ایک موقع نے میری زندگی بدل دی، محض خیال تھا بس؟


میں زمانہ طالب علمی میں جب ایڈیٹنگ کا کام سیکھ رہا تھا۔ اس وقت میری عمر 18 سال تھی اور میں کالج کا طالب علم تھا صاحب اس وقت فوت ہوئے جب اس وقت میں 2 سال کا تھا کے والد صاحب فوت ہوچکے تھے۔ والد صاحب کی محبت کبھی دیکھی نہیں کے والد کی محبت ہوتی کیا ہیں؟ ۔ میرے لیے تو بس محز ایک خیال ہی رہ گیا ہے اور یہی وجہ تھی کہ میں زمانہ طالب علمی میں جہاں میرے دوست پڑھنے لکھنے کی باتیں کرتے تھے میں وہی روزی روٹی کمانے کے خیالات میں کھویا رہتا تھا اور یہی خیالات مجھے یہاں لے کر آگئے اور میں کام کرنے ایک ڈرامہ پروڈکشن پہنچا۔ جہاں مجھے ڈرامہ ایڈیٹنگ سیکھنے کے لئے بلایا گیا۔

دراصل وہاں آفس کاماحول کچھ یوں تھا کہ جو بھی شخص آتا کام سیکھنے اُس سے پہلے تمام آفس صاف کروادیا جاتا تھا۔ بد قسمتی سے دنیا کے کسی بھی جگہ یہ مشق نہیں ہوتی کہ سیکھنے والے سے آفس بوائے کا کام لیا جائے۔ اور ہمارے ہاں تو ٹرینڈ بن چکا ہے کہ کوئی بھی نیا شخص آئے تو اُس سے خوب کام کروائیں تاکہ وہ ہمت ہار جائے۔ میں غریب تھا اور غربت بہت کچھ سکھا دیتی ہے جو میں نے سیکھ لیا اپنے دورمیں وہ ایک سبق ہے۔ اب روزانہ کالج سے چھٹی ہونے پر جیسے آفس پہنچتا تو حکم جاری ہوتا کے کھانے کے لئے کچھ لاؤ۔ اور میں پسینوں میں شرابور دوبارہ سائیکل لے کرکوئٹہ سبزی گلی جاتا۔ ان دنوں میرے ساتھ ایک پرانی سائیکل ہوتی تھی۔ سبزی گلی سے سودا لے کر واپس آفس پہنچا تو دوبارہ حکم ہوا کہ لو جناب اب کھانا بنا لو۔

زندگی میں صرف انڈا بنانے والا بھلا کیا پورے آفس کے لئے کھانا بناتا۔ پیاز۔ ٹماٹر آلو اور سب کچھ تیار کر کے رکھ دیتا تھا اور اس کے بعد مجھ سے سینئر استاد کو کہتا تھا جو مجھ سے پہلے یہی کام کر رہاتھا جو اب میرے ذمہ آیا پھر وہ طریقہ بتاتا اور کھانا تیار ہو جاتا تھا۔ پہلے دن یہ تمام تر چیزیں دیکھ کر حیران ہوا کہ میں آفس بوائے بن کر آیا ہوں۔ پھر سوچھا کہ ہو سکتا ہیں پھرخیال آیا کہ شایدآج آفس بوائے چھٹی پر ہوگا۔

یہ خیال دو سال تک خیال ہی رہا اور میں آفس بوائے بن گیا۔ اب غریب بھی دو قسم کے ہوتے ہیں یا تو وہ پورے مست ہوتے ہیں یا تو پھروہ انتہائی شریف ہوتے ہیں جو اپنے متعلق بھی نہیں جانتے میں ان شریفوں میں پایا جاتا تھا۔ نہ تو کبھی تنخواہ کی بات کی اور نہ کبھی تنخواہ لی نہ کبھی یہ پوچھاکہ میں آیا کس کام سے تھا اور کر کیا رہا ہوں؟ نکلا تھا غربت مٹانے یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات شاید اب تک مجھے نہیں ملے۔

اب دوبارہ اپنے کام ڈرامہ ایڈیٹنگ کی طرف آتا ہوں وہاں اُردو پشتو ڈرامے اور ڈاکومنٹریاں ایڈٰٹ کی جاتی تھی۔ اور ڈراموں کو رنگ بخشنے والے ایک ہی ایڈیٹر صاحب تھے جن کی پاکستان ٹیلی وژن میں ملازمت تھی اور وہ وہاں سے فارغ ہو کر ہمارے آفس ڈرامہ پروڈکشن کرنے آتے تھے۔ جب وہ آتے تو مجھے خوشی محسوس ہوتی تھی کہ اب شاید وہ آواز دیں اور کہیں کہ میں آگیا ہوں اب جو میں کام میں کروں گا آپ دیکھتے رہیں اور بعد میں سمجھا دوں گا۔ یہ بھی خیال ہی بن کر رہ گیا کہ وہ خود مجھے پکاریں گے۔ میں انہی خیالوں میں تھا کہ آواز آئی میں اُوپر والے چھوٹے کمرے میں گیا جہاں ڈرامے تیار کیے جاتے تھے۔ چھوٹا کمرہ اس لیے ایڈیٹر کو دیا گیا تھا تاکہ وہ خاموشی میں بہتر انداز سے ڈراموں کو بنا سکے۔

جب گیا تو خوشی دیدنی تھی۔ ایڈیٹر صاحب نے کہا کہ آپ قہوہ تو پلائیں کافی تھکاوٹ محسوس ہو رہی ہے آج۔ اور میں مایوس ہوکر قہوہ بنانے دوبارہ نیچے آیا اور قہوہ بنا کر ایڈیٹر کو پلا دیا۔ وقت یوں ہی گزرتا گیا دو سال پورے ہونے کو تھے محلے میں بھی مشہور ہوگیا دوستوں میں بھی مشہور تھا کہ صاحب ایڈیٹر بن رہے ہیں۔ ٹی وی پر نام آئے گا خاندان میں مشہوری ہوگی علاقے میں نام ہوگا۔ یہ وہ تصورات تھے جس کو حقیقت میں بدلنے کے لئے میں پروڈکشن کے کچن میں شرف پر بیٹھ کر سوچتا تھا۔

خیر قصہ ماضی بن گیا ایک دن ٖآفس میں بیٹھا تھا اخبار دیکھ رہا تھا غریب کی نظریں ہمیشہ اخبار میں خبر کی بجائے نوکری کے لیے دیے گئے اشتہارت پر ہوتی ہے۔ تو اچانک ایک اشتہار اخبار میں نظروں سے گزرا کہ کسی نجی چینل کو ایڈیٹر کی ٖضرورت ہے۔ میں نے بھی اپنے افس کے دیگر دوستوں کے طرح ایڈیٹرکے اس پوسٹ کے لئے اپنے کاغذات جمع کرائے۔ انٹرویو دینے گئے تو پتہ چلا ہم آٹھ دوستوں میں میری سلیکشن ہوگئی۔ وہ کس بنیاد پر میں قابل تھا زیادہ یا کوئی سفارش تھی؟ خیال تھا یہ بھی اور یہ وہ آخری خیال تھا جو خیال نہیں تھا سچ تھا اور پھرایک مہربان اُستاد ملے میں ایڈیٹر بھی بنا رائٹر بھی بنا اور پھر وہی سارے ٹوٹے خواب۔ تصورات اور خیالات خیالوں کی حد تک محدود نہ رہے اور حقیقت بن گیا۔ پھر ایک موقع اور ایک اُستاد نے میری ساری زندگی بدل دی جو محض خیال تھا بس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).