راحیلہ درانی ۔ دختر بلوچستان


وہ بچپن میں پائلٹ بن کر فضائیں سر کرنے کے خواب سجائے بیٹھی تھی تاہم بلوچستان کے سخت گیر قبائلی معاشرے میں ایک لڑکی کا پائلٹ بننا ان روایات سے بغاوت کے مترادف تھا جو آباؤ و اجداد سے چلی آرہی تھیں انہیں مشورہ دیا گیا کہ ڈاکٹر بن جائیں یا درس و تدریس کا شعبہ اپنا کر روایات کے تسلسل کو قائم رکھیں تاہم اس نے روایات سے نکل کر کچھ نیا کرنے کی ٹھان لی ایک ایسے وقت میں جب واضح اسکوپ کا تعین نہ ہونے اور گھٹن زدہ روایتی ماحول میں مرد حضرات کی ایک بڑی ہی مختصر تعداد صحافت سے منسلک تھی اس نے جرنلسٹ بن کر روایات کو توڑنے اور حوا کی بیٹی کو درپیش مسائل اجاگر کرنے کی ٹھان لی۔

جامعہ بلوچستان کے شعبہ ماس کمیونیکیشن کی کلاس میں سنجیدہ اسٹوڈنٹس کے ساتھ ساتھ سیر سپاٹے کی غرض سے آئے غیر سنجیدہ طالب علموں کے روایتی رویوں کی پرواہ کیے بغیر تدریسی سرگرمیوں میں مگن اس سنجیدہ طالبہ سے متعلق کسی کو ہرگز یہ گمان نہیں تھا کہ بظاہر دنیا و مافیا سے بے نیاز اپنی مخصوص دنیا میں رہنے والی یہ عام سی لڑکی مستقبل کی ایک ایسی عظیم بیٹی ثابت ہوگی جس سے بلوچستان کی پہچان وابستہ ہوگی۔ جامعہ بلوچستان سے صحافت میں ماسٹر ڈگری کی تکمیل کے بعد پاکستان سے موقر روزنامہ سے وابستہ ہوتے ہی مختصر وقت میں انہوں نے معاشرے کے ان سماجی پہلووں کو اجاگر کیا جو اس سے قبل روایات کے کفن میں لپیٹ کر زندہ دفن کر دیے گئے تھے۔ اپنی جستجو میں جہد مسلسل کے ذریعے معاشرے میں انہیں نہ صرف قدر کی نگاہ سے دیکھا جانے لگا بلکہ سابق صدر مملکت جنرل پرویز مشرف کی جانب سے قانون ساز اسمبلیوں میں خواتین کے مختص کوٹے میں ان کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے سربراہ مملکت کی خصوصی خواہش پر 2002 میں اس وقت کے نامزد وزیر اعلی نے از خود بلوچستان کی فعال ورکنگ جرنلسٹ راحیلہ حمید خان درانی کی نامزدگی رکن بلوچستان اسمبلی کے طور پر کی۔

راحیلہ درانی کی صحافتی خدمات کا دھارا سیاسی فیصلہ سازی کی جانب مڑا تو وہ ایک ایسی قانون ساز قرار پائی جنہوں نے بلوچستان کی روایتی قانون سازی کا رخ بھی انسانی حقوق کے تحفظ اور عوام کے اجتماعی مسائل کی جانب موڑا اور بلوچستان قانون ساز اسمبلی کے اراکین کو مدلل طور پر یہ باور کرایا کہ بلوچستان کی خواتین بھی انسانی حقوق کے زمرے میں آتی ہیں اور اب روایات کے نام پر ان کا مزید استحصال نہیں ہوسکتا۔ اپنی صاف گوئی دو ٹوک موقف رکھنے کی پاداش میں انہیں قدم بہ قدم سخت گیر معاشرتی رویوں اور مشکلات کا جابجا سامنا کرنا پڑا۔ سیاسی و قبائلی اور انفرادی مخالفت کے باوجود یہ اپنے کاز پر ڈٹی رہیں۔ 2008 سے 2013 تک پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں نواب اسلم رئیسانی کابینہ میں منافع بخش محکموں کی بجائے پراسیکوشن کی بظاہر غیر فعال وزارتی ذمہ داریاں دے کر انہیں سائیڈ لائن کرنے کا سوچا گیا لیکن بلوچستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ پراسیکوشن ڈیپارٹمنٹ میں ایسی اصلاحات لائی گئیں جس کی بدولت یہ گمنام شعبہ آج ایک فعال محکمے کے طور پر کام کررہا ہے۔

