تنازعات کے متبادل حل (اے۔ ڈی۔ آر)


پہلی قسط میں ہم نے سات عنوان گنوائے تھے جن کی تفصیل اگلی قسطوں میں بتانے کا وعدہ کیا تھا۔ کچھ احباب نے شکوہ تو نہیں لیکن اس بات کی نشان دہی ضرور کروائی کہ اگرچہ میری تحریروں میں جہاں اردوکے متبادل الفاظ مل سکیں وہاں میں انگریزی کے الفاظ استعمال نہیں کرتا۔ لیکن اس مضمون کے آخری حصے میں تواتر سے انگریزی کے سات الفاظ استعمال ہوئے جن کا بدل آسانی سے اردو میں مل سکتا تھا۔

بر سبیل وضاحت (اگرچہ اس کی ضرورت نہیں ) عرض ہے کہ آپ نے نوٹ کیا ہو گا کہ یہ ساتوں عنوان حرف ”ک“ سے شروع ہو تے ہیں۔ چونکہ یہ اقساط میری انگریزی کی کتاب ”سیون سیز آف کنفلکٹ ریزولوشن“ کا ترجمہ ہے جس کے ٹائٹل میں انگریزی کا حرف تہجی ”سی“ شامل ہے اس لئے میں نے ان سات عنوانات کا اردو میں ترجمہ کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ البتہ مختصرتوضیح ضرور کردی ہے کہ ا س موضوع کی نوعیت ایسی ہے کہ اس میں یہ گنجائش ہی نہیں کہ قارئین کو کسی تذبذب میں رکھا جائے۔ اگر مصنف کا عندیہ صاف شفاف نہ ہو تو حساس معاملات کی گفتگو اثر سے محروم ہو جاتی ہے اور پڑھنے والے جس مشورے کی توقع رکھتے ہیں اس کی افادیت میں خاصی کمی ہو سکتی ہے۔

چونکہ یہ سیون سیز ان تراکیب اوراصولوں پر مشتمل ہیں جن کا ذکرہم کتاب کے دوسرے حصے میں کریں گے اورتنازعات کی نوعیت، قیمت۔ تاریخ، اقسام اور ان کے حل کی مختلف آپشنز پر روشنی ڈالیں گے۔ اس لئے ابتدائی اقساط میں ان کا ذکر صرف تعارفانہ ہے۔ ان میں خاص طور پر تنازعات کے حل کے جارحانہ اور حریفانہ طریق کار تفصیل سے گفتگو کے مستحق ہیں۔ مقصد اس کا یہ ہو گا کہ آپ سیون سیز کی پریکٹسز کے سمندر میں کودنے سے پہلے مسئلے اور تنازعے کی نوعیت کو اچھی طرح سمجھ بوجھ لیں اور

ع۔ اس کے بعد آئے جو عذاب آئے

تو آج کی قسط میں میں مختصرا بتاوں گا کہ آخر کنفلکٹ ریزولوشن یا جھگڑوں کے حل کے بارے میں مجھے کتاب لکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔

پاکستان میں کچھ عرصہ انٹرنیشنل کارپوریٹ لا کی پریکٹس کے بعدمجھے کینیڈا میں پبلک سیکٹر میں انسانی حقوق کے تحفظ اور سرکاری دفاتر میں وبا کی طر ح پھیلی ہوئی جنسی ہراسانی کے انسداد کے پروگرام کی نظامت کا موقع ملا۔ اس طرح مجھے چوتھائی صدی تک ایسے لوگوں کی خدمت کرنے کی سعادت نصیب ہوئی جن کے حقوق جنسی، مذہبی، جسمانی معزوری اور نسلی بنیادوں پر اہل اقتدار کے ہاتھوں پامال ہوتے۔

میرے پاس وہ شکایات آتی تھیں جن میں سرکاری ملازمین ِا اور خاص طور پر خواتین اور اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے ملازمین ہراسانی یا منفی سلوک کے شکار ہونے کے باعث انصاف کے متلاشی ہوتے تھے۔

