نیا سیاسی منتر: “70 سال کا گند”


یہ ہر بات پر ”70 سال کا گند“ والا وظیفہ کہاں سے آیا؟

ہر بات، ہر اعتراض کے جواب میں مریدین شروع ہو جاتے ہیں، 70 سال کا گند، 70 سال کے مسائل وغیرہ وغیرہ راتوں رات تو ٹھیک نہیں ہو سکتے۔

دراصل یہ ایک گمراہ کن بات ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ ایسا ہرگز نہیں کہ گزشتہ 70 سال میں اس ملک میں کچھ اچھا نہیں ہوا۔ جس کا یہ خیال ہے وہ یا تو نابینا اور بہرا ہے یا پھر اسے کوئی دماغی عارضہ لاحق ہے۔ دور جانے کی ضرورت نہیں، اپنے ابا جان سے پوچھ لیں کہ ان کے دور میں کیا تھا اور آج کیا ہے۔ انفراسٹرکچر، تعلیمی و طبی سہولیات، ٹیکنالوجی، روزگار، آزادی اظہار، فیصلہ سازی اور گورننس میں شمولیت، خواتین کی ترقی غرضیکہ ہر شعبے میں ہر آنے والا کل گزرے ہوئے کل سے بہتر ہوا ہے۔

دوسری بات یہ کہ موجودہ وزیراعظم سے چند مریدوں نے کوئی ایسی امید باندھی ہو کہ پہلے 100 دن میں وہ دودھ اور شہد کی نہریں بہائیں گے تو علیحدہ بات ہے، پاکستانیوں کی اکثریت ایسی کسی بھی غیر حقیقی اورغیر معقول خوش فہمی یا غلط فہمی کا شکار تھی اور نہ ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت مریدوں کی اس خوش فہمی کا گمراہ کن استعمال اس طرح سے کر رہی ہے کہ اپنی ہر نااہلی، نکمے پن، خانیت، بزداریت، چوہانیت، بشارتیت، سروریت وغیرہ وغیرہ کا الزام ’70 سال کے گند ”کے سر تھوپ کر فارغ ہو جاتی ہے اور اس 70 سالہ فرضی پسماندگی کو اپنے حقیقی نکمے پن کا جواز بنا لیتی ہے۔

پاکستان ہرگز بھی 70 سال دنیا کی نظروں سے پوشیدہ کسی غار میں نہیں چھپا رہا۔ جیسا کہ اوپر عرض کیا ان برسوں میں یہاں ہر شعبے میں پیش رفت ہوئی، کہیں کم کہیں زیادہ۔ حتی کہ ان بدقسمت 30 برسوں میں بھی معاشی ترقی اور انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کے حوالے سے پیش رفت ہوئی جب مختلف فوجی سربراہ آئین معطل کر کے اور لوگوں کا حق حکمرانی سلب کر کے اسلام آباد فتح کرتے رہے اور ملک کی اعلی ترین عدالت ان دن دہاڑے ڈکیتیوں کو اپنے فیصلوں سے حرف جواز بخشتی رہی۔

تو عرض تبدیلی سرکار اور مریدین کی خدمت میں یہ ہے کہ ایسا نہیں ہوا کہ پاکستان 14 اگست 1947 کو سرد خانے میں لگا دیا گیا تھا اور جولائی 2018 کو بیل گاڑی، کچی سڑکوں، ببول کے کانٹوں والی پیپر پنوں اور ٹیلی گرام کے دور والا پاکستان نکال کے تبدیلی سرکار کے حوالے کر دیا گیا کہ اب 100 دن میں اسے انفراسٹرکچر کے حوالے سے سنگاپور، انسانی حقوق کے حوالے سے کینیڈا اور سکینڈے نیویا اور دولت کے حوالے سے کویت بناؤ۔ اور جب وہ اپنے روایتی عزم اور جذبے سے یہ کارنامہ عظیم سرانجام دینے میں جتے ہوئے ہیں تو ہم جیسے گستاخ، بے صبرے، رائے ونڈ اور گڑھی خدا بخش کے غلام ذرا سا صبر نہیں کر رہے اور بار بار پوچھتے ہیں کہ کدھر گیا نیا پاکستان، کدھر گیا نیا پاکستان۔

