ماں جیسی ریاست اور خالی فیڈر


یہ کہنا کہ ریاست اپنے شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دار ہوتی ہے، کم از کم ہمارے ملک میں ایک بے وقعت جملے سے بڑھ کے کچھ بھی نہیں۔ جب بھی ریاست کا ذمہ داری نبھانے کا وقت آیا ریاست کا کردار شاید ہی حوصلہ افزا رہا ہو۔ جس ریاست اور سوشل کنٹریکٹ کی بات ہابز، لاک اور روسو نے کی ہے وہ ہمارے ہاں شاید ہی کبھی سنجیدہ بحث کا موضوع رہا ہے۔ ہم آج تک بہت بنیادی قسم کے سوالات پہ عجب مخمصے کا شکار ہیں اور سطحی انتظام اور ایڈہاکزم کے علاوہ کوئی سنجیدہ کوشش دیکھنے میں نہیں آتی۔

جب بھی کوئی حادثہ پیش آتا ہے صاحبانِ اقتدار ’ہمدردانہ‘ ٹویٹس کرتے ہیں اور پریس کانفرنسز کر کے ہر بار ذمہ داروں کا تعین کرنے اور انہیں کڑی سے کڑی سزا دینے کے وعدے کر کے اپنی رسمی ذمہ داری نبھا دیتے ہیں اور چند دن گزرنے کے بعد وہ معاملہ خود بخود ہی سرد خانے کی نذر ہو جاتا ہے اور پھر معاملات اسی ڈگر پہ چل پڑتے ہیں تاوقتیکہ کوئی اور واقعہ رونما نہیں ہو جاتا۔ آج کل ہر معاملے پہ جے آئی ٹی بنانے کا رواج عام ہے سو ایک آدھ جے آئی ٹی تشکیل دے دی جاتی ہے۔ لیکن بنیادی سوال جوں کا توں موجود رہتا ہے کہ آخر یہ نظام اتنا کھوکھلا کیوں ہے؟ کوئی سنجیدہ بندوبست کیوں نہیں کیا جاتا؟ نظام کی بہتری کے لئے قانون سازی کیوں نہیں کی جاتی؟ اگر کوئی قانون موجود ہے تو اس پہ عمل در آمد کروانا کس کی ذمہ داری ہے؟

ساہیوال میں پیش آنے والے الم ناک سانحے نے ہر آنکھ کو اشکبار کر دیا ہے۔ ایک ہنستا بستا خاندان پلک جھپکتے ہی ماورائے عدالت قتل کا نشانہ بن گیا۔ وہ بچے جو اپنے رشتہ داروں کی شادی کی تقریب میں رنگ برنگے لباس زیبِ تن کرنے اور بھنگڑے ڈالنے کا سوچ رہے تھے انہیں ماں باپ کی کفن لپٹی لاشوں پہ نوحہ کناں ہونا پڑا۔ شاید بیٹیاں سوچ رہی ہوں گی کہ بابا انہیں آئس کریم لے کے دیں گے ان کی پوشاکوں پہ اسی شفیق باپ کا خون لگا۔

اس بچی کا کرب اور بے بسی کیسے بیان ہو جسے شاید یہ بھی نہیں پتہ کہ موت کیا ہوتی ہے۔ ہاتھ میں خالی فیڈر لئے وہ ہر کسی سے کہتی ہو گی کہ اس کی ماں کو بلائیں اسے دودھ لا دیں وہ بھوکی ہے۔ وہ تو ماں کی بانہوں میں لپٹ کے سونے کی عادی تھی اسے کیا خبر کہ وقت اسے کتنا گہرا صدمہ دے گیا ہے۔ اب اسے کبھی بھی اپنی ماں کی لوریاں نصیب نہیں ہوں گی۔ اس کا وہ باپ جو اس کے ناز اٹھاتا، اپنی بیٹیوں کے ایک جیسے کپڑے لاتا ان کی ہر خواہش پوری کرتا اب ابدی نیند سلا دیا گیا ہے۔

جس باپ سے اپنے بہن بھائیوں کی شکایت کیا کرتی تھی اس باپ کے خون کی شکایت کس سے کرے؟ میری بیٹی میں تمہارے ساتھ ہونے والے ظلم پہ بہت دکھی ہوں۔ کبھی کسی بیٹی کی قسمت ایسی نہ ہو کہ اس کی آنکھوں کے سامنے اس کے ماں باپ گولیوں سے چھلنی کر دیے جائیں۔ میری بیٹی مجھ سے تمہارا خالی فیڈر اور ویران چہرہ نہیں دیکھا جاتا۔ میرے پاس آنسوؤں سے بھیگی تحریر کے علاوہ ایک امید ہے کہ شاید تمہیں انصاف مل جائے۔ اگر انصاف مل بھی جائے تو میری بیٹی اب تمہیں بن ماں باپ کے ہی جینا ہے۔ تمہارے بالوں میں انگلیاں پھیرنے والے، تمہارا ماتھا چومنے والے، تمہارے ہلکے سے درد پہ تڑپ اٹھنے والے منوں مٹی تلے دفن ہو چکے ہیں۔ شاید اب کوئی نہ پوچھے کہ میری بیٹی تمہیں بھوک تو نہیں لگی؟ میری بیٹی تمہارے ساتھ ظلم ہوا ہے بہت بڑا ظلم۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).