ایسا تو چنگیزی دور میں ہی ہوا کرتا تھا


انسانی خون میں جو نشہ ہے اور اسے بہانے والے کو جو سرور حاصل ہوتا ہے وہ شاید کسی کا خون بہانے سے حاصل نہیں ہوتا۔ یہ بات بھی ایک اٹل حقیقت ہے کہ جو درد انسانی خون بہتا ہوا دیکھ کر ہوتا ہے وہ بھی ایسا درد ہے جو انسان کے علاوہ کسی بھی جاندار کے خون کو بہتا ہوا دیکھ کر نہیں ہوتا۔ ظلم انسانوں کے ساتھ ہی نہیں ہوتا جانوروں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ دردِ دل رکھنے والے جانوروں کے ساتھ بھی ہونے والے ظلم پر پردرد ہو جایا کرتے ہیں لیکن انسانوں کے ساتھ ظلم پر وہی آنکھیں نمناک نہیں ہوتیں جن کے سینے میں دل نہیں پتھر ہوتا ہے۔ اسی تاثر کو میں نے اپنے ہی ایک شعر میں یوں بیان کیا تھا کہ

دنیا والوں کے سینے میں دل کب تھا پتھر رکھا تھا

ورنہ مظلوموں کے آنسو سینوں کو دھڑکا سکتے تھے

مشاہدات کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں کہ انسان تو انسان، اگر کسی جانور یا درندے کو بھی انسانی خون منھ کو لگ جاتا ہے تو پھر اسے کوئی اور شکار پسند ہی نہیں آتا۔ آدم خوروں کی بستیاں کی بستیاں اور جنگل کے جنگل آباد ہوا کرتے تھے۔ پورا پورا قبیلہ انسانوں ہی کو کھایا کرتا تھا۔ اس مہذب دنیا میں بھی آدم خوروں کی کوئی کمی نہیں اور انسانی خون بہائے بغیر یا ان کو تڑپائے بغیر ان کی اذیت پسند طبعیت کو کسی صورت چین نصیب نہیں ہوتا۔ ان کو تڑپتا دیکھ کر، ان کی چیخیں، آہیں اور سسکیاں سن کر ان کی بانچھیں کھلنے لگتی ہیں اور جب ہر ظلم گزر جانے کے بعد ان کے گلے کاٹے جاتے ہیں یا ان کو گولیاں مار کر ان کا خون بہایا جاتا ہے تو یہ ان کی تسکین کی آخری حد ہوتی ہے۔

یہ بات عام افراد کے اندر ہی نہیں، محافظوں کے اندر بھی ہے اور ایک وبا کی طرح اس تیزی سے بڑھتی جارہی ہے کہ چند برسوں میں ہی یہ وحشی درندے کیڑے مکوڑوں کی طرح ہر در و دیوار سے یاجوج ماجوج کی طرح ہر بلندی و پستی سے نکلل کھڑے ہوں گے اور انسانوں کے لہو سے ہولیاں بھی کھیل رہی ہوں گے اور ان کی بوٹیاں بھی نوچ نوچ کر کھارہے ہوں گے۔

باپ بیٹوں کو مار رہا ہے، بیوی اپنے شوہر اور بچوں کے گلے کاٹ رہی ہے، بھائی بہن کو اور بہن بھائی کو قتل کررہا ہے اور قوم کے محافظ عوام کو درندگی کے ساتھ گولیوں سے بھونتے دکھائی دے رہے ہیں۔

یہ سلسلہ قیام پاکستان کے بعد سے ہی شروع ہے۔ عوام عوام کے خون کی پیاسے ہیں تو محافظان قوم اپنی ہی قوم کے لہو سے ہولی کھیل رہے ہیں۔

ساہیوال کا واقعہ دردناک سہی لیکن کیا یہ اس قسم کا پہلا واقعہ ہے؟ کیا لوگ ماڈل ٹاؤن کا واقعہ فراموش کر سکتے ہیں؟ ، کیا سندھ میں 9 ہاریوں کا قتل معمولی واقعہ تھا؟ کیا ایوبی دور میں فاطمہ جناح کی شکست کے بعد کراچی کی خوں ریزی درندگی نہیں تھی؟ کیا 92 کا آپریشن کلین اپ مبنی بر انصاف تھا؟ کیا اس وقت سے آج تک جاری آپریشن کسی کو یک طرفہ دکھائی نہیں دے رہا؟ کیا جنوبی وزیرستان میں کیے جانے والے اور جاری آپریشن میں کہیں بھی زیادتی نہیں ہوئی؟

