ہم تماش بین ہیں اور بس۔۔۔‎


بیس سال ہونے کو آئے، جاوید اقبال نامی ایک شخص مرحوم پولیس افسر طارق کمبوہ کے پاس پیش ہوا اور بولا میں نے سو بچے قتل کئے ہیں۔ طارق کمبوہ نے سوچا کہ اس شخص کا دماغی توازن خراب ہے اور اسے باہر نکلوا دیا۔ اب اس نے روزنامہ جنگ کو خطوط لکھے جن کے ساتھ 80 کے قریب تصاویر ارسال کیں۔ مجاہد جعفری اور جمیل چشتی جو کرائم کی بیٹ سنبھال رہے تھے، خطوط میں بتائے گئے پتہ پر پہنچے۔ مجاہد جعفری دیوار پھلانگ کر گھر کے اندر داخل ہوئے اور درودیوار کی تصاویر لیں۔ جب خبریں چھپیں تو پولیس نے جاوید اقبال کی تلاش شروع کی کہ چند روز بعد جاوید اقبال خود روز نامہ جنگ کے دفتر آیا اور بولا کہ میں ہوں سو بچوں کا قاتل۔ مجاہد جعفری دفتر کے گیٹ پر اسے ملے، اوپر نیوز روم لے گئے، جہاں سے حساس ادارے کے لوگ اسے لے گئے۔

بعد ازاں پولیس کی تفتیش شروع ہوئی۔ تفصیلات جیسے جیسے سامنے آئیں، پورا ملک لرز اٹھا، جنرل مشرف نئے نئے حکمران بنے تھے، قوم سے ایک خطاب کیا جس کا آخری پیرا گراف ان بچوں سے متعلق تھا، وعدہ کیا گیا کہ مجرم کیفر کردار کو پہنچے گا۔ یعنی وہ مجرم جو خود پولیس کو خطوط لکھتا رہا، اخبارات کو خطوط اور تصاویر بھیجتا رہا اور خود ہی اخبار کے دفتر آیا اور اقبال جرم بھی کر لیا، اسے کیفر کردار تک پہنچانے کا وعدہ وقت کے حکمران نے کیا۔ اور ہم لمبی تان کر سو گئے۔ بڑے دعوے سامنے آئے، اب تیزاب مارکٹ میں نہیں بکے گا، کوئی بچہ اس موت کا اب شکار نہیں ہو گا۔ کوئی بے گھر نہیں ہو گا وغیرہ۔ گزشتہ بیس سال میں چھپنے والی، یعنی بچوں کے ساتھ ریپ اور قتل کے وہ واقعات جو سامنے آگئے اور چھپ بھی گئے، صرف ان واقعات کی تعداد جاوید اقبال کے شکار ہوئے ایک سو بچوں سے کم از کم سو گنا زیادہ ہے۔

اے پی ایس کے بچوں کو درندگی سے بھون دیا گیا، پورا ملک سکتے میں آگیا، پھر بڑے دعوے سامنے آئے۔ پتہ چلا کہ اب دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی ہو گی۔ کسی بہانے سے بھی معصوموں کے قاتل نہیں بچ پائیں گے۔ اب کوئی مذہب کا نام لے کر کسی انسان یا کسی پھول کو نہیں مارے گا۔ اس واقعے سے قبل نیکٹا کا قیام 2009 میں آ چکا تھا، خواب تھا کہ دہشت گردوں کے خلاف تمام ادارے مل کر کام کریں گے، ایک دوسرے سے انفارمیشن شئیر کریں گے۔ اس مبارک کام کے لئے سرکاری اداروں کی ایک فوج ہوتے ہوئے بھی ایک مزید ادارہ قائم کرنے کا مقصد کتنا پورا ہوا؟ کتنا نہیں؟ بس اتنا عرض کرتا ہوں کہ گزشتہ شب نیکٹا کے ایک کرتا دھرتا افسر بتا رہے تھے کہ یہاں بھی کریڈٹ حاصل کرنے کی دوڑ اتنی ہے کہ ایک انٹیلیجنس ایجنسی کا افسر اپنی انفارمیشن دوسری ایجنسی سے شئیر کرنے کو تیار نہیں، اور دوسری ایجنسی کا افسر تیسری ایجنسی سے انفارمیشن شئیر نہیں کرتا۔ سب کے سب، پزل کے اپنے حصے، تاش کے پتوں کی طرح چھپا کر رکھتے ہیں۔

