زیادتی کا شکار ہونے والی لڑکیاں کیسے جیتی ہیں؟


تکلیف دیتے وقت زندگی میں کبھی یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ سہنے والا تکلیف کیسے سہتا ہے۔ جسمانی تکلیف توسہہ لیتا ہے مگر ذہنی۔ اس کا تجربہ ہوا تو احساس ہوا۔ اکثر یہ بات کئی بار سننے کو ملی کہ جنسی طور پر ہراساں کی جانے والی خواتین اپنے گھر اور خاندان کی عزت کی خاطر چپ کر جاتی ہیں۔ مگر اس جملے کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ دیتا بھی کیوں ایک مرد جو تھا۔ انصاف، حقوق کی جنگ، کسی کو تکلیف نہ دینا۔ یہ باتیں تو معاشرے میں پائے جانے والی بے حس باتوں میں کہیں نظر ہی نہیں آتی تھیں۔

بات سننے اور لکھنے میں بڑی آسان ہوتی ہے مگر جب عملی طور پر تجربہ ہو تو تب تکلیف، درد اور کرب کا احساس ہوتا ہے۔ ویسے مجھے کوئی حق نہیں کہ میں خواتین کے حقوق کے بارے میں لکھوں۔ حق کیوں نہیں یہ بات ڈاکٹر مبارک علی کے قول سے سمجھانا چاہوں گا۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ بعض لوگ اپنے ضمیر سے گناہوں کا بوجھ اتارنے کے لیے آپ بیتی لکھتے ہیں۔ درحقیقت آپ بیتی تحریر ہی نہیں ہوتی بلکہ ضمیر پر گناہوں کا بوجھ اتارنے کا ایک ذریعہ بھی ہوتی ہے۔ اپنے گناہوں کا ایک پچھتاوا بھی ہوتا ہے۔

عملی طور پر آج بھی میں اس قابل نہیں کہ اخلاقیات کا درس دوں۔ کیونکہ میرے قول اور فعل میں آج بھی تضاد موجود ہے۔ مگر ایک بات سیکھی تھی کہ دوسروں کو نصیحت کرتے رہو تاکہ اپنے فعل کو اپنے قول کے مطابق بنا سکوں۔ اپنی غلطیوں پر پچھتاوے دور کرنے کے دو راستے ہیں۔ ایک راستہ اپنی غلطی کو تسلیم کر لیا جائے اور آئندہ غلطی کرنے میں احتیاط کی جائے۔ احتیاط تب ہی ممکن ہے جب انسان غلطی کرنے کے بعد اپنی خود احتسابی کرے۔ اور دوسرا راستہ کہ انسان اس غلطی کے بارے میں دوسروں کو شعور دے اور نصیحت کرے۔

کبھی کبھی انسان کی زندگی میں ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں کہ جہاں انسان کو اپنی غلطیوں کا احساس ہوتا ہے کہ ہماری غلطیوں کی وجہ سے کتنے انسانوں نے تکلیف۔ کرب اور نجانے کیسے کیسے درد کو سہاہوگا۔ زندگی کو جیا ہوگا۔

کچھ عرصہ پہلے میری ایک کولیگ کو سوشل میڈیا پر ہراساں کیا جاتا رہا۔ بجائے قانونی کارروائی یا کسی سے بات کرنے کے وہ چپ رہی اور سہتی رہی۔ ذہنی تکلیف، درد، کرب اور ہر وقت عجیب خیالات کا بوجھ اس کی عملی زندگی پر اثر انداز ہونے لگے۔ بالآخر ایک دن اس سے پوچھا تو نہ جانے کتنے دنوں سے آنکھوں میں اٹکے آنسو نکل آئے۔ قانونی طریقے سے اس مسئلے کو حل کرنا چاہا۔ تو اس نے بہت بے بسی اور سختی سے منع کردیا۔ خدا کا واسطہ دے کر بولیں کھ ایسا مت کرو۔ میری زندگی خراب ہو جائے گی۔ میرے گھر والوں کا کیا ہوگا۔ لوگ کیا سوچیں گے۔ جیسا بھی ہے میں سہ لوں گی مگر میں یہ نہیں چاہتی کہ میری وجہ سے میرے خاندان کی عزت پرآنچ آئے۔ میرے ماں باپ اور بہن بھائیوں کو لوگوں کے طعنے اور باتیں سننی پڑیں۔