24 دسمبر 2015 میں اس وقت کی بھرپور عوامی پذیرائی کی حامل جماعت پاکستان مسلم لیگ ( ن) نے میرٹ اور صلاحیت کی بنیاد پر راحیلہ حمید خان درانی کو بطور اسپیکر بلوچستان اسمبلی منتخب کیا اس طرح یہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں کسی بھی صوبے کی پہلی اسپیکر خاتون کا اعزاز حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔ بحیثیت اسپیکر انہوں نے ایوان کو حقیقی معنوں میں پوری غیر جانبداری سے چلایا۔ ان کی دلچسپی سے بلوچستان اسمبلی سے چائلڈ پروٹیکشن اور ڈومیسٹک وائلنس اگینسٹ وویمن جیسے تاریخی بل منظور ہوئے جبکہ انسانی حقوق اور اجتماعی بہبود سے متعلق تاریخ ساز قانون سازی ہوئی۔ بحیثیت اسپیکر اپنی ذمہ داریوں کے آخری روز تک تحفظ نسواں اور عوامی فلاح سے متعلق قانون سازی پر کام کرتی رہیں جن میں ارلی ایج میرج سمیت متعدد بلز آج بھی اراکین قانون ساز اسمبلی کی توجہ کے منتظر ہیں۔

وہ پہلی اسپیکر تھیں جنہوں نے اسمبلی سیکرٹریٹ میں اصلاحات لائیں۔ بائیو میٹرک سسٹم کی تنصیب ہوئی۔ نتیجتاً پانچ سو کے لگ بھگ عادی غیر حاضر ملازمین نے عرصہ دراز بعد اسمبلی کی راہ دیکھی۔ گزشتہ سال جولائی میں ایک ایسے وقت جبکہ مقامی سیاستدانوں کی ایک بڑی تعداد حالات حاضرہ کے تناظر میں پاکستان مسلم لیگ ( ن) کو داغ مفارقت دے کر نئی مقامی سیاسی جماعت میں چلی گئی لیکن سو فیصد کامیابی کی یقین دہانی کے باوجود یہ مانند فولاد    مضبوط خاتون اپنی جماعت کے ساتھ کھڑی رہیں۔ انتخابی دھاندلی سے قطع نظر جنرل نشست پر دس ہزار ووٹ لے کر جمہوری اقدار کی پاسداری یقینی بنائی اور جمہوریت کے استحکام اور نظریاتی سیاست کی عملی مثال بنیں۔ راحیلہ اسمبلی میں نہ ہوتے ہوئے بھی اپنے مشن سے دستبردار نہیں ہوئیں۔ ان کا عزم ہے کہ بلوچستان اسمبلی سے منظور ہونے والے بلز پر عمل درآمد کے لئے وہ ذاتی سطح پر جدوجہد جاری رکھیں گی اور جامعہ بلوچستان سمیت تمام اداروں میں خواتین سے روا رکھے جانے والے امتیازی رویوں اور ہراسمنٹ جیسی اخلاق باختہ سوچ کے خاتمے کے لئے کسی مشکل کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے حوا کی بیٹی کو معاشرے میں اس کا صحیح مقام دلا کر ہی رہیں گی۔ بلوچستان کو اپنی اس عظیم دختر پر فخر ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).