ہمارے حکمران اور ان کے روحانی مرشد


گورنر جنرل غلام محمد سے ایک دن ان کی پرائیویٹ سیکرٹری مس روتھ بورل نے بے باکی سے پوچھا ”سر مجھے آپ میں حکمرانوں والی کوئی بات نظر نہیں آتی، آپ فالج سے چل پھر نہیں سکتے، کھانے کے لقمے آپ کے منہ سے گر جاتے ہیں۔ تو پھر آپ اتنے برسوں سے اس ملک کے حکمران کیسے چلے آ رہے ہیں۔ میں حیران ہوں“۔ غلام محمد مسکرائے اور اپنے تکیے کے نیچے سے ایک تصویر نکال کر مس بورل کے ہاتھ میں پکڑا دی اور اپنی جناتی زبان میں بولے، صرف اس شخص کی وجہ سے۔

مس بورل نے غور سے تصویر دیکھی اور پوچھا ”سر یہ کون ہیں؟ “۔ غلام محمد نے تصویر واپس لی اور عقیدت سے ہونٹوں اور آنکھوں سے لگا کے بولے ”یہ میرے مرشد ہیں“۔ غلام محمد ”حاجی وارث شاہ“ سے بہت عقیدت رکھتے تھے۔ حاجی صاحب لکھنو کے قریب ”دیوا شریف“ میں مدفون ہیں۔ غلام محمد کی زندگی پر ”پیر صاحب“ کا اثر تھا اور انہوں نے جتنی ترقی کی اس کے پیچھے بھی ”حاجی صاحب“ کا ہی ہاتھ تھا۔ زندگی کے آخری ایام میں گورنر جنرل غلام محمد نے ”خصوصی جہاز“ میں ”دیوا شریف“ جانے کی خواہش ظاہر کی تو ان کے پرانے خوشامدی ”حسین شہید سہروردی“ نے انتہا ئی نفرت سے منع کر دیا۔ غلام محمد کو ”دیوا شریف“ جانے کی اجازت تو نہ دی گئی مگر ساری زندگی ”حاجی صاحب“ کی تصویر گورنر جنرل کے تکیے تلے دبی رہی اور انہوں نے زندگی کے ہر اہم فیصلے میں ”حاجی صاحب“ کو ”شامل حال“ رکھا۔

ایوب خان صاحب نے مارشل لاء لگایا توان دنوں ڈیفنس ہاؤ سنگ سکیم کراچی میں ایک خاتون عطیہ رہتی تھیں جو ہونے والے واقعات کو قبل ازوقت دیکھ لیتی تھیں۔ اس خاتون نے نجی محفلوں میں کہنا شروع کر دیا کہ ”اس بے وقوف پٹھان کو بتا دو میں اس کی لاش کو گولیوں کی باڑ پر دیکھ رہی ہوں“۔ یہ بات ایوب خان کے کانوں تک بھی جا پہنچی تو ایوب خان نے قدرت اللہ شہاب کو عطیہ کے پاس بھیجا۔ عطیہ نے بتایا کہ فلاں تاریخ کو فلاں ریل گاڑی میں مجھے تین چار بیگمات نظر آ رہی ہیں جو ایوب خان کو قتل کرنے کے لیے بھیجی جا رہی ہیں۔ قصہ مختصر اُس تاریخ کو ٹرین پر چھاپا مارا گیا تو واقعی اس میں سے وہ بیگمات گرفتار ہوئیں اور دورانِ تفتیش انہوں نے بتایا کہ ہمیں اسکندر مرزا نے ایوب خان کو راستے سے ہٹانے کے لیے بھیجا تھا۔ ایوب خان کے ذہن پر اس واقعے کا بڑا اثر ہوا اور اس کے بعد پوری زندگی وہ ”روحانی بابوں“ میں دلچسپی لیتے رہے۔

ایوب خان کو خط کے ذریعے خوشاب کے ایک وکیل ”عبدالغفور“ نے قبل از وقت بہت ساری اہم باتیں بتا ئیں تو اس پر بھی ایوب خان حیران رہ گئے۔ ”معاہدہ تا شقند“ کے دوران ایوب خان نے وکیل صاحب کے گھر کے سامنے خفیہ ایجنسیوں کے لوگ بٹھا دیے مگر وہ پھر بھی خط لکھتے رہے۔ عبدالغفور کے انتقال پر صدر ایوب کو بہت شاک پہنچا۔

