اپنے حصے کی چادر


ریل گاڑی کے آنے میں ابھی کچھ دیر تھی۔ اس نامعلوم دورانیے کا لطف اٹھانے کے لیے ریلوے اسٹیشن پر بنے ہوئے ایک ڈھابے سے چائے کی ایک پیالی پی لینے سے سرما کی بارش کا لطف دوبالا کیا جا سکتا تھا۔ ریل کی پٹڑی کے سینے پر اچھلتی بارش کی بوندوں اور ریل گاڑی میں بیٹھے مسافروں کا استقبال کرنے والے میزبانوں کی آنکھوں میں ایک سا رنگ تھا۔ میں نے چائے کی ایک پیالی کا آرڈر دیا۔ راولپنڈی کی فضاؤں میں اس وقت مری کی یخ بستہ ہواؤں کا راج تھا۔

تقریباً لہو جما دینے والی سردی تھی لیکن یہ میرا پسندیدہ موسم تھا۔ یوں بھی ہم لوگ پسند کے دکھ اور تکلیف سے اپنی مرضی کا سکھ کشید کرنے ہنر جانتے ہیں۔ بارش تیز ہوتی جا رہی تھی۔ اتنے میں ایک باباجی میرے ساتھ والی کرسی پر آکر تقریباً ڈھیر ہو گئے۔ میں نے ان سے چائے کا پوچھنا چاہا لیکن اس بارعب چہرے سے بات کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اتنے میں ڈھابے کے ایک بیرے نے ایک بڑا سا چائے کا مگ ان کے سامنے رکھا اور وہ اسے پینے لگے۔

گویا انہوں نے پہلے سے آڈر دیا ہوا ہو۔ میں نے ان کے چہرے کو غور سے دیکھا تو مجھے وہاں انتظار نام کی کوئی کیفیت دکھائی نہ دی۔ جب کہ میرے ارد گرد بیسیوں افراد ایسے تھے جن کے چہروں سے انتظار اور بے چینی جھلک رہی تھی۔ ان بزرگ پر جو کیفیت تھی آپ اسے اطمینان کہہ لیجیے۔ میں نے انہیں سلام کیا لیکن جواب نہ پا کر سبکی محسوس کی۔ ممکن ہے انہیں سماعت کا کوئی مسئلہ ہو، میں نے خود کو سمجھانے کی کوشش کی۔ میں نے جب سے موبائیل فون نکالا اور سوچا کہ بارش کے اس خوبصورت منظر کو فون کیمرے سے محفوظ کر لوں۔

تمہیں اس سے کیا حاصل ہوگا؟ میں اس غیر متوقع سوال پر حیران ہوا۔ وہ بزرگ میری طرف دیکھے بغیر دوبارہ گویا ہوئے، نوجوان اس منظر کو محفوظ کر کے تمہیں کیا حاصل ہوگا؟ میں نے ان کی طرف دیکھا وہ سامنے کسی انجان ہدف کی طرف ٹکٹی باندھے دیکھ رہے تھے۔ سوال بہت آسان تھا لیکن میں جانتا تھا کہ آسان سوالوں کے جواب مشکل ہوتے ہیں۔ میں نے کچھ دیر سوچا، پھر بولا، میں اس منظر کو محفوظ کرکے اپنی زندگی کی پرتوں میں چھپی کچھ خوشی حاصل کروں گا۔

انہوں نے میری طرف دیکھا اور مسکراتے ہوئے بولے، زندگی! تمہیں معلوم تو ہوگا کہ زندگی کیا ہے؟ اس مرتبہ یہ سوال متوقع تھا۔ میں نے پھر کچھ وقت لیا اور جواب دیا کہ زندگی خواب ہے۔ بالکل نوجوان تم نے درست کہا۔ زندگی خواب ہے، اور یقینا تم نے خواب عدم حقیقت کے معنوں میں نہیں لیا ( حالانکہ میں نے خواب کو غیر حقیقت کے ثنوی جوڑے کے طور پر لیا تھا، لیکن میں چپ رہا) ۔ نوجوان تمہاری زندگی اتنی ہی ہے جتنا تمہارا خواب ہے۔