میں انتہائی ندامت سے یہ تسلیم کرتا ہوں کہ شروع شروع میں مجھے کئی شکایتیں بہت اوچھی، سطحی اور بے بنیاد لگتی تھیں۔ چونکہ میں غربت کے ماحول سے گیا تھا شاید اس لئے انتہائی بے حسی سے سمجھتا کہ یہ پیٹ بھرے کی باتیں ہیں اور یہ لوگ بجائے شکر گزار ہو نے کے کہ ان کے پاس اتنی اچھی ملازمتیں ہیں، نخرے کر رہے ہیں۔ لیکن بعد میں مجھے اندازہ ہوا کہ جس پر گزرتی ہے حقیقی معنوں میں صرف وہی درد کی شدت سے آگاہ ہوتا ہے۔

کام کی دنیا میں، دفتروں میں، فیکٹریوں میں، تعلیمی اداروں میں، غرض کہ ہر ایسے ماحول میں جہاں آپ کا ایک دوسرے کے ساتھ میل جول ہوتا ہے، باہمی رنجش کے کچھ نہ کچھ پہلو نکل ہی آتے ہیں۔ بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ ان رشتوں کی منفیت ایسی شدت اختیار کر جاتی ہے کہ جان کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ اکثر رفیق کار جو کل تک ایک دوسرے کے ساتھ کام کرنے میں ایک خوشی اور مسرت محسوس کرتے تھے ایک دوسرے کی شکل دیکھنے کے روا دار نہیں رہتے۔

ایسا بھی ہوا کہ ذہنی دباؤ اور کھنچاؤ تناؤ اس قدر بڑھ گیا کہ لوگوں کو ہسپتال میں داخل ہونا پڑا۔ ایک مرتبہ تو ایک کولیگ نے مجھے ہسپتال سے فون کیا کہ دفتر کا ماحول اس کے لئے ناقابل برداشت ہو گیا ہے کیونکہ اس کی اپنے منیجر سے نہیں بنتی تھی۔ اس کے کہنے کے مطابق منیجر کی زندگی کا صرف ایک ہی مقصد تھا وہ یہ کہ اپنی اس ماتحت کی زندگی کو جہنم سے بھی بد تر بنا دے۔ اور اس میں وہ کامیاب بھی ہوئی۔ تو ہسپتال سے یہ سرکاری ملازمہ جو خود بہت اچھے عہدے پر فائز تھی کہنے لگی کہ اب وہ دعا مانگ رہی ہے کہ وہ ہسپتال ہی میں مر جائے۔ اس کی زندہ رہنے کی خواہش ختم ہو چکی تھی اور وہ اپنے دفتر واپس نہ جانا چاہتی تھی کیونکہ اسے خوف تھا کہ اب وہ اس کشیدگی کے ماحول کی تاب نہ لا سکے گی۔

مجھے اس کی یہ فریاد سن کر افسوس تو ہوا لیکن حیرت نہیں ہوئی کیونکہ اکثر لوگوں کو اس بات کا اندازہ نہیں ہوتا کہ کشیدگی کا صرف ایک رشتہ کس قدر عذاب کا باعث ہو سکتا ہے۔ صرف ایک باس یا ماتحت سے چپقلش زندگی کا سکون چھین سکتی ہے۔ جس کے شاید آپ بھی گواہ ہوں۔ ہم میں سے اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ دفتر کے معاملات دفتر میں نمٹا کر جب ہم گھر لوٹتے ہیں تو بالکل دوسری دنیا میں داخل ہو جاتے ہیں۔ جیسے ایک سوئچ آن یا آف کر دیا ہو۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ تنازعات یا باہمی رشتوں کے حوالے سے سوئچ ایسے آن یا آف نہیں ہوتے جیسے ایک کمرے کی بتی بند کر کے دوسرے کی روشن کردیں۔ زندگی کی اکائی میں اندھیرا اور اجالا پوری زندگی کے ساتھ ہوتا ہے۔ نہ توگھرآتے ہوئے آپ دفتر کو دہلیز پر رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی اگلے دن دفتر جاتے ہوئے گھر کو دہلیز پر چھوڑ سکتے ہیں۔ کام اور گھرکے ماحول ہوا بند کمپارٹمنٹ نہیں ہوتے جو ایک دوسرے پر اثر انداز نہ ہوسکیں۔

