چارٹر آف ڈیموکریسی اور چارٹر آف گڈ گورننس؟


”ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا۔ وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے“۔ غالبؔ نے یہ شعر استاد ذوق کی ”نذر“ کیا تھا مگر یہ ہمارے گاؤں کے بابے پر بھی اس حوالے سے درست بیٹھتا ہے کہ ”بھرم کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا۔ اگر اس طرۂ پر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے“۔ درویش نے بچپن میں اپنے گاؤں کا مشاہدہ کیا ہے کہ جس نے اپنی پیدائشی جہالت چھپانا ہوتی تھی وہ کچھ مذہبی اطوار و مقدس الفاظ کا سہارا لیتا تھا اور جس نے شرفاء سے چھیڑ چھاڑ یا بدزبانی و بدکلامی کرنا ہوتی تھی وہ گاؤں کے نمبردار یا چوہدری کی کاسہ لیسی کرتے ہوئے ان کی کٹھ پتلی بن جاتا تھا۔

یوں وہ معززین کی پگڑی اچھالتے دندناتا پھرتا مگر کوئی اُسے لگام دینے کی جسارت نہیں کر پاتا تھا۔ بڑے ہوکر اسی نوع کے کرتوت شہری طاقت کے مراکز میں دیکھتے ہوئے دل بہت کڑھتا ہے مگر بڑے چوہدریوں کا دبدبہ اس قدر ہے کہ کمی یا سفید پوش معززین تو رہے ایک طرف، گاؤں کے میراثی بھی جگت بازی کرتے ہوئے لحاظ و پاسداری پر مجبور ہیں۔ ورنہ بڑبولے چمچوں کو جواب دینا کسے نہیں آتا۔ یہ تو خیر ہماری دیہی زندگی کے قصے ہیں، آج ارادہ تھا چارٹر آف ڈیمو کریسی پر لکھنے کا، جس کی ان دنوں مجبور ئی حالات سے پھر گونج اٹھی ہے مگر بیچ میں چارٹر آف گڈ گورننس کی آوازیں بھی شروع ہو گئی ہیں لیکن ساتھ ہی اناڑیوں کے ہاتھوں ملک کی معاشی حالات اس قدر دگرگوں ہوتے دکھائی دے رہے ہیں کہ اسٹیٹ بینک کی تازہ رپورٹ کے مطابق 6 ماہ کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاری میں 77 فیصد کمی ہو گئی ہے، اسٹاک مارکیٹ سے پونے تین ارب ڈالر نکل گئے ہیں۔

یہ جو ہمیں نچلی سطح پر ہر طرف کاروباری مندا دکھائی دیتا ہے اس کی کڑیاں انہی حقائق میں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ ایک وقت تھا جب زور و شور سے یہ پروپیگنڈا کیا جاتا تھا کہ میرے پاکستانیو! بس ہمارے آنے کی دیر ہے، دنیا بھر کا سرمایہ اور سرمایہ کار پاکستان کا رخ کریں گے، گویا لہریں بہریں ہو جائیں گی۔ ساتھ ہی کرپشن کے خلاف یہ بتایا جاتا تھا کہ روزانہ دس بارہ ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے جو کہ نیا پاکستان بنانے والوں کی برکت سے لازماً رک گئی ہو گی تو پھر قوم کے لیے اس کے ثمرات کہاں اٹک گئے ہیں؟

اس کا جواب تو خیر زمین و آسمان کے قلابے ملانے والے جو شیلے منتری ہی دیں گے ہمیں تو خوشی اس بات کی ہے کہ چلیں مجبور ئی حالات کے باعث ہی سہی ”چارٹر آف ڈیمو کریسی“ کا ذکر تو ہوا، ورنہ یہ درویش اپنے کالموں میں حالیہ عام انتخابات سے بہت پہلے، دھرنے کے دنوں سے یہ دہائی دیتا چلا آرہا ہے کہ آئینِ پاکستان کے بعد میاں صاحب اور بی بی کے درمیان طے پانے والا ”چارٹر آف ڈیمو کریسی“ ایسی قابلِ صد احترام قومی سیاسی دستاویز ہے جس میں ہر سیاسی پارٹی کو نہ صرف شامل ہونا چاہیے بلکہ اس کے مندرجات کی بالفعل پاسداری بھی کرنا چاہیے۔