ایک معذور شخص کے لیے برسوں بعد اپنے قدموں پر کھڑے ہوکر بیت الخلا جانا زندگی ہے بالکل ویسے ہی جیسے کسی شخص کے لیے کسی بہت بڑے ادارے کا سربراہ بن جانا زندگی ہے۔ تمہیں معلوم ہی ہوگا کہ سمجھ دار آدمی محض خواب نہیں دیکھتا بلکہ ان کی توسیع کرتا ہے، اور انہیں دوسروں کو منتقل کردیتا ہے اور یوں ہم میں سے اکثر خوابوں کی توسیع کے ایک لامتناہی سلسلے سے جڑ جاتے ہیں۔ کیا تم بھی خواب دیکھتے ہو؟ اس طویل فلسفیانہ گفتگو کے آخر میں یہ غیر متوقع سوال مجھے پھر اسی لمحہ موجود میں لے آیا۔

اس سے قبل کہ میں جواب دیتا۔ وہ بولے! جواب دینے میں جلدی نہ کرنا ہم لوگ اپنی نصف زندگی عجلت میں دیے گئے جوابوں کو منطقی ثابت کرنے میں گزار دیتے ہیں حالانکہ نصف زندگی کے کسی ایک مناسب پل میں جنت میں ایک بہترین پلاٹ بُک کروایا جا سکتا ہے۔ انسان واقعی بہت جلد باز ہے۔ ہمم! میں اس تنبیہہ پر جواب دینے سے رُک گیا۔ اور سوچنے لگا کیا میں خواب دیکھتا ہوں؟ میں نے دھیان میں لپٹی ہوئی یادوں کا کا ایک تھان کھولا جس پر بہت شروع کی کہانی تھی اس وقت کی جب آسمان پر ہر کٹی ہوئی پتنگ مجھے اپنی چھت سے گزرتی دکھائی دیتی تھی۔

اور ایسی ہی بیسیوں پتنگوں میں سے کسی ایک پتنگ کی ڈور ہاتھ میں آ جانا میرے لیے ایک مکمل خواب تھا۔ پہلی مرتبہ قینچی سائیکل چلا کرمحلے کی سب سے بڑے مکان کے دروازے پر بیٹھے کتے کو پتھر مار کر بھاگ جانا میرا ایک خواب تھا جو پے در پے ناکامیوں کے بعد بالآخر میں نے شرمندہ تعبیر کر ہی لیا۔ میٹرک میں مناسب نمبر لے کر پیکو سائیکل کا تحفہ حاصل کرنا میرا ایک خواب تھا، یہ سچ بھی ہے کہ سائیکل کا لالچ نہ ہوتا تو شاید میں میٹرک بمشکل پاس کرتا۔ لیکن اس سائیکل نے مجھے کتنے ہی خوابوں سے متعارف کروایا۔

سرفراز رفیقی روڈ سے خوابوں کا سفر شروع ہوتا تو فورٹریس اسٹیڈیم سے ہوتا ہوا، مال روڈ کے چڑیا گھر، واپڈا ہاؤس، اسمبلی بلڈنگ، پاک ٹی ہاؤس، انار کلی، ایم اے او کالج، لکشمی، میکلوڈ روڈ سے ہوتا ہوا اسٹیشن، گڑھی شاہو، دھرم پورہ، دبئی چوک اور پھر سے سرفراز رفیقی روڈ پر آکر ختم ہوجاتا۔ کبھی کبھار یہ سفر دبئی چوک سے مغل پورہ، گندا نالہ، باغبانپورہ سے ہوتا ہوا جلو موڑ اور پھر واہگہ بارڈر پر تیرتے جھنڈوں میں سے سبز ہلالی پرچم میں اپنا خواب تلاش کرلیتا۔

کبھی قینچی، چونگی امرسدھو، نیو کیمپس، والٹن، گرین ٹاؤن، کبھی نولکھے سے دوموریے پل، مسجد وزیر خان، وڈے بازار، ٹبی گلی، شاہی مسجد سے یادگار اور پھر شاہدرے کے سینے پہ رکھے جہانگیر کے مقبرے کی خاموشی میں اپنے خواب تلاش کرتا۔ ماڈل ٹاؤن میں ٹریک کے ساتھ لگے بینچوں پر بیٹھے جوڑوں کے بوس کنار سے بے پرواہ مستنصر حسین تارڑ صاحب سے پنجابی زبان میں چلتے پھرتے کہانیوں کا فن جاننا بھی ایک خواب سے کم نہ تھا۔

