2018: جو پتے ٹوٹے ڈال سے


فنا کی تیرگی سے کون آفتاب بچ سکا

جو نور بانٹتے تھے ماہتاب کیا ہو ئے

2018 گزر گیا لیکن اپنے ساتھ اہلِ دل اور اہلِ عقل و دانش کے کیسے کیسے عہد ساز منارہِ انوار کو سمیٹ کر لے گیا۔ یہ سال تھا کہ سیلِ فنا کہ تھمتا ہی نہ تھا۔ ابھی ایک کا ماتم ختم نہ ہو تا تھا کہ دوسر ے کی خبر آ جاتی تھی۔ یہ تسلسلِ مرگ ایسا تھا کہ دل نے ایک بار جو سوگ کا لبادہ اوڑھا تو اسے اتارنے کی نوبت نہ آئی اور سال ختم ہو گیا۔

اب 2019 کو شروع ہو ئے تین ہفتے گزر چکے ہیں دل کو بڑی مشکل سے راضی کیا کہ ان رفتگاں کے لئے کچھ تو کہے۔ اس کہانی کو دہرا ہی دے شاید اس طرح غبارِ خاطر کے چھٹنے کی کو ئی صورت نکلے۔ آپ کہیں گے کہ یہ ساری خبریں تو ہم تک پہنچ چکی ہیں لیکن میں کہوں گی کہ کسی تخلیق کار، کسی نابغہِ روزگار اور کسی عوام دوست کی موت صرف کسی فرد ِ واحد کی موت نہیں ہوتی کیو نکہ یہ لوگ اپنے معاشرے کے شعور اور تہذیب کے ضامن ہوتے ہیں۔

یہ لوگ معاشرے میں ان حسیات کی آبیاری کر تے ہیں جو اعلی اقدار کی بنیاد بنتی ہیں۔ انہی کے دم سے رحم، محبت، انصاف، قربانی اور حقیقت کو تلاش کر نے کی جستجو کے امکانات انسانی شخصیت میں نمو پاتے ہیں۔ یہ نہ ہوں تو ایک کھردرا، تنگ دل، انا پرست، بے رحم، اورانسانیت سے عاری مجمع وجود میں آتا جسے معاشرہ کہنا غلط ہے کیونکہ معاشرہ کے لئے شرطِ اول امن و امان کے ساتھ مل جل کر زندگی بسر کرنا ہے۔ جانوروں کو بھی فطرت نے یہ خصوصیت عطا کی ہے کیونکہ یہی زندگی کی بقا کا اصلِ اصول ہے۔

مگر حضرتِ انسان جو خیر سے ”اشرف المخلوقات“ ہے اور اپنی عقل اور طاقت کے گھمنڈ میں خود کو قادرِ مطلق سمجھتا ہے۔ اسے اپنے خود ساختہ اصول فطرت کے قوانین سے زیادہ موثر لگتے ہیں۔ یہ عقل کا پتلا وہ واحد جاندار ہے جو اپنی ہی نسل کو تباہ کر تا ہے جبکہ انسان کے اندر مثبت شعور کی استعداد بھی موجود ہے جس کا ثبوت اہلِ دل کا وہ قافلہ ہے جو انسانی تاریخ کے اندھیرے میں ہمیشہ ایک پر امن اور مساوات پر مبنی معاشرے کی سمت رواں رہا ہے جسے مہذب معاشرہ کہا جاسکتا ہے۔ معاشرتی تہذیب علوم و فنون اور تفکر و تعقل کی فضا میں ہی جنم لے سکتی ہے۔ اس لئے اہلِ علم و فن کا اس جہان سے اٹھ جانا ایک معاشرتی زیاں ہے جس کا غم پسماندگان آپس میں تبرک کی طرح بانٹے ہیں۔ سو آپ کے حصہ کا تبرک اس مضمون کی شکل میں حا ضر ہے۔

دوستو سنہ 2018 کا احوال کچھ یوں ہے کہ ابھی پہلا ہفتہ گزرنے نہ پایا تھا کہ کراچی سے اردو کے بزرگ شاعر جناب رسا چغتائی کی 5، جنوری کی وفات کی خبر آئی۔ جدید غزل کا ایک عظیم شاعر، روحِ عصر کو سہل ممتنع میں اپنے منفرد لہجے سے سنوارنے والا غزل گو، اپنی ذات کی سادگی اور خلوص کو اپنے فن میں اتارنے والا اور اردو کو نئے دور کی حسیات کے اظہار کا وسیلہ بنانے والا جاچکا تھا۔ ان کی درویشانہ طبیعت اور کچھ ادبی دنیا کی بے رخی کی وجہ سے انہیں زندگی میں وہ شہرتِ عام نصیب نہ ہو ئی جس کے وہ حقدار تھے پھر بھی سندھ خصو صاً کراچی میں وہ ہر دل عزیز رہے اور نوجوان نسل میں ان کی شاعری مقبول ہوئی۔

