لاہور کے ماتھے کا جھومر: لاہور کینال


آگے چل کر لاہور کینال کے کنارے جب پنجاب یونیورسٹی کو شفٹ کیا گیا تب اس کے آس پاس آبادیاں بھی بڑھنے لگیں اس وقت بی آر بی نہر کے کنارے سے لے کر زمان پارک، مسلم ٹاؤن، جوہر ٹاؤن، ٹیک سوسائٹی، نیسپاک سوسائٹی اور بحریہ ٹاؤن سمیت سینکڑوں رہائشی اسکیمیں اسی کینال کے کنارے آباد ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ لاہور شہر سے موٹروے کے طرف نکلنے کے لئے بھی جو اہم راستہ ہے وہ نہر کنارے ہی ہے۔ مطلب لاہور میں کہیں سے کہاں جانا ہو آپ کو نہر کنارے جانا پڑے گا یا پھر نہر کو کراس کرنا پڑے گا۔

اسی لئے لاہوری اکثر کہتے ہیں ”اگر لاہور میں نہر نہ ہوتی تو لوگوں کو راستہ سمجھانا کتنا دشوار ہوجاتا۔ “

اندازاً 20 سال پہلے نہر کے صرف اک کنارے اک ٹوٹی پھوٹی سڑک ہوا کرتی تھی جسے بعد میں آنے والی حکومتوں نے بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کی۔ اس وقت نہر کے دونوں طرف شاندار ہائی وے جیسی شاہراہ بنی ہوئی ہے، پوری نہر پر بیسیوں کلومیٹر تک یہ شاہراہ سگنل فری ہے، ہر آنے والے راستے کو انڈر پاسز سے منسلک کیا گیا ہے۔ انتہائی خوبصورت گرین بیلٹ بنائے جا چکے ہیں۔ لاہور کینال پر موجود ہر پل کو خوبصورت تر بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔

خاص طور پر بیجنگ انڈر پاس کا کیا کہنا اور مال روڈ پر بنے انڈر پاس اور پل جیسا خوبصورت انڈرپاس اور پل پورے پاکستان میں نہیں ہو گا۔ اک طرف فواروں کی قطاریں، دوسری طرف بجلی کے قمقموں سے روشن قائد اعظم محمد علی جناح کا تین منزلہ پورٹریٹ، ساتھ میں شاندار چائنہ ہٹ، آس پاس میں پھولوں کی قطاریں، دونوں طرف فٹ پاتھ پر دھیمی دھیمی جلتی بتیاں پھر ان کا نہر کے بہتے پانی پر خوبصورت عکس، قدیم دور کے فانوسوں کی قطاریں، ساتھ میں مور کا شاندار مجسمہ جس کو رنگ دینے لئے مختلف رنگون کے اصلی پھول اور پودے استعمال کیے گئے ہیں۔

نہر کنارے سیاحوں کے بیٹھنے کا معقول بندوبست اور ساتھ کنارے پر بلند قامت مینار اور سبز گنبذ والی مسجد، واہ واہ، لاہور کینال پر مال روڈ والی پل لاہور کی خوبصورتی کی شاندار جھلک ہے، جب بسنت کے دنوں میں اسی نہر کو مال روڈ سے جیل روڈ تک سجایا جاتا ہے، کشتیوں میں پاکستان کے مختلف شہروں کی مشہور ترین عمارات کے ماڈل سجائے جاتے ہیں، ساتھ ہی برقی قمقموں سے تتلیان، ستارے، چاند اور پھول بنا کر نہر کو دلہن کی طرح سجایا جاتا ہے تو دیکھنے والے دنگ رہ جاتے ہیں۔ روزانہ ہزاروں نہیں، لاکھوں لوگ یہ نظارہ دیکھنے نکلتے ہیں۔

