بستیاں الو بولنے سے نہیں،نا انصافی سے ویران ہوتی ہیں


محبت گولیوں سے بو رہے ہو

وطن کا چہرہ خون سے دھو رہے ہو

گماں تم کو کہ رستہ کٹ رہا ہے

یقین مجھ کو کہ منزل کھو رہے ہو۔

زندگی اتنی مصروف ہو جائے گی، کبھی سوچا نہ تھا۔ ہم جو کبھی ”غم جاناں“ کے تصور سے نہ نکلے تھے، اب ”غم دوراں“ میں الجھ بیٹھے ہیں۔ زندگی ہے کہ الجھا ہوا اون کا گولہ بنتی جا رہی ہے۔ کوئی سرا ہاتھ ہی نہیں آتا۔ سارے دھاگے الجھ گئے ہیں، کوئی بتانے والا بھی نہیں کہ کون سے دھاگے کو جدا کس سے کریں۔

ہر دن نئی ”امید“ کا سورج نکلتا ہے اور نئے ”درد“ تھما کے ڈوب جاتا ہے۔ ہم جو کبھی چاند سے ”سرگوشیاں“ کیا کرتے تھے اب خفا خفا سے رہتے ہیں۔ تاریک راتوں میں اجالے کے لئے کوئی جگنوبھی نہیں ہے۔ کسے خبر کب چاند سے صلح ہوگی؟

عرصہ ہوا کوئی قصہ نہیں سنا، وہ جو زندگی کا لازمی ”حصہ“ تھا۔ زندگی اک بے رنگ سی داستاں ہوئی جاتی ہے۔ دو گھڑی سکون کے لئے جو سکرین کو دیکھ لیا کرتے تھے، اب جو دیکھیں تو اک وحشت سی ہونے لگتی ہے۔ وہاں کبھی تین معصوم بچوں کی تصویر دکھائی دیتی ہے اور کبھی سیٹ بیلٹ باندھے بے جان لاشیں۔ کبھی اس باپ کی اپنی بیٹیوں کے ساتھ ہنستی مسکراتی تصویر ہے تو کبھی ایک ماں کی سوالیہ نظریں۔

وہ ماں جس آنکھوں میں کئی سوال جھانکتے دکھائی دیتے ہیں۔ میرے بچوں کا کیا قصور تھا؟ کہ آن واحد میں وہ ”یتیم و مسکین“ بنا دیے گئے؟ وہ نگاہیں سوال کرتی ہیں کہ ماں جیسی ہستی بھی اتنی کمزور ہے کہ اپنی پہلوٹی کی اولاد کو ایک گولی سے نہ بچا سکی؟ تو کیا سب مائیں اتنی ہی کمزور ہیں؟

یونہی چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے ایک شوخ سی لڑکی جو بچپن اور جوانی کی دہلیز پہ کھڑی ہے، عمر کوئی تیرہ برس تک ہو گی، مجھ سے ضد لگا کے بیٹھی ہے کہ قصہ سنادو۔ اس پگلی کو کون سمجھائے کہ ابھی تو ہر جگہ تمھارے ”قصے“ ہیں۔ تمھاری کہانیاں ہیں جو سب خون جگر سے لکھ رہے ہیں۔ ابھی تو کئی لوگوں کے جگر چھلنی ہیں، ابھی تو ”خالی فیڈر“ دیکھ کے دل ویران ہوا جاتا ہے۔ ابھی کچھ دن گزرنے دو، ہم ماؤں کو یقین کر لینے دو کہ ہم اور ہمارے بچے ابھی زندہ ہیں۔ ابھی ہم پہ ”دہشت گرد“ ہونے کا ”ٹھپہ“ نہیں لگا۔ ابھی ہم اپنے ہی بچوں کے اغواہ کار نہیں بنے۔