ہمیں ان کی پزیرائی کا موقع ملا جب وہ اپنے شعری مجموعہ ”چشمہ ٹھنڈے پانی کا“ کی رائٹرز فورم کینڈا پر رونمائی کے لئے تشریف لائے تھے جسے فورم کے سیکریٹری جناب منیر سامی صاحب نے آشکار اکیڈمی سے چھاپا تھا اس کتاب کے علاوہ ان کے شعری مجموعے ”ریختہ، زنجیرِ ہمسائِگی اور تیرے آنے کا انتظار رہا“ اردو ادب کا ورثہ ہیں۔ ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کہ ان کے لئے مجلسِ تعزیت کا اہتمام کریں کہ 14 جنوری کو کراچی سے علم و انصاف کے نیست و نابود ہو نے کی خبر آئی۔

میرا اشارہ ڈاکٹر حسن ظفر عارف کی اندوہ ناک موت کی جانب ہے۔ وہ شخص جو انگلینڈ سے فلسفہ میں ڈاکٹریٹ اور ہارورڈ یونیورسٹی امریکہ سے پوسٹ ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے کے بعد دنیوی ترقی کے سارے امکانات سے منہ پھیر کر سیدھا اپنے وطن لوٹا تھا تاکہ نئی نسل کو فلسفہ، مساوات اور انصاف کے رموز سے آگاہ کر سکے۔ ان کو یہ بتا سکے کہ فلسفہ تعقل، تفکر اور حقایق کی گہرائی تک پہنچنے اور ہر نکتہ پر سوال اٹھانے کی صلاحیت کا نام ہے۔ اس نے اپنے دن رات کا ایک ایک لمحہ تدریس میں صرف کر دیا تھا۔ وہ بطورِ استاد اپنے منصب کو پہچانتا تھا اور جمہوریت کا علمبردار تھا اسی لئے یہ جانتے ہو ئے بھی کہ اس پر جبر کیا جائے گا اس نے تعلیمی اداروں میں فوجی حکومت کی مداخلت کو رد کر دیا اور اور ایک ایسا خط سندھ کے مارش لا ایڈ منسٹریٹر کے نام لکھا جو مزاحمت کی تاریخ میں اپنی مثال آپ ہے۔

نتیجتاً یونیورسٹی میں اس کی تدریسی حیثیت چھین لی گئی، اسے گرفتار کر لیا گیا۔ قیدو بند کی صعوبتوں کے بعد بھی اس کے پائے استقامت میں لرزش نہ آئی پھر ایک ایسا وقت آیا کہ پی پی پی کے اقتدار کی کو ئی امید نہ رہی۔ وہ کمیونسٹ تھا۔ اس کے لئے پارٹی سے زیادہ مزدوروں، ہاریوں، مچھیروں اور سب پچھڑے ہو ئے لوگوں کا ساتھ دینا تھا سو وہ مہاجر قومی محاذ میں ان کے لئے ہی شامل ہوا۔ دوستوں کے طعنے سنے، جگ ہنسائی اوررسوائی بھی ہو ئی مگر اس نے ہمت نہ ہاری۔ وہ اس پارٹی کے ہیڈ آفس لندن گیا۔ وہاں سے ملکی حالات خراب ہو نے پر واپس کراچی آیا حالانکہ اسے خبر تھی کہ اب قیدو بند نہیں بلکہ جان کی بازی لگی ہوئی ہے۔ آنے کے چند دنوں بعد ایک سنسان سڑک پر اس کی لاش اس کی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر ملی۔ اس کے جسم پر تشدد کے نشان تھے۔ کتنی بدبخت ہے وہ قوم جو ایک فلسفی کو قتل کرتی ہے۔ ڈاکٹر حسن ظفر عارف کی ذات ہم پر فطرت کا احسان تھا جسے ہم نے گنوا دیا۔

ابھی اس صدمہ سے اٹھ نہیں پائے تھے کہ 19 جنوری کو لاہور میں ہم سب کے منو بھائی اور لندن میں ساقی فاروقی انتقال کر گئے۔ دونوں خبریں ایک ساتھ ملیں۔

منو بھا ئی ایک ہشت پہلو شخصیت کے مالک تھے لیکن ان کی سب سے بڑی پہچان ان کی کالم نگاری تھی۔ انہوں نے تریسٹھ سال روز نامہ جنگ میں مسلسل کالم لکھا اور زندگی نے انہیں اخبار پڑھنے والے ہر پاکستانی کا ذہنی رفیق بنائے رکھا۔ ان کے کالموں کا مجموعہ ”جنگل اداس ہے“ عوام سے ان کے گہرے تعلق کا غماز ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے پی ٹی وی کے لئے ڈرامہ سیریل لکھے، ڈاکو مینٹری تحریر کیں اور پنجابی میں شاعری بھی کی۔ انہوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے عوام اور خصوصاً عورتوں کے حقوق کے لئے آواز بلند کی۔ سنہ 2014 میں اپنی ذاتی لابئریری گورنمنٹ کالج لاہور یونیورسٹی کو ہدیہ کر دی۔ انہوں نے تھیلے سیمیا کے مریض بچوں کے لئے امدادی پروگرام شروع کیا جو ان کی وفات کے بعد بھی جاری ہے۔ غرض وزیر آباد کے منیر حسین اور پورے پاکستان کے منو بھائی اس بے ثبات زندگی کی قیمت بڑھا گئے۔