فیروز پور روڈ پل پر بنے کنویں پر چلتے ڈول جیسے جیسے گول گھوم کر پانی بھر بھر کر نکالتے ہیں اس کا رنگ ہی الگ ہوجاتا ہے۔ اسی طرح پنجاب یونیورسٹی پل پر سندھی ٹوپی، پنجابی پگڑی، پٹھان ٹوپی اور بلوچی پگ کے ماڈل بھی کیا خوبصورت بنائے گئے ہیں۔ مطلب ہر پل پر اک نئی خوبصورتی قابل دید ہوتی ہے۔

اس سے بھی کمال کی چیز یہ ہے کہ پر انڈر پاس کے نام بھی پورے پاکستان سے چن چن کر رکھے گئے ہیں جیسا کہ میر چاکر خان رند انڈر پاس، شاہ عبداللطیف بھٹائی انڈر پاس، وارث میر انڈر پاس، جسٹس کارنیلیئس انڈر پاس، وارث شاہ انڈر پاس، خوشحال خان خٹک انڈر پاس اور دیگر۔ یہ ایک نہر ہماری قومی محبت کی علمبردار ہے۔

لاہور کینال تاریخی پس منظر منظر کے ساتھ جدید نظارہ بھی پیش کرتی ہے، جلو پارک کے ساتھ ساتھ نہر کنارے سیاحوں کے لئے اک مکمل ریزارٹ بنایا گیا ہے جہاں ایک وقت میں سینکڑوں لوگ آکر چھٹیاں منا سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ کرسیاں، نہانے کے لئے جگہیں، فیملیز کے لئے بالکل نہر کنارے سنگ مرمر کے بنچ، شاندار واش رومز، کھانا پکانے کے لئے سیمنٹ کے چولہے، تکا بوٹی بنانے کے لئے سگریاں، روشنی کے لئے لائٹس کا زبرست انتظام کیا گیا ہے۔ ایسے ہی گرمیوں مختلف مقامات پر لوگوں کے نہانے کے لئے مکمل بندوبست کیا گیا ہے۔ اور یہ سارا کام پنجاب سرکار کے ”پاکستان ہارٹیکلچر ڈپارٹمنٹ (پی ایچ اے )“ کی طرف سے کیا گیا ہے۔

پاکستان کی کئی فلموں کی شوٹنگ بھی اسی نہر کنارے ہوتی رہی ہے خاص طور پر اداکارہ اور گلوکارہ میڈم نورجہاں کا مشہور ترین نغمہ ”سانوں نہر والی پل تے بلا کے، ساڈا ماہی کتھے رہ گیا“ اسی نہر کی پل پر رکارڈ کیا گیا تھا۔ لاہور کینال لاہوریوں کی محبتوں کی امین نہر ہے اس وقت بھی پیار کرنے والے اکثر اسی نہر کنارے آکر آپس میں ملتے ہیں۔

لاہور میں لاہور کینال سے متاثر ہوکر فیصل آباد میں بھی پورا شہر فیصل آباد کینال کی طرف بڑھنا شروع ہوا۔ اس وقت فیصل آباد کی تمام مہنگی ہاؤسنگ اسکیمیں وہاں کی نہر کنارے موجود ہیں۔

سندھ میں بھی کئی شہر نہروں کے کنارے آباد ہیں، گڈو، کشمور، سکھر، روہڑی اور حیدرآباد سندھو کنارے، خیرپور، لاڑکانہ، دادو سمیت کئی شہروں کے بیچوں بیچ بہت خوبصورت نہریں گزرتی ہیں مگر افسوس ان میں کوئی بھی ”لاہور کینال“ جیسی خوبصورت نہیں ہے۔

لاہور کینال کی خوبصورتی کا کیا کہنا۔ لاہور کے ماتھے کا جھومر ہے ”لاہور کینال“

اک بات کا افسوس ہے کہ اب شہر کے اکثر محلوں کی سیوریج کا گندا پانی اس نہر میں چھوڑا جا رہا ہے جس سے اس کی خوبصورتی ماند پڑ سکتی ہے۔ اس لئے پنجاب سرکار کو چاہیے کہ اس نہر کی مستقل خوبصورتی اور بقا کے لئے اس کو ایسا ہی رکھا جائے۔ اس خوبصورت اور پیاری نہر کو گندا نالا بننے نہ دیا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2