ستمبر 2011 کو سکول کے بچوں کی ایک بس کلر کہار سے پکنک منانے کر واپسی آتے ہوئے حادثے کا شکار ہو گئی، 72 نشستیں رکھنے والی بس میں 107 مسافر سوار تھے، بس کی حالت پتلی تھی، ڈرائیور نے خراب بریکس کے بارے میں بتایا بھی تھا مگر نظر انداز ہو گیا۔ کم از کم 37 معصوم ہلاکتیں ہوئیں، سوگ منایا گیا، اعلان ہوئے کہ اب کسی کو اجازت نہیں ہو گی کہ وہ پرانی بسوں کو موٹر وے یا ہائی وے یا سکول کے بچوں کو لے کر سفر پر روانہ ہو۔ آج کتنی بسیں ہائی وے سمیت موٹر وے پر چلتی آپ کو درست حالت میں نظر آتی ہیں۔

17 جون 2014 کو مشہور عام ماڈل ٹاؤن قتل عام ہوا، ماؤں کو بچوں کے سامنے سیدھی گولیاں ماری گئیں، پولیس اور گلو بٹ کی ویڈیوز وائرل ہو گئیں، نہ حکومت گری نہ کسی نے استعفیٰ دینا مناسب سمجھا، جس کی ماں یا باپ قتل ہوا وہ آج کسی کو یاد نہیں۔ جو کام البتہ دھڑلے سے ہوا اور آج بھی ہو رہا ہے وہ ہے سیاست یعنی ان جنازوں کو زیادہ سے زیادہ فائدے سے کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے۔

جنوری 2018 کو کراچی میں نقیب اللہ محسود کو پولیس مقابلے میں مار دیا گیا جس کے مشہور ہونے کی وجہ اس کے علاؤہ اور کچھ بھی نہیں تھی کہ مرنے والا ایک خوبصورت ماڈل تھا، اگر عام آدمی ہوتا تو دو سطر کی خبر بھی شاید کہیں ساتویں صفحے پر لگتی، خوب شور مچا، اس قتل سے اور ابھی تک انصاف نہ ملنے پر ایک پوری کی پوری تحریک اٹھ کھڑی ہوئی۔ واقعہ یہ ہے کہ اس تحریک کو کچلنے کے لئے اگر ہجوم کے ہجوم مارنے بھی پڑے تو مار دیے جائیں گے مگر راؤ انوار کو سزا نہ ہوئی ہے اور نہ ہو گی۔ نقیب اللہ محسود بھی نہایت خوبصورت، معصوم بچوں کا باپ تھا۔

ایک ڈاکٹر شازیہ ہوتی تھیں بلوچستان میں جن کا ریپ کیا گیا تھا، آج کل ڈاکٹر شاھد مسعود جیل میں شاید غور کرتے ہوں کہ وہ کسی کا پیغام لے کر ڈاکٹر شازیہ کے پاس گئے تھے۔

ہمارے ایک چیف منسٹر دوست محمد کھوسہ بھی گزرے ہیں، چونکہ شہباز شریف سفارشوں کے خلاف اور میرٹ کے دلدادہ تھے لہذا جب تک خود قانونی طور پر آفس سنبھالنے کے قابل نہ تھے، میرٹ کا بہترین مظاہرہ کرتے ہوئے ان کا انتخاب دوست محمد کھوسہ تھے۔ یہ وہی شخص ہے جس نے اپنی دوست، سہیلی، اداکارہ سپنا کو اس طرح غائب کیا کہ اس کے لواحقین شور مچاتے رہ گئے،اس کی لاش تک نہ ملی۔ پھر سب بھول گئے۔ میڈیا ان تمام واقعات میں ریٹنگ اور نقد وصولی تک محدود رہا اور آج بھی ایسا ہی ہے۔

زینب ہلاک ہو جائے یا کوئی اور بچہ مدرسے میں برباد ہو کر ہلاک ہو، میڈیا کو صرف ایک چیز میں دلچسپی ہے، ریٹنگ یعنی نقد وصولی۔ کہیں بم پھٹے، کوئی مرے، کوئی جئے، میڈیا پر رونق لگنی چاہیے اور ہر ٹی وی کی دوڑ یہ ہے کہ وہ کون سا ماتم کرنے والا لے کر آئے کہ لوگ صرف اسے ہی دیکھیں۔ جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو ٹی وی پر ایک نیوز اینکر ماتم بیچ رہا ہے کہ جن بچوں کے والدین کو پولیس نے مار ڈالا، اب ان بچوں کو گود میں کون اٹھائے گا، اور کون پیار سے دیکھے گا۔ گزارش ہے کہ ماتم بیچنے والے خود کتنے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنے کو تیار ہیں، دوسروں سے سوال کرنے سے قبل کیا ہم خود سے بھی کوئی سوال کریں گے۔ یہاں تو ٹی وی سکرین پر رہنے کے لئے دوبارہ لڑکیاں بننے کی دوڑ میں ادھیڑ عمر مائیں اپنے بچوں کو ملازموں کے حوالے کر آتی ہیں اور اگر شوہر اعتراض کرے تو شادی پر لعنت بھیج کر سکرین کا انتخاب کیا جاتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2