ساہیوال حادثہ


کل ساہیوال میں ہونے والے سانحے اور اس کی کچھ تفصیلات سے، رات بھر دو واقعات میرے ذہن میں گردش کرتے رہے :

پہلا وہ جب 16 دسمبر 2014 ء کو طالبان کا ایک دَل آتا ہے اور ہمارے فرشتہ صفت ننھے ستاروں کے نازک جسموں کو اپنی ”جنت“ کے حصول کے لیے قتل کر ڈالتا ہے، ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کرتا ہے اوربموں سے ان کے معصوم بدن چیر ڈالتا ہے۔

وہ بچے جو تعلیم کے حصول کے لیے صاف ستھری وردی پہن کر، دل میں والدیں کا خوف لیے کہ اسکول نہ گئے تو پٹائی ہوگی یا پھر انجئینر اور ڈاکڑ بننے کے خواب آنکھوں میں سجائے اسکول گئے تھے۔ لیکن اس بار وہ اسکول سے واپس خون کے رنگ میں رنگی وردی میں آتے ہیں اس بار وہ تابوت میں مردہ جسم کے ساتھ آتے ہیں۔

اس واقعہ کو جس نے بھی سنا، خون کے آنسو رویا۔ لیکن وہ جنھوں نے اس واقعے کی ذمہ داری اپنے سر لی اور بر ملا اس کا اعتراف کرتے پھرے ان کو کسی کو کچھ کہنے کی کبھی ہمت نہ ہوئی۔ ننھے معصوموں کے قاتلوں کو جانتے بوجھتے بھی کبھی لٹکایا نہ گیا۔

دوسرا دل دوز واقعہ، ایک عام شہری کارِ جہاں سے وقت نکال کر اپنی اہلیہ، تین بیٹیوں، ایک بیٹا اور ایک ڈرائیور کو لے کر، ویک اینڈ پر شادی میں شرکت کو جاتے ہیں اور راستے میں ایک محافظوں کی کار ان کا پیچھا کرتے ہوئے، ان پر گولیوں کی بوچھار کرتے ہوئے ان کو روک لیتی ہے۔ محافظ اترتے ہیں اور ان کی طرف آتے ہیں اور کنبہ کے سربراہ سے ہمکلام ہوتے ہیں۔ کنبے کا سربراہ کہتا ہے کہ تلاشی اور پیسے دونوں لے لو! پر ہمیں چھوڑ دو! ہم بے قصور ہیں! ہم نے کچھ نہیں کیا! ہم لوگ شادی کو جارہے ہیں! وہ خوشیاں منانی ہیں، جن کے لیے ہم برسوں سے منتظر ہیں۔

لیکن یہ نام نہاد محافظ، بھڑیے نما انسان، درندوں کے سردار، لائسنس اور مکمل طور پر مسلح سی ٹی ڈی کے سپاہی اس کی ایک نہیں سنتے اور اپنے احکامت پر عمل کرتے ہوئے، گاڑی پر سامنے سے تڑ تڑ کر کے گولیاں چلاتے ہیں۔ ایک گروہ کو راحت ملتی ہے تو دوسری طرف خون میں لت پت اجسام سے سسک سسک کر روح نکلتی ہے۔

جب کچھ روایاتی سوچ، روایاتی الفاظ اور روایاتی نظریات سے اندھے، گونگے بہرے لوگ ان سے استفسار کرتے ہیں! ان کا گناہ دریافت کرتے ہیں تو یہ کہتے ہیں کہ یہ لوگ تین بچوں (جن میں ایک پنجم جماعت کا طالب علم، ایک پانچ سالہ اور دوسری تین سالہ بچی) کو اغواء کر کے لے جا رہے تھے۔ لیکن ان کو علم نہیں تھا سماجی رابطے ان کی بندوقوں سے زیادہ طاقت رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے ان کا یہ سچ، سچ میں جھوٹ ثابت ہوا۔ دوسری مرتبہ یہ لوگ یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ یہ لوگ داعش کے آدمی ہیں، پنجاب میں ہزاروں بے گناہوں کو مار چکے ہیں لیکن اس مرتبہ بھی یہ بھول جاتے ہیں کہ ہر شخص کو داعش کا کارندہ یا دہشت گرد کہہ کر نہیں مارا جا سکتا۔

