ساہیوال کی اریبہ کا نورین لغاری کے نام خط


پاکستان کی باہمت بیٹی نورین

السلام وعلیکم،

سب سے پہلے تو میرا سلام قبول کرو، میں چونکہ تیسری جماعت کی طالبہ تھی اس لیے خط لکھنے کا طریقہ نہیں معلوم البتہ جتنا سیکھا تھا بس ویسے ہی لکھ رہی ہوں، الفاط میرا ساتھ نہیں دے رہے کیونکہ ہاتھ اور کاندھے پر لگنے والی گولی کا زخم ابھی تازہ ہے۔

کل بابا، ماما، میں (اریبہ) ، لائبہ، بھائی اور ذیشان انکل گھر سے بورے والا جانے کے لیے نکلے تاکہ چاچو رضوان کی شادی میں شرکت کرسکیں، راستے میں اماں اور بابا عجیب عجیب سی باتیں کررہے تھے انہوں نے بھائی کو یہ بھی بولا کہ وہ لائبہ اور نبیلہ کا خیال رکھیں۔

رضوان چاچو کی شادی میں خوب ہلہ گلہ اور کزنز سے ملاقات میرے دماغ میں کئی روز سے چل رہی تھی، جیسے جیسے دن قریب آرہے تھے بہت خوشی ہورہی تھی کیونکہ ہم کافی عرصے بعد اپنی رشتے داروں سے ملتے، گھر سے روانہ ہوتے ہوئے اُس دن بابا نے خود تو دعا پڑھ لی مگر ہمیں سفر کی دعا پڑھنے کی اس بار تلقین نہیں کی۔

نورین تمھیں پتہ ہے جیسے ہی ہماری گاڑی ساہیوال ٹول پلازہ کے قریب پہنچی پیچھے سے سائرن بجاتی موبائل آگئی، وہ لوگ بہت تیزی سے آئے اور اتر کر بابا کی طرف آئے کیونکہ وہ ہی گاڑی چلا رہے تھے، پولیس والے انکل بابا پر چیخ رہے تھے جس پر بابا نے اُن سے وجہ بھی پوچھی مگر انہوں نے جواب دینے کے بجائے تھپڑ مارے۔

امی نے مجھے گلے سے لگا کر بھائی، لائبہ اور چھوٹی کا ہاتھ پکڑ لیا تھا، بابا اُن سے کہہ رہے تھے کہ ’پیسے لے لو مگر ہماری جان چھوڑ دو، مگر اتنی دیر میں گاڑی کے آگے پیچھے بہت ساری پولیس والے انکل جمع ہوگئے، انہوں نے پہلے پاپا پر فائرنگ کی پھر مولوی انکل (ذیشان) کو مارا۔

فائرنگ کی آواز سُن کر میں امی کے سینے سے لگ گئی اور آنکھیں بند کرلیں مگر پھر ایک دم گرم گرم چیز مجھے اپنے جسم میں جاتی محسوس ہوئی، جس کے بعد بہت زیادہ تکلیف ہوئی، وہ شاید گولی تھی جو میرے جسم کو چیر کر اماں کے سینے میں گھس گئی، پھر میرے سر پر ایک زور دار چیز لگی جس کے بعد فرشتوں نے مخمل کی چادر میں مجھے لیا اور لے کر چل دیے، میرا جسم ٹھنڈا ہوگیا تھا مگر کانوں میں ساری آوازیں آرہی تھیں، اماں کے وہ الفاظ بھی میں نے سُنے کہ ہم بے قصور ہیں چھوڑ دو، ہم نے کچھ نہیں کیا۔ میرے 6، بابا کے 13 ذیشان انکل کے 10 گولیاں لگیں۔

جب امی کے دل نے دھڑکنا بند کیا اُس سے پہلے میرا جسم مکمل ٹھنڈا ہوچکا تھا، پاپا تکلیف کی وجہ سے کراہا رہے تھے اُن کی شکل خوف کی وجہ سے نہیں دیکھی مگر آواز آرہی تھی، مجھے لائبہ، نبیلہ اور بھائی کے رونے کی آوازیں بھی آرہی تھیں مگر اب میں کچھ کر نہیں سکتی تھی۔ میرا جسم امی کے پاس ہی ٹھنڈا ہوگیا، چھوٹی بہن نے میرا دوپٹہ پکڑا ہوا تھا پھر ایسا محسوس ہوا کہ اُس نے وہ بھی چھوڑ دیا، اب کسی انکل کی آواز آئی جو گالی بک کر کہہ رہے تھے کہ ان تین بچوں کو یہاں سے ہٹاؤ اور بیگ کی تلاشی لو جس میں صرف شادی کے کپڑے تھے، انہوں نے بھائی اور دونوں بہنوں کو نیچے اتارا اور پھر پتہ نہیں کہاں لے گئے۔

چھوٹی بھوک سے رو رہی تھی تو اُسے اماں نے تھوڑی دیر پہلے ہی بوتل دی تھی مگر وہ بھی اب رونے لگی، تینوں بہن بھائی ایک ہی بات کہہ رہے تھے کہ ہمیں اماں ابا کے پاس سے لے کر کہیں نہ جائیں مگر انکل لے گئے۔ نورین یہ سب آپ کو بتانے کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ جن لوگوں نے آپ کو انٹرنیٹ کے ذریعے ورغلایا تھا اور پھر افغانستان تک لے کر گئے، انہوں نے ہمیں وہی قرار دے دیا گیا، پاپا نے تو کبھی ہم سے چیخ کر بات نہیں کی، ذیشان انکل بھی کبھی کچھ ایسا نہیں کرتے تھے مگر اُن کے ساتھ ہمیں بھی دہشت گرد کہہ دیا گیا۔

اب میرا سفر آخرت شروع ہوگیا، یہاں امی نہیں ہوں گی بلکہ اندھیری قبر میں میں اکیلی اور ابا بھی تنہا ہوں گے، ہمارے قتل کے بعد نہ جانے کیا کچھ ہوگا، مگر اپنی غلطی کے دفاع میں الزامات لگانے والے انکل صرف اتنا تو سوچ لیں کہ کبھی بابا نے کچھ نہیں کیا، اماں، ذیشان انکل یا میں کبھی ہم تو کسی کا دل بھی نہیں دکھاتے تھے اور آپ نے ہمیں دہشت گرد قرار دے دیا۔

بھائی اور دونوں چھوٹی بہنوں کو جب اسپتال میں میرا اور ماما، بابا کا چہرا دکھایا گیا تو انہیں سب یہ کہہ رہے تھے کہ آخری بار دیکھ لو پھر یہ لوگ قیامت کے دن ملیں گے، میں چاچو، دادی اور سب سے صرف ایک بات کہتی ہوں کہ بھائی، لائبہ اور چھوٹی کا بہت خیال رکھیے گا کیونکہ یہ لوگ امی اور بابا کے بغیر نہیں رہ سکتے، مجھے تو فرشتے اماں اور بابا کے ساتھ لے آئے اور ہاں نبیلہ کا خاص خیال رکھیے گا کیونکہ اُس کو بھی شاید گولیاں لگیں، اُس کا زخم گہرا ہوگا۔

لائبہ، نبیلہ اور بھائی آپ لوگ بالکل ڈرنا نہیں، اللہ میاں سب کچھ صحیح کردیں گے۔

والسلام،

آپ سب کی اریبہ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).