ساہیوال کے مظلوم گھرانے کا حقیقی جرم: وقت اور مقام کا غلط انتخاب


فرض کریں ساہیوال کا واقعہ امریکہ میں ہوا ہوتا۔

میڈیا پر بریکنگ نیوز کچھ یوں بنتی۔ شکاگو میں پاکستانی فیملی کو شک کی بنا پر گولیوں سے بھون دیا گیا۔ اندوہناک واقعے میں دو مرد اور دو خواتین جاں بحق۔ تین معصوم بچوں کی آنکھوں کے سامنے بربریت کی اندھی کارروائی۔ بد قسمت خاندان شادی میں شرکت کے لیے جا رہا تھا۔

اس وحشیانہ کارروائی پر ریاست مدینہ کا کیا رد عمل ہوتا؟

پوری پاکستانی انتظامی مشینری اپنی تمام تر سفارتی اور ابلاغی طاقت کے ساتھ اس معاملے پر افسردگی کا شکار ہو جاتی۔ گز گز بھر لمبی زبان رکھنے والے فواد چوہدری اور فیاض الحسن چوہان ریاست پاکستان کا اس بہیمانہ قتل پر بھرپور موقف دے چکے ہوتے۔

تحریک انصاف کے جملہ بینا و نابینا مقلدین اس واقعے پر امریکن سیکورٹی اہلکاروں اور حکومت کا دفاع کرنے کی بجائے اسلام اور کفر کی اس جنگ میں بے خطر کود پڑتے۔ دفاعی تجزیہ کار نامی مخلوق ”چونکہ، چنانچہ“ سے اس دہشت اور بربریت کے تانے بانے ماضی کے کسی واقعے سے جوڑنے کی بجائے امریکہ کے خلاف طبل جنگ بجا چکی ہوتی۔ گورنر سرور اور مراد سعید کا پیمانہ صبر لبریز ہو چکا ہوتا۔ علی محمد خان اور شہریار آفریدی کی انگارہ بار زبانیں تب تک خاموش نا ہوتیں جب تک کہ مقتولین کو انصاف نا مل جاتا۔ فیصل واڈا خود اپنی پستول کے ساتھ انصاف کرنے پہنچ جاتے۔ شیخ رشید ٹاک شوز میں اس کو تاریخ کا بد ترین ظلم قرار دیتے۔

یقین نہیں آ رہا نا؟

امریکہ کے آگے سب کے پر جلتے ہیں نا؟ تو۔ ۔

چلیں ایک بار پھر فرض کریں۔ گلوب کو کہیں اور گھمائیں۔ سوچیں کہ یہی واقعہ فرانس یا مقبوضہ کشمیر یا فلسطین میں ہوا ہوتا۔ ایک مسلمان گھرانے کو محض دہشت گردی کے شک کی بنیاد پر صفحہ ہستی سے مٹا دیا جاتا تو اس خود ساختہ ریاست مدینہ کا کیا رد عمل ہوتا۔ ریاست کا امیر المومنین اپنا قطری خیراتی دورہ موخر کر اسلامی سربراہی کانفرنس کا اجلاس بلاتا۔ سعودیہ، ترکی، امارات اور قطر کو اس ملی المیے پر اپنا ہم نوا بناتا۔

امت مسلمہ یقیناً اس انسانیت کشی پر امیر المومنین عمران خان کی ہم آواز ہو جاتی۔ سیاسی جماعتیں آل پارٹیز کانفرنس میں اکٹھے ہو کر مشترکہ لائحہ عمل تیار کرتیں۔

ملک کی مذہبی جماعتیں ملین مارچ کا اعلان کر چکی ہوتیں۔ تحریک لبیک پورا ملک جام کر چکی ہوتی۔ محمود الرشید جیسے مذہبیت کا لبادہ اوڑھے وزیر فرانس سے آنے والی اس خبر کی وڈیوز کو فیک قرار دینے کی بجائے اعلان جہاد کر چکے ہوتے۔ تجارتی تنظیموں کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کے اس ظلم پر بھارت کا تجارتی بائیکاٹ ہو جاتا۔

چلیں اگر یہ بھی فرض کرنا فرض محال ہے تو مقام تبدیل نا کریں۔ صرف وقت کو ری وائنڈ کر دیں۔ یہی واقعہ 2016 میں ہوا ہوتا اور نواز شریف کی حکومت ہوتی تو ملک کا درد رکھنے والے عمران خان اور ان کے حمایتی ہر چینل پر پھوڑی بچھائے بیٹھے ہوتے۔ اب تک عمران خان کم از کم ایک درجن بیانات میڈیا چینلز کے جھرمٹ میں لائیو ان کروا چکے ہوتے۔ وزیراعظم نواز شریف سے استعفی مانگا جا چکا ہوتا اور وزیر اعلی کو برطرف کرنے کا مطالبہ ہوتا۔ ”اوئے آئی جی“ کو اپنے ہاتھوں سے پھانسی دینے کا اعلان ہوتا۔ وڈیوز کو فیک کہنے والے وزیر کو بے شرم، بے غیرت اور ڈوب مرنے کے طعنے دیے جاتے۔ رسمی بیان جاری کرنے پر عمران خان وزیر اعظم کو دوپٹہ اوڑھے خود شرم دلا رہے ہوتے۔

لیکن افسوس۔ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ ساہیوال کے مقتولین سے وقت اور مقام، دونوں کا چناؤ کرنے میں غلطی ہو گئی۔ نا تو ان کے مرنے سے اسلام خطرے میں پڑا، نا ہی بائیس سالہ تجربہ رکھنے والی اپوزیشن کی حمایت انہیں نصیب ہو سکی۔

نا کوئی بابر اعوان قانونی مو شگافیوں اور ادبی چٹکلے لیے حکومت وقت کے خلاف چہکا۔ نا کسی شاہد مسعود کو اس میں آثار قیامت دکھائی دیے۔ نا کوئی کنٹینر سجا۔ نا دھرنا بازی ہوئی۔ قسمت میں دو سوراخ والی قمیص پہنے سربراہ حکومت کے دو ٹویٹ تھے۔ بس یہی اس خونِ نا حق کی قیمت تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).