کیا بمباری سے مارے جانے والے سارے کے سارے دہشت گرد ہی تھے؟ کیا مسجد حفصہ اور لال مسجد میں معصوم بچوں، بچیوں، خواتین اور مردوں کا قتل عام درندگی کی انتہا نہیں تھی؟ کیا اٹھائے جانے والے افراد کے لئے کسی عدالت میں پیشی اور ان کے ساتھ انصف کا سلوک کرنے کی کوئی ضرورت نہیں؟ کیا ہر 90 دن کے بعد مزید 90 دنوں کے ریمانڈ اور 14 روزہ ریمانڈ کے بعد مزید 14 دنوں کے ریمانڈ پر ریمانڈ عین انصاف ہیں؟ ہر روز کے پولیس مقابلے اور انسانی خون کو بے دردی کے ساتھ بہنا کسی بھی ظلم کی بات نہیں؟ کیا جگہ جگہ سے فورسز کے ہاتھوں اٹھائے گئے افراد کی لاشیں برآمد ہونا کوئی لائق تعزیر جرم نہیں؟

یہ سب تو وہ واقعات ہیں جس میں بہر صورت ”محافظوں“ کی شمولیت ثابت ہے۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ انسانی خون عام انسان یا سیاسی پارٹیاں گلی محلوں، سڑکوں بازاروں، گھروں اور چوراہوں پر بہاتی رہی ہیں لیکن ان کے خلاف قانون آج تک حرکت میں نہیں آیا۔ کیا مشرقی پاکستان میں قتل عام نہیں ہوا؟ کیا مغربی پاکستان میں اپنے ہی ہم وطنوں نے کراچی کو خون میں نہیں نہلایا؟ کیا علی گڑھ کالونی کو اسرائیل والوں نے جلایا تھا؟ کیا اغوابرائے تاوان میں سیکڑوں افراد نشانہ نہیں بنائے گئے؟

کیا سندھی اور غیر سندھی کے جھگڑے میں سندھ کے شہروں کو راکھ کا ڈھیر نہیں بنایا گیا؟ کیا عزتیں تار تار نہیں کی گئیں؟ کیا 27 دسمبر 2007 کو تاریخ کبھی فراموش کی جا سکے گی جب گوادر تا فاٹا سب راکھ کا ڈھیر بنادیا گیا تھا؟ وہ کون سی درندگی ہے جو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں قیام پاکستان کے بعد سے تا دم تحریر جاری نہیں ہے۔

یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ سب سے زیادہ ظلم کراچی میں توڑا گیا جس میں سول قوتیں بھی شامل رہیں اور قوم و وطن کے محافظ بھی۔ ایک طویل تاریخ ہے جو خون سے رنگین نظر آتی ہے لیکن کیا کراچی میں ہونے والے کسی بھی ظلم کے خلاف پاکستان کے ہر چینل پر اسی طرح طوفان برپا ہوا جس طرح پاکستان کے ایک ”خاص“ صوبے میں ہونے والے کسی بھی واقعے کے بعد زلزلہ آجایا کرتا ہے؟ کیا کے پی کے میں ظلم نہیں ہوتا؟ کیا بلوچستان ظلم و زیادتی سے پاک علاقہ ہے اور کیا سندھ پر امن ہے؟ یہاں ہونے والے سنگین سے سنگین واقعہ کے بعد آوازیں تو ضرور اٹھتی ہیں لیکن شور و شرابہ نہیں ہوتا۔ خون سب کے بدن کا سرخ ہی ہوتا ہے لیکن کسی کی سرخی تسلیم شدہ ہے اور کہیں سرخی ثابت کرنے کے لئے بڑے بڑے وکیل بھی جاہل قرار دے دیے جاتے ہیں۔

چار بے بس لوگ درندگی کے ساتھ بھون دیے گئے اور صدمہ ماں کی زندگی بھی چھین لے گیا۔ میں کبھی یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرونگا کہ وہ دہشتگرد نہیں ہوں گے لیکن قید میں آئے یا پنجروں میں بند پرندوں کو بھی کوئی درندگی سے ”حلال“ نہیں کرتا۔ یہاں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب سب بے بس کر دیے گئے تھے تو ان کو قتل کس قانون کے تحت کیا گیا۔ اگر قانون کا دوسرا نام بندوق ہے تو پھر یہ بندوق مظلوموں کے پاس بھی ہو سکتی ہے۔ اگر قانون لاقانونیت کر سکتا ہے تو جو ہیں ہی قانون شکن ان کو خلاف ورزی سے کون روک سکتا ہے۔ بلا قانون اگر قانون ہی خشت زنی پر اتر آئے گا تو سنگ باری سے پاکستان کو کون محفوظ رکھ سکے گا؟