یہ ڈرامہ بازی چھوڑیں، یہ جیتا جاگتا، چلتا پھرتا، پھلتا پھولتا 20 کروڑ لوگوں کا ملک ہے جس کی باگ ڈور آپ نے بصد خوشی و برغبت پتہ نہیں کتنی منتوں، ترلوں، سازشوں، محنتوں، بہانوں اور افسانوں سے لی ہے۔ اب وعدے پورے کرنے کا وقت ہے۔ اب اور کچھ نہیں تو کم از کم اچھے کھلاڑی والی سپرٹ کا مظاہرہ ہی کر لیں کیونکہ آپ ایک نامور کھلاڑی رہے ہیں۔ ہر بات 70 سالہ فرضی بے عملی پر نہ ڈالیں۔ آپ نے اس ملک کے ہر سسٹم کو گندہ اور سڑا ہوا کہا کہ آپ کا نوعمر پیروکار اسی طرح ہی ہر تاریخی کردار اور کام سے نفرت کر کے آپ کو ایک روشن مستقبل کا استعارہ مان سکتا تھا۔ اس روش سے جو مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے، وہ ہو گیا۔

اب جب لیلائے اقتدار کے محمل نشین بن چکے ہیں تو ان نابالغ مریدوں کو یہ بھی سمجھا دیں (کیونکہ آپ اپنے منہ ہار نہ ماننے اور جدوجہد کرنے والے کپتان ہونے کے دعویدار ہیں) کہ آپ کو اپنی موعودہ ادارہ جاتی اصلاحات کے لئے بھلے کچھ وقت چاہیے ہو لیکن ڈے ٹو ڈے گورننس، جرائم کی بیخ کنی، سرکاری اداروں میں روزمرہ معاملات کے لئے ”70 سالہ گند کی صفائی میں درکار وقت“ والا بودا جواز نہیں چلے گا۔

ان کو یہ سمجھائیں گے تو بجائے سابقہ حکومتوں کو گلے کی رگیں پھلا پھلا کر برا بھلا کہنے کے تبدیلی کے سفر میں یہ آپ کے دست و بازو بن سکیں گے۔ جب آپ کی کور ٹیم کے فے چے (فیاض چوہان اور فواد چوہدری) جیسے کردار اپنی نا اہلی کو 70 سالہ پردے میں چھپانے کی کوشش کریں گے تو یہ نوجوان آپ کی قوت بن کر ان کو سیدھے رستے پر لائیں گے۔

اگر آپ تبدیلی کے دعوے میں سچے ہیں تو یقیناً اب 70 سالہ ڈھال کا بے جواز، بے دریغ اور بے جا استعمال بند کر دیں گے لیکن اگر ویسے ہی ہیں جیسے اب تک ثابت کر چکے ہیں تو پھر لگے رہو منا بھائی۔ ”70 سال کا گند چند سال میں کیسے ختم ہوتا ہے“۔ آپ یہ طرح مصرع اٹھاؤ گے تو اس پر غزلیں بلکہ دیوان کے دیوان کہنے والے پاکستان کے بہت سے خیر خواہ آپ کو مل جائیں گے۔ نواز شریف اور بھٹو کی طرح آپ خوش قسمت بھی ہو کہ ان میں سے کئی آپ سے محبت بھی کرتے ہیں اور آپ کی محبت میں وہ کسی سے نفرت بھی کر سکتے ہیں۔ محبت پر قائم اس تعصب میں آپ بھی پانچ سال گزار جاؤ اور بعد میں آنے والا ”75 سالہ گند“ صاف کرنے کی آواز لگانا شروع کر دے گا۔ تاریخ کے پنے کون سے خود پڑھنے ہوتے ہیں کہ بندہ ان کی فکر کرے

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).