رماکانت اچریکر: جس نے سچن کو ٹنڈولکر بنایا


(یادگار تصاویر کی گیلری تحریر کے آخر میں ملاحظہ کریں)

سچن ٹنڈولکر کے عظیم کرکٹر بننے کی بنیاد اس دن پڑی جب وہ رماکانت اچریکر کے شاگرد ہوئے۔ اس وقت ٹنڈولکر کی عمر گیارہ برس تھی۔ ان کے بھائی اجیت ٹنڈولکر انھیں بمبئی کے اس گرو کے پاس لے کر گئے تاکہ وہ ٹینس کے بجائے کرکٹ بال سے کھیلنے کا آغاز کرسکیں۔ انھوں نے نیٹ میں پہلی دفعہ بیٹنگ کی تو اچریکر متاثر نہ ہوئے۔ اجیت سے کہا، ابھی یہ بہت چھوٹا ہے، تھوڑا بڑا ہوجائے پھر اسے لانا۔ اجیت کو مگر بھائی کی صلاحیتوں پر بھروسا تھا، اس نے اچریکر سے کہا کہ سچن آپ کے سامنے نروس ہونے کی وجہ سے ٹھیک طریقے سے نہیں کھیل پایا، آپ کی موجودگی کا احساس نہ ہو تو وہ اچھا کھیلے گا، اس لیے آپ اسے درخت کی اوٹ سے بیٹنگ کرتے دیکھیں، تب اپنی رائے قائم کریں۔ یہ بات مان لی گئی۔ اس فارمولے پر عمل ہوا تو ٹنڈولکر نے نیٹ میں بہتر کھیل کا مظاہرہ کیا اور شیوا جی پارک میں جاری سمر کیمپ کا حصہ بن گئے۔ اس موقع کی قدر جان کر ٹنڈولکر نے دن رات ایک کر دیا۔ دو ماہ بعد کوچ نے ان کے بھائی کو یہ نویدِ جانفزا سنائی کہ سچن میں اچھا کرکٹر بننے کی صلاحیت موجود ہے۔

بمبئی کے علاقے باندرہ کے جس سکول میں سچن زیر تعلیم تھے، اس کا کرکٹ میں کوئی نام نہ تھا، اس لیے اچریکر کا خیال تھا کہ وہ اگر کھیل میں بڑھنا چڑھنا چاہتے ہیں تو انھیں شاردا شرم ودیا مندر ہائی سکول میں داخلہ لینا چاہیے، جس کا بمبئی کی سکول کرکٹ میں اہم مقام تھا۔ اچریکر اس سکول میں کرکٹ کوچ تھے۔ اس معاملے پر انھوں نے سچن کے والد سے بات کی، انھیں سکول کی تبدیلی پر اعتراض نہ تھا۔ ٹنڈولکر سے اس بابت پوچھا گیا تو انھوں نے بھی ہاں کر دی۔

اچریکر سکول کی ٹیم کے علاوہ دو کرکٹ کلب بھی چلاتے تھے۔ بمبئی کے کرکٹ حلقوں میں ان کا بہت احترام تھا۔ شاگرد انھیں اچریکر سر کہتے۔ سکول اور ایک کلب کا نیٹ شیوا جی پارک جبکہ دوسرے کلب کا نیٹ آزاد میدان میں لگتا۔ بمبئی میں سکول کی سطح پر دو کرکٹ ٹورنامنٹ ہوتے تھے۔ جائلز شیلڈ اور ہیرس شیلڈ۔ ان میچوں کی مسابقانہ فضا سے ٹنڈولکر کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا اور بتدریج ان کے کھیل میں نکھار آتا گیا۔ پہلے سکول میچ میں ٹنڈولکر نے 24 رنز بنائے۔

 بمبئی کے اخبارات میں میچ کی خبر میں ان بیٹسمینوں کا نام آتا جنھوں نے تیس یا اس سے زائد رنز بنائے ہوتے۔ سکورر نے فاضل رنز میں سے چھ رنز نکال کر 24 کو 30 کے ہندسے میں بدل دیا، اس خیال کے تحت کہ اس سے مجموعی سکور کی صحت پر تو کوئی اثر پڑتا نہیں۔ یہ سب ٹنڈولکر کی رضا سے ہوا۔ اگلے دن ان کا نام اخبار میں چھپ گیا لیکن اچریکر خاصے برہم ہوئے اور دو نمبری پر شاگرد کو ڈانٹ پلائی اور اسے کھیل میں دیانت داری کی اہمیت جتائی۔

اچریکر کا نقطہ نظر تھا کہ نیٹ پریکٹس کی اہمیت اپنی جگہ لیکن یہ کبھی میچ کا نعم البدل نہیں بن سکتی۔ اس لیے ان کا زیادہ زور لڑکوں کومیچ کھیلانے پر ہوتا۔ ٹنڈولکر نے سکول میں پہلے سال ساٹھ دن کی چھٹیوں میں پچپن پریکٹس میچ کھیلے۔ بارہ برس کی عمر میں ہیرس شیلڈ ٹورنامنٹ میں سکول کرکٹ میں پہلی سنچری بنائی۔ سکول کرکٹ سے ہٹ کر ٹنڈولکر کلب کرکٹ اور بمبئی کی جونئیر ٹیموں کی طرف سے بھی اپنے جوہر دکھاتے رہے۔ بمبئی کی تاریخ میں شاید ہی کسی سکول بوائے نے ٹنڈولکر جتنے رنز بنائے ہوں۔