وہ پھر بھی اسی بات پہ مصر ہے، قصہ سنا دو۔ جانے کیسی ضد میں آئی ہے؟ میں ایک ماں ہوں اور مائیں بچوں کی ضد سے ہار جاتی ہیں۔ لو پھر سنو، قصہ یوں ہے کہ ایک طوطا اور طوطی اڑتے جا رہے تھے۔ ان کا گزر اک بستی سے ہوا، جو بڑی ویران تھی۔ طوطی بولی دیکھو کتنی ”ویران“ بستی ہے، یہاں ضرور ”الو“ بولتے ہوں گے۔ تم بالکل ٹھیک کہتی ہو، الو ہے ہی نہس پرندہ، جہاں بولے اس بستی کو ”ویران“ کر دیتا ہے۔ ان کی باتیں ایک الو بھی سن رہا تھا۔ اسے اس الزام پہ بہت غصہ آیا۔

الو نے بصد احترام ان دونوں کو سلام کیا، پوچھا آپ کو یہاں پہلے کبھی نہیں دیکھا، جواب آیا ہم نئے آئے ہیں۔ الو نے دونوں کو اپنے گھر چلنے اور کھانے کی دعوت دی۔ تھکن سے چور مجبور ہو کے چل دیے۔ الو بہترین میزبان نکلا، بہت خدمت کی۔ تھکن اتری تو دونوں نے اجازت چاہی، الو بولا میاں طوطے تم نے جانا ہے تو جاوء، یہ طوطی آج سے میری بیوی ہے۔ یہ سن کر طوطا بے حد پریشان ہوا۔ لگا منت کرنے، الو نے کہا ٹھیک ہے یہ تمھاری بیوی ہے لیکن پہلے ثابت کرو کہ تمھاری ہی ہے۔ دونوں قاضی کے پاس چل دیے۔ قاضی نے الو کے حق میں فیصلہ سنا دیا۔ طوطی روتی رہی اور کہتی رہی کہ وہ طوطے کی بیوی ہے۔ لیکن کسی نے اس کی ایک نہ سنی۔ یہاں نقار خانے میں طوطی کی کون سنتا ہے بھلا۔ ؟

طوطا روتا ہوا واپس جانے لگا تو الو نے پیچھے سے آواز لگائی، میاں طو طے اپنی بیوی کو تو لیتے جاؤ۔ طوطا چکرا گیا اور پوچھا اگر طوطی مجھے ہی دینی تھی تو اس ڈرامے کی کیا ضرورت تھی؟ الو نے جواب دیا تمھاری غلط فہمی دور کرنی تھی کہ جس بستی میں الو بولے وہ ویران ہو جاتی ہے۔ بستیاں الو بولنے سے نہیں، نا انصافی سے ویران ہوتی ہیں۔

وہ پگلی ہسنتے ہنستے رو پڑی ہے، اور کہتی جاتی ہے الو بہت ”سیانا“ تھا وہ بالکل ٹھیک کہتا تھا۔ یہ جو ہمارے ہاں ویرانی ہے، نا انصافی کی مہربانی ہے۔ روتے روتے پھر ہنس پڑی ہے، کبھی ہنستی ہے کبھی روتی ہے۔ میں حیران ہوں، عجب سی پگلی ہے خواب دیکھنے کی عمر میں کیسے کیسے عذاب جھیل گئی ہے۔ ہنستی ہے تو لگتا ہے بین کر رہی ہے، روتی ہے تو کلیجہ منہ کو آتا ہے۔

میں الجھن میں ہوں، اب بچوں کو قصہ کیسے سناؤں گی؟ ماں ہوں نا، جب بھی قصے کی بات آئے گی تو وہ پگلی یاد آئے گی۔ جو شوخ آنکھوں میں ہزاروں خواب لئے بچپن اور جوانی کی دہلیز پہ کھڑی تھی۔ جو کچھ دنوں تک خود ایک ”قصہ پارینہ“ ہو جائے گی۔ لیکن ماؤں کو بہت یاد آئے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).