کرپشن تو ہماری قومی سیاست کا ایک ایسا گھسا پٹا نعرہ ہے کہ جسے بدنام کرنا مطلوب ہوا، اس پر جڑ دیا جائے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بحیثیتِ قوم یہاں سب دیانتدار بستے ہیں۔ عرضِ مدعا یہ ہے کہ اس حمام میں سبھی ننگے ہیں، جس کو جتنا موقع ملتا ہے وہ اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونا اپنا فریضہ خیال کرتا ہے اور جو جتنا زیادہ اس کا واویلا کرتا ہے، وہ اسی قدر اس کا ارتکاب کرتا ہے۔ یہاں تو لوگ مساجد یا ڈسپنسریوں کے چندے تک کھا جاتے ہیں۔ بہرحال ہم تو اس نعرے کی افادیت اس دن مانیں گے جس دن صرف سیاستدان نہی ہیں دیگر تمام مضبوط اداروں اور ان سے منسلک ہستیوں کو بھی اس میں شامل کیا جائے گا۔

چارٹر آف ڈیموکریسی والوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ اس کے نعرے گرمیوں یا سردیوں میں لگانے کے بجائے چاروں موسموں میں لگائیں تو کیا زیادہ بہتر اخلاقی معیار قائم نہ کر سکیں گے؟ موت کو دیکھ کر خدا یاد آنے کی نسبت خدا کو ہر خوشی غمی میں کیوں یاد نہ رکھا جائے؟ اور پھر ایک دوسرے کے خلاف زبان کھولتے وقت کچھ حدود و قیود کی پاسداری بھی کیا میثاقِ جمہوریت کا تقاضا نہیں ہے؟ یہاں تفصیل میں جانے کی گنجائش نہیں لیکن کوتاہیوں میں گنجائش کسی نے بھی نہیں چھوڑی۔

جن دنوں چوہدری بیرسٹر صاحب زیر عتاب وزیراعظم کے خلاف بولتے ہوئے تمام حدود کو پھلانگ رہے تھے، درویش نے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر توجہ دلاتے ہوئے پوچھا کہ جب اسی نوع کے الزامات آپ کی قیادت پر لگیں گے تو اس پر بھی کیا آپ اسی نوع کی زبان استعمال فرمائیں گے؟ ظاہر ہے اس کا کوئی جواب اُن کے پاس نہ تھا، نہ ہے۔ بہرحال اب ذمہ داری بڑی حد تک میثاق پر دستخط کرنے والی ہر دو شخصیات کے بچوں تک پہنچ چکی ہے اور امید کی جا سکتی ہے کہ آئندہ طرفین طے شدہ امور کی پاسداری نہ صرف خود کریں گے اور اپنے پارٹی ذمہ داران سے کروائیں گے بلکہ جمہوری اصولوں پر مبنی اس دستاویز کے مندرجات کو ہر جمہوری پارٹی تک پھیلائیں گے۔

رہ گئی ”چارٹر آف گڈ گورننس“ کی بات، جس کا ذکرِ خیر ہمارے نئے چیف جسٹس نے کیا ہے، کم از کم ان خوشگوار لمحات میں اس کی تحسین کی جانی چاہیے، ان نیک توقعات کے ساتھ کہ جو خواب دکھائے جا رہے ہیں یہ شرمندۂ تعبیر بھی ہوں گے۔ جھوٹے مقدمات، جھوٹے گواہوں اور انصاف میں تاخیر کے خلاف واقعی منصفی کے ڈیم بنیں گے، 19 لاکھ زیر التوا مقدمات کا قرض کسی نہ کسی حد تک اترے گا، سوموٹو کا بے دریغ استعمال نہیں ہوگا، کسی بھی بہانے کسی بھی مقدمے میں اپیل کا حق سلب نہیں جائے گا، لاپتا افراد اور جبری گمشدگیوں کے حساس مسئلے کا حل نکالا جائے گا، سویلین بالادستی کے لیے احتساب کے دائرے کو محض سویلینز تک محدود نہیں رکھا جائے گا۔

حکومتی معاملات میں مداخلت یا مقننہ کی اہمیت جیسے ہر دو حساس معاملات کا حل آئینی شقوں کی عین مطابقت میں تلاش کیا جائے گا۔ آئین ہی کا نہیں، آئین کی ماں کا احترام بھی واجب اور تمام اداروں کا فریضہ ٹھہرے گا۔ یہ یاد رہے کہ پارلیمنٹ یا مقننہ کا کام محض قانون سازی نہیں وہ عوامی امنگوں کا ترجمان ادارہ ہے، اختیار و اقتدار کا اصل سرچشمہ ہے۔ حکومت یا حکمرانی اسی بالادست ادارے سے پھوٹتی ہے، اس مقدس ماں کے اس رول پر نہ صرف سر تسلیم خم ہوگا بلکہ اس کی سپرامیسی دیگر تمام اداروں سے منوائی جائے گی۔ آئینی شقوں کی مطابقت میں اسی طرزِ فکر و عمل کا نام گڈ گورننس ہے کہ جس کا جو کام ہے وہ خود کو وہیں تک رکھے۔

بشکریہ جنگ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).