لیکن ان تمام خوابوں میں کوئی ایک خواب بھی ایسا نہ تھا جسے مستقل، حتمی اور منطقی کہا جاسکتا ہو۔ کالج یونیورسٹی، نوکری، شادی بچے، شاعری وغیرہ وغیرہ سب کچھ تو تھا جسے میں مختلف مواقع پر خواب سمجھتا رہا۔ لیکن یہ سب آپس میں کچھ ایسے الجھے ہوئے تھے کہ ان خزانوں میں سے کوئی ایک خواب بھی بزرگ کے سوال کا ممکنہ جواب نہ ہوسکتا تھا۔ پھر نجانے کہاں سے ایک جواب بارش کی بوند کی طرح میرے ذہن میں آن ٹپکا ”جی میں خواب دیکھتا ہوں کہ ایک دن دیوار سامنے سے ہٹ گئی اور دو کھلے بازوں نے میرا استقبال کیا ہے“۔

بابا جی مسکرائے۔ ذہین آدمی ہو! دو قدم چل کر منزل پر پہنچنا چاہتے ہو! تمہیں پتہ ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا علم کیا ہے؟ میں نے جواب دیا ’نہیں باباجی‘ ۔ وہ بولے! دنیا کا سب سے بڑا علم جھوٹ کی پہچان ہے، کہ سچ تو سورج کی طرح روشن ہوتا ہی ہے اور اب تو جھوٹ کو سورج کی طرح روشن دکھایا جانے لگا ہے۔ زیادہ سیکھنے سے کہیں بہترہے کہ انسان جو سیکھے وہ جھوٹ پر مبنی نہ ہو۔ بابا جی کی اس بات نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھا دیا۔

اتنے برسوں کی پڑھائی پر مان کرنے والا ’میں‘ گویا آسمان سے زمین پر آ گرا، نصابی اور غیر نصابی کتب میں درج جھوٹ کو سچ سمجھ کر پڑھتے پڑھاتے بالوں میں چاندی آگئی لیکن جھوٹ کی پہچان نہ سیکھ پائے۔ بابا جی جن کی عمر بظاہر ستر سے اسی برس کے درمیان لگتی تھی، نے خود کو ایک موٹی چادر میں لپیٹا ہوا تھا، نجانے کتنی عمروں کی تہوں میں چھپے ہوئے تھے۔ میں نے اشتیاق کے مارے پوچھا بابا! آپ کیا کرتے ہیں، وہ بولے ’انتظار‘ ۔

بیٹا انتظار ایک ایسا نکتہ ہے جس کے دائیں جانب منزل ہے جب کہ بائیں جانب محض انتظار ہے۔ افسوس ہم میں سے کتنے ہی معصوم لوگ غلط راستہ چن لیتے ہیں اور ساری عمر انتظار ہی ان کا مقدر ٹھہرتا ہے۔ گویا آپ نے غلط موڑ لیا۔ میں نے بابا سے پوچھا۔ اس سوال پر وہ کچھ کچھ پریشان دکھائی دیے۔ اتنے میں ریل گاڑی کی سیٹی سنائی دی میں اور بابا دونوں اپنی نشستوں سے اٹھے۔ میں نے کاوئنٹر پر چائے کی رقم ادا کی جب کہ بابا نے اپنا مگ کاؤنٹر پر رکھا۔

چادر میں لپٹے اس منحنی شخص کے علم اور نستعلیق لہجے سے میں بہت متاثر ہوا تھا۔ میں نے بابا سے پھر پوچھا! بابا آپ نے جواب نہیں دیا! وہ بولے! بعض اوقات ساری عمر انتظار کرنے والے لوگ نجانے کتنوں کی منزل ہوتے ہیں۔ ٹرین کی چنگھاڑ رفتہ رفتہ ہمارے قریب آ رہی تھی۔ بابا نے چادر اتاری تو اندر سے قلی کے لباس میں ملبوس ایک شخص برآمد ہُوا۔ اس نے چادر کاوئنٹر پر دھری جو وہاں کے ملازمین نے ایک طرف رکھ دی اور اتنی دیر میں بابا لوگوں کی بھیڑ میں گم ہوگیا۔ اب مجھے بھیڑ میں اپنے مہمان کے ساتھ ساتھ اپنے حصے کی چادر کو بھی ڈھونڈنا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).