ایوب خان آخری دنوں میں مری کے مجذوب ”بابا لال شاہ“ کے مرید ہو گئے تھے۔ 65ء کے الیکشن کے دوران ایوب خان ”بابا لال شاہ“ کے پاس حاضر ہوئے اور قطار میں کھڑے ہو کر باری کا انتظار کرتے ہوئے بابا جی کے پاس پہنچے۔ ”بابا لال شاہ“ نے حکم دیا کہ اپنی بیگم کو اُٹھاؤ۔ ایوب خان نے بھرے ہجوم میں ”خاتونِ اول“ کو بازوؤں میں اُٹھا لیا۔ بابا جی خو ش ہو کر بولے ”اینوں چک لیا ای تاں اونوں وی چک لیں گا“ (اشارہ تھا محترمہ فاطمہ جناح کی طرف) ۔ ایوب خان کو بابا جی سے بڑی عقیدت تھی اور متعدد بار ایوانِ صدر آنے کی بھی دعوت دی مگر بابا جی نے انکار کر دیا۔

ایوب خان مریڑھ حسن کے قبرستان میں دفن ”اللہ بخش“ نامی بزرگ کی قبر پر بھی حاضری دیتے تھے۔ اللہ بخش سے ایوب خان کو متعارف کروانے کا سہرا قدرت اللہ شہاب کے سر جاتا ہے۔

گوہر ایوب صاحب اپنی کتاب ”ایوانِ اقتدار کے مشاہدات“ میں ذوالفقار علی بھٹو کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ”ان کی پیدائش کے وقت ان کی والدہ خورشید بیگم نے ممبئی میں ایک پنڈت سے ان کا زائچہ نکلوایا۔ پنڈت نے بتایا کہ یہ بڑا ہو کے اعلی منصب تک پہنچے گا مگر اس کا انجام درد ناک ہو گا۔ ذولفقار علی بھٹو جب صدر اور چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بنے تو اپنے دوست جی اے الانہ کو اس پنڈت کے پاس بھیجا یہ معلوم کرانے کے لیے کہ میری قسمت بدلی ہے کہ نہیں“۔

ذولفقار علی بھٹو کو تین سال کی عمر میں ملیریا ہوا۔ طبیعت زیادہ خراب ہونے پر والدہ انہیں ”لال شہباز قلندر“ کے مزار پر لے گئیں، جہاں حاضری کے بعد بھٹو صحت یاب ہو گئے۔ اس لیے وہ پوری زندگی ”لال شہباز قلندر“ کو اپنا مرشد کہتے رہے۔

جنرل ضیاء الحق بھی بزرگوں سے بڑی عقیدت رکھتے تھے۔ وہ سب سے زیادہ متاثر ”حکیم فاضل ظہیر“ سے تھے۔ جنرل ضیاء الحق کا حکیم صاحب پر اعتماد تب سے تھا جب سے انہوں نے جنرل صاحب کو اقتدار میں آنے کی نوید سنائی تھی۔ اقتدار میں آنے کے بعد جنرل صاحب نے حکیم صاحب سے مشاورت جاری رکھی۔

بیگم شفیقہ ضیاء اور کوثر نیازی کے بقول حکیم صاحب نے سانحہ بہاول پور سے قبل، جنرل ضیاء کو آنے والے خطرات سے آگاہ کر دیا تھا۔ 17 اگست 1988 کی صبح حکیم صاحب نے جنرل صاحب کو بہاول پور کے سفر سے روکنے کے لیے فون کیا مگر ان کی صدر صاحب سے بات نہ ہوسکی۔ معاملہ حساس ہونے کی وجہ سے حکیم صاحب نے کسی اور کو راز دار نہ بنایا مگر بہاول پور چھاؤنی فون کرتے رہے لیکن صدر ضیاء سے رابطہ نہ ہو پایا۔ بقول مولانا کوثر نیازی، حکیم صاحب نے ان کے صاحبزادے کو حکم دیا کہ وہ کار پر بہاول پور جائے اور ضیاء الحق صاحب سے میری بات کروائے۔ مگر یہ کوشش بھی کار گر ثابت نہ ہوئی اور شام کو جنرل صاحب کی حادثاتی موت کا پیغام نشر ہو گیا۔

بابا ملتانی کا بھی دعویٰ ہے کہ جنرل ضیا ان سے بڑی عقیدت رکھتے تھے۔ اس لیے بابا جی کے اہلِ خانہ کو متعدد حج اور عمرے کروائے اور انہیں (بابا ملتانی) جنرل صاحب کے ساتھ ”خانہ کعبہ“ اور ”حجرۂ نبویﷺ“ کے اندر جانے کی بھی سعادت نصیب ہوئی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).