مجھے سمجھ میں نہیں آتی کہ ایک وہ لوگ جو پشاور میں ننھے معصوموں کا قتل کرتے ہیں اور دندناتے پھرتے ہیں اور دوسرے یہ لوگ جو راہ چلتے کسی بھی خاندان پر دہشت گردی کا الزام لگا کر، کبھی بھی کہیں بھی انھیں جان سے مار ڈالیں، ان دونوں میں فرق کیا ہے۔ کمال تو یہ کہ سب جانتے ہیں کہ انھیں بھی کچھ نہیں کہا جائے گا۔ دہشت گردی کی آڑ میں ہونے والی پولیس گردی کو ہزاروں جواز تلاش کر کے بچا لیا جائے گا اور مقتول کے بارے میں اسے بڑھ کر اور کیا کہ وہ زندگی کی سب سے بڑی نعمت جو ”زندگی“ سے محروم ہوا۔ لیکن سب سے زیادہ دکھی کر دینے والی بات تو ان بچوں کی ہے جو جیتے جی مارے گئے۔

سمجھ نہیں آتی کہ ہم لوگ کس سے انصاف مانگیں؟
ہمارے چینلز پر تو مقتول مہمان بن کر آتے ہیں۔
ہمارے محافظ تو خود بھیڑے بن گئے ہیں۔
سیاست دانوں کو گالی گلوچ اور ایک دوسرے کی کوتاہیاں یاد کرنے اور پھر یوٹرن لینے سے فرصت نہیں۔
اور خدا۔ وہ تو خود زمین پر آنے سے رہا۔ !

ہمارے بے شعور عوام اور میڈیا جب ان ننھی زندہ لاشوں سے بار بار ساری دھو ویدا دریافت کرنے کے لیے جاتے ہیں تو ان کو ذرا بھی احساس نہیں کہ جب جب یہ محض سانس لینے کی حد تک زندہ بچے، اس منظر کو یاد کرتے ہیں۔ تو ایک قیامت سے بھی بڑا اور برا لمحہ ان پر گزرتا ہوگا۔ اپنی ناگفتہ بہ حالت بتاتے ہوئے ان کو ان ننھے معصوموں کی سسکیاں بھی سنائی نہیں دیتیں۔

ہم جاننا چاہتے ہیں کہ اب مدینے کی ریاست کے وعدے کرنے والے کہاں ہیں؟ کیوں کہ جنھوں نے مکہ و مدینہ کی ریاست قائم کی تھی وہ تو کچھ الگ ہی سوچ کے مالک لوگ تھے۔ حضرت عمر کہا کرتے تھے :

”میں پریشان ہوں کیوں کہ اگر دجلہ اور فرات کے کنارے کوئی کتا بھی بھوک سے مر گیا تو پوچھ عُمر سے ہوگی۔ “

پاکستانی مدنی ریاست کے وزیرِ اعلیٰ کو سمجھنا چاہیے کہ جو پھول انھوں نے ان ننھے معصوموں کی عیادت پر پیش کیے وہ ان کے خاندان کے جنازوں پہ ڈالنے کے قابل تھے۔ اور وہ رقم جو وہ لواحقین کو دان کریں گے وہ کبھی کسی انساف کے برابر نہ ہوگا۔ او یہ بھی کہ مرنے والوں کو ہر گز ”شہید“ کا لقب نہ عطا کیا جائے۔ کیونکہ 16 دسمبر کو بے موت مرنے والوں کو بھی یہ ”شہید“ کا لقب دے کر ہی انصاف تمام کیا گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).