تب احساس ہوا کہ سکول اور کالج دور میں ہم بھی اپنے ہم عمر سکول اور کالج فیلو کو تنگ کرتے تھے۔ اور کتنی آسانی سے کرتے تھے۔ چھٹی کے وقت سکول اور کالج کے گیٹ کے باہر کھڑے ہو جانا۔ بس سٹاپ پر جملے کسنا یا پھر موبائل فون سے مسلسل تنگ کرنا۔ موبائل نمبر شیئر کرنا یہی نہیں بلکہ دوستوں کی محفل میں لڑکیوں کا ذکر کرنا اور برے برے القابات سے نوازنا۔ اور پھر مردانگی پر فخر کرنا ہاں آج احساس ہوا کہ وہ کیسے سہتی تھیں۔

یہ تو ہراساں کیے جانے پر ایک لڑکی کا ردعمل تھا۔ لیکن یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ وہ لڑکیاں جو زیادتی کا شکار ہو جاتی ہیں کیسے جیتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں عام تاثر یہ ہے کہ جانوروں میں احساس نہیں ہوتا اور جن میں احساس نہ ہو ان کو جانوروں سے مشابہت دی جاتی ہے۔ لیکن میں یہ بات نہیں مانتا، کیوں نہیں مانتا۔ کبھی ایک جانور کے سامنے دوسرے جانور کو ذبح کر کے دیکھیں تو پتا چلتا ہے ان میں احساس ہے کہ نہیں۔

لیکن ہمیں فرصت کہاں کہ کسی کے احساس کو سمجھیں۔ انسان بنیادی طور پر بے حس نہیں لیکن کچھ عوامل ہیں جنہوں نے اس کا احساس ختم کر دیا۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ کیسے جیتی ہیں وہ اپنے ماں باپ کی شہزادیاں۔ کتنا بے ہودہ سا رواج ہے کہ عورت کے وجود کو ہم نے پورے خاندان کی عزت سے منسوب کردیا ہے۔ تو جناب والا عزت انسان کی جنس یا جسمانی اعضا سے نہیں بلکہ فرد کی آزادی اور وجود کا نام ہے۔ ہمارے ہاں بڑی کامیابی یہ سمجھی جاتی ہے کہ مرد یا خاندان کسی عورت سے اس کی آزادی اور وجود چھین لے اور خاندان کی عزت کی خاطر اسے سلگتی اور سسکتی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جائے۔ کبھی اس معصوم کے ارمانوں کا نہیں سوچیں گے کہ وہ چھوٹے چھوٹے ارمان سلگتے انگار بن جاتے ہیں۔ بے حسی کی انتہا دیکھیں۔ اگر کوئی انصاف لینے چار دیواری سے باہر نکل بھی آئے تو اسے بغاوت کہا جاتا ہے۔ بدکردار اور بدکار کہا جاتا ہے۔ قدسیہ بانو کہتی ہے کہ عورت کے سنسرز بہت تیز ہوتے ہیں۔ نگاہوں سے نیت کی پہچان کر لیتی ہے۔ آزادی کے ساتھ جینے کی خواہش کسے نہیں ہوتی؟

اس باغی کو معلوم ہوتا ہے کہ اس نے مردوں سے بھری عدالت میں جانا ہے۔ مردوں سے بھرے بازار سے گزرنا ہے۔ طنز سننا ہیں۔ ہاں وہ کتنی بہادر ہوتی ہیں۔ ہاں بہت بہادر۔ بہت دلیر کہ بے حس معاشرے میں لڑنے نکل آتی ہیں۔ جمود توڑنے نکل آتی ہیں۔ قانون بھی بن جاتے ہیں۔ انصاف کے تقاضے بھی پورے ہو جاتے ہیں۔ زخم بھر جاتے ہیں۔ زندگیاں پھر لوٹ آتی ہیں۔ پر افسوس کہ ہم وہ شعور نہ پیدا کرسکے جو عورت کو سمجھے۔ اس کے درد کو سمجھے۔ اس کی سلگتی زندگی کو سمجھے۔ ارمانوں کو سمجھے۔ اسے انسان سمجھے۔ چپ کر جاؤ یا تم لڑو۔ تمہارے درد کو نہ سمجھنے آج میں شرمندہ ہوں۔ ہاں آج ایک مرد شرمندہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).