جیسا کہ میں نے پہلی قسط میں کہا تھا کہ میں اپنے مشاہدے کے تنازعات کو ایسے بیان کرنے کی کوشش کروں گا کہ آپ انہیں اپنی صورت حال پر چسپاں کر سکیں۔ تو ا ب آپ خودسوچئے کہ کتنی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ آپ دفتر سے کشیدگی سے بھرپور دن گزار کر لوٹے۔ باس پر آپ کی چلتی نہیں تھی۔ لیکن آپ کے اہل خانہ نے محسوس کیا کہ آپ دفتر کی اس کشیدگی اور غصے کا نزلہ ان پر اتار رہے ہیں۔ ایک آدھ دفعہ، یا چند مرتبہ تو اہل خانہ پر غصے کا یہ اظہار برداشت ہو جاتا ہے، لیکن پھر وہ نوبت بھی آتی ہے کہ گھر جیسے نازک اور قریبی رشتے اس کھچاؤ اور تناؤ کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ اس لئے

 زاں پیشتر کہ بانگ بر آید فلاں نہ ماند

اور نازک رشتوں کی چڑیاں کھیت چگ جائیں، آپ کا فرض بنتا ہے کہ کام کی دنیا اور گھر کے ماحول کے باہمی تعلق کو سمجھیں اور کم از کم وہ اقدامات ضرور اٹھا لیں جو آپ کے بس میں ہیں۔

اکثر ہمیں جن تنازعات کا سامنا ہوتا ہے ہم انہیں ایسی خیالی عینک لگا کر دیکھتے ہیں جس میں معمولی سی چیز بھی بھیانک عفریت بن کر نظر آتی ہے۔ ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے جیسے اس سے بڑے مسئلے کا سامنا کسی اور کو نہیں صرف ہم ہی کو ہے۔ ہمیں دنیا تاریک ہوتی نظر آتی ہے۔ سوچ سوچ کر صورت حال مزید بھیانک بنتی جاتی ہے۔ جب تک ہم مسئلے کو صرف ذہن تک محدود رکھیں ہمیں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ اس کشمکش سے ہمیں نجات صرف اس وقت ملتی ہے جب ہم پہلا عملی قدم اٹھاتے ہیں۔

اب آپ اپنے تنازعے کے حوالے سے خود سے یہ سوال کریں کہ آپ نے کتنا وقت، کتنے گھنٹے، کتنے دن اس بارے میں سوچنے میں صرف کیے اور کتنے دن، گھنٹے اور منٹ عملی قدم اٹھانے میں لگائے۔ لیکن یاد رکھیں اس میں سوچنے اور صرف باتیں کرنے کے وقت کو شامل مت کیجئے گا۔ اور یہ ضرور یاد رکھیں کہ آپ کا یہ تنازعہ زندگی کا ایک واقعہ یا سچوئشن ہے۔ آپ کی پوری زندگی نہیں۔ اس سیاق و سباق کو تنازعے سے نمٹتے ہوئے کبھی نہ بھولیں۔

یہ انسانی فطرت ہے کہ جیسے ہی وہ سوچ کی فلک بوس چوٹیوں سے اتر کر عمل کی وادی میں قدم رکھتا ہے تو خیالی خطرات کے بادل، اگر پوری طرح نہ بھی سہی، کافی حد تک چھٹ جاتے ہیں۔ خوف کا سب سے بڑا سد باب عمل ہے۔ خالی فکر سے کبھی کوئی تنازعہ یا مسئلہ حل نہیں ہوتا۔