میں حیران ہوں تو محض اس لئے کہ جب ایک دہشتگرد کو گھیر ہی لیا گیا تھا تو پھر اس کو گرفتار کیوں نہیں کیا گیا۔ دہشتگرد ہو یا کوئی ڈاکو، کیا بے دردی کے ساتھ مارنے کی اجازت دنیا کا کوئی قانون دیتا ہے۔ کیا بے بسوں کو گیارہ گیارہ گولیاں ماری جاتی ہیں۔ کیا خواتین کو بھی بھونا جاتا ہے۔ کیا کمسن بچی پر بھی 13 گولیاں چلائی جاتی ہیں۔ کیا ایک آدھ گولی ایسے بھیڑیا صفت اہلکاروں کے لئے چلانا کافی نہیں تھا؟ اول تو جان سے ماردینے کا کوئی قانون، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پاکستان میں بنایا ہی نہیں گیا اس پر عالم یہ ہے کہ اس درندگی کو میڈیا کے ذریعے درست ثابت کرنے کے لئے پورا زور لگایا جا رہا ہے اور موجودہ حکومت درندہ صفتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ظلم کو مبنی بر انصاف ثابت کرنے پوری توانائی صرف کیے ہوئے ہے۔

فواد چودھری کا فرمان ہے کہ کیا دہشتگردوں کے بچے نہیں ہوتے۔ دہشتگردوں نے انسانوں کو اپنے لئے ڈھال بنایا ہوا تھا۔ گورنر پنجاب فرماتے ہیں کہ اس قسم کے واقعات ہر ملک میں معمول کی بات ہے۔ وزیر قانون (پنجاب) پھول جھاڑ رہے ہیں کہ اگر لوگ معصوم ثابت ہوئے تو مرنے والوں کے لواحقین کو معاوضہ ادا کیا جائے گا۔ یہ اور اسی قسم کے بے سروپا بیانات حکومت کی درندہ صفتی کی ایک جھلک ہے جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے وہ کم ہے۔

بیانات ہیں کہ پل پل بدل رہے ہیں۔ بشارت صاحب ثابت کرنے پر لگے ہوئے ہیں کہ وہ داعش والے تھے، فائرنگ دو طرفہ تھی، گاڑی کے شیشے سیاہ تھے، بڑے بڑے میزائل گاڑی میں تھے، گنیں تھیں، ایٹم بم تھے اور خود کش جیکٹیں بھی موجود تھیں۔ ان کی ساری باتیں درست ہی ہوں گی اس لئے کہ بھلا ایک وزیر کو جھوٹ بولنے کی کیا ضرورت لیکن بات وہیں پر آکر رکتی ہے کہ جب ان کو گھیر ہی لیا گیا تھا تھا تو اس سے سنہری موقع کیا ہوسکتا تھا ان کو دہشتگرد ثابت کرنے کا۔ کارروائی کچھ دیر کے لئے روکتے۔ گھسیٹ کر سڑک پر لٹاتے، کیمروں کو آن کرتے اور سب کو اپنے ساتھ لے جاتے۔ پورے پاکستان میں آپ کے خلاف نفرت کا اضافہ بھی نہیں ہوتا اور گرفتار دہشت گردوں سے بہت سارے اہم راز بھی معلوم ہوجاتے۔

بات وہی ہے کہ انسانی خون میں نہ جانے کیا لذت ہے کہ جس کو منھ لگ جائے اسے دنیا کے کسی کھاجے میں مزا ہی نہیں آتا۔ یہ خونخواری پورے ملک میں عام ہوتی جارہی ہے اور لگتا ہے کہ اس کو عام ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔

کشمیر کو روتے ہیں، وہاں جتنا خون کافروں کے ہاتھوں گزرے برس ہوا اتنا تو ”راؤانوار“ نے مسلمان ہوتے ہوئے کر ڈالا لیکن وہ تو عیاشیاں کر تا پھررہا ہے۔ اس ایک کے آگے پاکستان کی ساری ایجنسیاں اور قانون بے بس و لاچار ہے لیکن محض شبہ میں بچی، ماں، والد اور والد کے دوست کو مار دیا جاتا ہے۔ یا تو یہ ساری ظالمانہ کارروائیاں بند کی جائے یا پھر کشمیر اور فلسطین میں ہونے والے مظالم پر رونا دھونا چھوڑدیا جائے۔ وہ تو کافر ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ کچھ بھی کر سکتے ہیں لیکن کلمہ گوؤں کا درندہ بن جانا کہیں سے کہیں تک قابل معافی نہیں ہو سکتا۔ لگام دیدی جائے تواچھا ہے ورنہ کہیں خدا نخواستہ ایسا نہ ہو کہ پاکستان کا بچہ بچہ بے لگام ہوجائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).