آپ دیکھیں گے کہ ان کہانیوں کو بڑی دلچسپی اور شوق کے ساتھ پڑھا جاتا ہے، مگر یہ کہانیاں روز پیدا ہوتی ہیں اور روز دم توڑ دیتی ہیں۔ ان کی کوئی ادبی و فکری وقعت نہیں ہے، نہ انہیں یاد رکھا جاسکتا ہے، ایسی کہانیاں سماجی نا انصافیوں پر پھبتیاں کستی ہیں، سیاست دانوں کا مذاق اڑاتی ہیں، چونکاتی ہیں، ہنساتی ہیں اور ذرا سی دیر کو آپ کی توجہ کا دامن گھسیٹنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔

مگر ان میں کوئی فکری گیرائی نہیں ہوتی، عام طور پر اس قسم کی کہانیاں لکھنے والے مطالعے سے بھی دور ہی رہا کرتے ہیں، ان کے لیے کامیاب طویل کہانیاں، جن میں وسعت ہو یا کسی سماج کی ثقافتی آئینہ داری کا پوٹینشل ہو لکھنا اور پڑھنا دونوں ہی مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ چھوٹی اور مختصر کہانیاں انہیں کاہل اور ناکارہ بنا دیتی ہیں، اور ٹھیک یہی بات ایسی کہانیوں کے قارئین کے ساتھ بھی پیش آتی ہے۔ بات وہی ہے کہ چٹکلے گڑھنے یا پڑھنے والے لوگوں سے ناولوں کے مطالعے اور تخلیق دونوں کی توقع غیر ممکن ہے، ان کا دماغ سطحی چیزوں میں الجھ کر رہ جاتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبایئے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2