تو آج اس سلسلے کی پہلی قسط کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ اپنے تنازعے کے بارے میں یہ فیصلہ کریں کہ عملی طور پر آپ کتنا وقت اس کے حل کے لئے وقف کر سکتے ہیں جس میں آپ کی توجہ صرف اس تنازعے کے حل کے لئے مرکوز ہو گی۔ اپنے پہلی قسط والے نوٹ کے ساتھ اس وقت کا ایسے ہی ریکارڈ لکھ کر رکھیں جیسے وکیل اور کنسلٹنٹ اپنے بل کی ادائگی کا حساب رکھتے ہیں۔ اگلی قسطوں میں آپ یہ دیکھیں گے کہ یہ ریکارڈ آپ کے تنازعے کے حل کے لئے کتنا کام آتا ہے۔

لیکن اب ذرا واپس لوٹئے اس بات کی طرف کہ آخر جن تنازعات کے حل کی ذمہ داری مجھے سونپی گئی تھی ان سے میں نے کیا سیکھا جو میں آپ سے شئیر کرنا چاہتا ہوں۔ میں شروع شروع میں بالکل بیوروکریٹک مشینی طریقے سے ان شکایات کو یا تو تحقیق کے لئے بھیج دیتا، یا انسانی حقوق کے کمیشن کو۔ کچھ شکایات اعلی افسران ایگزیکٹیو آرڈرز کے ذریعے حل کرتے اور کئی یونین منیجمنٹ کے ٹرائبیونل میں حل ہوتیں۔ جب کوئی اور حل نہ ملتا تو مقدمہ بازی پر نوبت آتی۔

لیکن جب بھی میں نے ان تمام طرائق کار کے حتمی نتیجے پر نظر ڈالی تو معلوم ہوا کہ کہنے کو تو تنازعات کا کوئی نہ کوئی حل نکل آیا لیکن علاج مرض سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوا۔ یعنی آپریشن تو کامیاب رہا لیکن مریض چل بسا۔ ایک فریق کی جیت دوسرے کی ہار ہوتی۔ جیتنے والا بظاہر جیتتا تھا لیکن ہارنے والے کے ساتھ کام کا رشتہ ختم ہوجاتا۔ یہ انسانی رشتے کام کی دنیا میں نہائت اہم ہوتے ہیں۔ اگر یہ رشتے مثبت ہیں تو آپ صبح اٹھ کر دفتر جانے کو ایک مسرت سمجھتے ہیں، ورنہ عذاب۔ دفاتر میں دو کیمپ بن جاتے، ماحول میں کشیدگی آ جاتی اور دونوں گروہ ایک دوسرے کوحریفانہ نظروں سے دیکھنے لگتے۔

اسی اور نوے کی دہائیوں میں دفاتر اور عدالتوں میں اے۔ ڈی۔ آر۔ مقبول ہونا شروع ہو گیا تھا۔ لیکن اس متبادل حل میں بھی ثالثی کے علاوہ باقی راستے حریفانہ تھے جن میں معاونت کی بجائے مقابلے ہوتے اور فتح شکست کے فیصلے سادر کیے جاتے۔

ان حالات میں سیون سیز کا آغاز ہوا جس کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ تنازعات کے متبادل حل کا ایسا طریقہ دریافت ہونا چاہیے جس میں مد مقابل پارٹیاں معاون بن کر تنازعے کو حل کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کر سکیں اور اصل اے۔ ڈی۔ آر۔ کو پریکٹس کے طور پراپنا سکیں۔

آئندہ قسطوں میں ایسے ہی طریق کار کے بارے میں گفتگو ہو گی۔ جس کا اطلاق آپ اپنے تنازعے پر اس طرح کر سکیں گے کہ منفی اثرات کا خطرہ کم سے کم اور مثبت نتایئج کا امکان زیادہ سے زیادہ ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).