 سکول کی طرف سے ایک میچ میں سچن نے پچاس رنز بنائے۔ اس میچ میں اچریکر کے ایک دوست امپائر تھے، جنھوں نے انھیں بتایا کہ یہ لڑکا ایک دن ہندوستان کی طرف سے ضرور کھیلے گا۔ اس پر اچریکر بولے کہ ابھی لڑکے کا کرکٹ میں پہلا سال ہے ابھی اس نے لمبا سفر طے کرنا ہے لہٰذا اس مرحلے پر ایسا دعویٰ کرنا صحیح نہیں، لیکن ان کے دوست اپنی بات پر جمے رہے اور ان سے کہا کہ ’میرے الفاظ لکھ لو یہ لڑکا انڈیا کی طرف سے ضرور کھیلے گا۔ ‘

ٹنڈولکر اگر کسی میچ میں جلد آؤٹ ہو جاتے تو اچریکر انھیں سکوٹر پر بٹھا کر کسی دوسرے میدان میں لے جاتے اور وہاں منعقدہ میچ میں انھیں باری دلاتے۔ دن کے آخری پریکٹس سیشن میں جو شام پانچ سے سات بجے تک جاری رہتا، اس کے آخری پندرہ منٹ میں تھکن سے چور ٹنڈولکر کو ایک کڑی اور دلچسپ آزمائش سے گزرنا پڑتا۔ اچریکر وکٹوں کے اوپر ایک روپے کا سکہ رکھ دیتے اور بولروں سے کہتے کہ بیٹسمین پر پل پڑیں، ٹنڈولکر اگراس یدھ میں آؤٹ نہ ہوتے تو روپے کا سکہ ان کا ہوجاتا۔ اس آزمائش میں ٹنڈولکر اکثر سرخرو ہوتے۔ اس کے بعد ٹنڈولکر پیڈز اور گلوز پہن کر شیوا جی پارک کے دو چکر کاٹتے۔ شاگرد کو استاد کی طرف سے اکثر بمبئی کی مشہور فاسٹ فوڈ ’وڑا پاؤ‘ خریدنے کے لیے پیسے بھی ملتے۔

سچن کو کرکٹ کا جنون تھا لیکن کبھی کبھار نیٹ سے چھٹی کر کے دوستوں میں وقت گزارنے کو ان کا جی کرتا، لیکن ایسے موقعوں پر اچریکران کی کالونی پہنچ جاتے اور کسی قسم کا عذر سنے بغیر انھیں گھسیٹ کر اپارٹمنٹ تک لاتے تاکہ وہ لباس تبدیل کرکے میدان کا رخ کرے۔ ٹنڈولکراس وقت تو اس رویے پرجذبز ہوتے لیکن مستقبل میں یہ سختی ان کے بہت کام آئی اور اس کا اعتراف انھوں نے اپنی خود نوشت میں کیا ہے۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے، ہیرس شیلڈ کا فائنل میچ تھا۔ ٹنڈولکر اس میچ میں سکول کی ٹیم کا حصہ نہیں تھے کیونکہ اس وقت وہ جائلز شیلڈ کھیل رہے تھے۔ اس لیے وہ میچ دیکھنے جانا چاہتے تھے۔ ادھر کوچ نے اسی دن ان کے لیے پریکٹس میچ رکھ دیا، ٹنڈولکر نے حکم عدولی کی اور میچ کھیلنے کے بجائے میچ دیکھنے پہنچ گئے، اس پر اچریکر بہت خفا ہوئے اور کہا کہ ان کا کام دوسروں کو کھیلتے دیکھنا نہیں، بلکہ محنت کر کے اس قابل بننا ہے کہ لوگ سچن ٹنڈولکر کا کھیل دیکھنے آئیں۔

ٹیسٹ کرکٹر ونود کامبلی سکول کے زمانے سے سچن کے دوست ہیں۔ دونوں نے ہیرس شیلڈ میں سکول ٹیم کی طرف سے تیسری وکٹ کی شراکت میں 664 رنز جوڑے جس میں سچن کا حصہ 326 اور کامبلی کا 349 رنز تھا۔ دونوں ناٹ آؤٹ رہے۔ یہ کسی بھی سطح کی کرکٹ میں، کسی بھی وکٹ کے لیے سب سے بڑی شراکت کا عالمی ریکارڈ تھا۔ یہ کارنامہ ٹنڈولکر اور کامبلی کو عالمی شہرت دلانے کا باعث بنا اور ان کا تذکرہ گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ اور کرکٹ کی بائبل ”وزڈن“ میں آگیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2