ان کے ساتھ ساتھ ساقی فاروقی جدید اردو اور انگریزی شاعری کا علمبردار بھی رخصت ہوا۔ گورکھ پور کا ساقی فاروقی جس کے پاوں میں چکر تھا گیارہ برس کی عمر میں سنہ 1947 کے تاریخی طوفان نے اس کے خاندان سمیت اس کے پاوں اس کی جائے پیدایش سے اکھاڑ دیے اور وہ وقت کی لہروں پر بہتا مشرقی بنگال کے ساحل پر آ ٹکا جسے تب مشرقی پاکستان کا نام دے دیا گیا تھا۔ وہاں سے پھر ایک لہر اسے مغربی پاکستان کے ساحل کراچی تک لے آئی۔ مگر یہ بھی ایک پڑاؤ ہی نکلا گو ذرا طویل تھا کہ اس نے یہاں اپنی تعلیم مکمل کی اور روزگار بھی مل گیا مگراس کے پاوں کا چکر یہاں ختم ہو نے والا نہ تھا۔ اسے تو سات سمندر پار جا کر ہی دم لینا تھا۔

اس کی بے چین روح ایک آزاد معاشرے کے لئے تڑپ رہی تھی آخر وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر انگلینڈ چلا آیا اور وہیں کا ہو کر رہ گیا یہاں تک کہ اب وہیں کی خاک اوڑھ کر سوتا ہے۔ اس سرزمین نے بھی اس کے ساتھ وفا کی اور اس کی صلاحیتوں کو ایسی مہمیز دی کہ زندگی کی آخری منزل تک تخلیق کا سلسہ جا ری رہا۔ ساقی فاروقی نے جدید شاعری کی لوح پر اپنی مہر ثبت کی یہاں تک کہ اس کے مجموعوں کے نام بھی ”رازوں سے بھرا بستہ، بہرام کی واپسی، سرخ گلاب اور بدرِ منیر، رادار اور حاجی بھائی پانی والا“ اس کی جدیدیت کے گواہ ہیں۔

یہی نہیں بلکہ جانوروں کی کیفیات پر نظمیں اردو میں ایک اضافہ ہیں۔ ساقی فاروقی کی ذات انتہاوں کا ملغوبہ تھی۔ اس کی شعری زبان اور عام گفتگو میں اکثر اوقت صدیوں کا فاصلہ ہوتا جو سماعتوں پر گراں گزرتا مگر اس کے چلے جانے کے بعد اردو ادب میں ایک خلا پیدا ہو گیا ہے۔ اب کو ئی اس کا سا جنون اور اس کی سی بے چین روح لے کر گھاٹ گھاٹ کا پا نی پئے تو بات بنے۔ حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

ہم ٹورانٹو میں رایٹرز فورم سے ان رفتگاں کو خراجِ تحسین پیش کر نے کے لئے پروگرام تر تیب د ے ہی رہے تھے کہ گیارہ فروری کو لاہور میں عاصمہ جہانگیر کی موت کی خبر آئی۔ اس خبر نے تو جیسے ہم سب کو توڑ کر رکھ دیا۔ مایوسی کے اندھیرے نے دل کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یا الٰہی جیل کی کال کوٹھریوں میں معصوم ملزموں کی امید کیوں ختم کر دی۔ عزت کے نا م پر قتل ہو نے والی، آگ میں جلائے جانے والی مظلوم اور بے سہارا عورتوں کے لئے اب کون لڑے گا۔ عدل و انصاف کے لئے قانون کی پاسداری کو ن کرے گا۔ پاکستان کے تنگ نظر اور مفاد پرست معاشرے میں عاصمہ جہانگیر کا وجود ایک معجزہ سے کم نہیں تھا۔ اس سے پہلے یہ معجزہ غلام جیلانی کی صورت میں ہواجس نے تن تنہا مشرقی پاکستان کے عوام کے حق میں آواز بلند کی۔ وہ اکیلا مشرقی پاکستان میں فوج کشی کے خلاف بینر اٹھائے لاہور کی مال روڈ پر کھڑا رہتا۔ اس جرم کی پاداش میں اسے قید کر لیا گیا۔ اس کی سترہ سال کی بیٹی عاصمہ جیلانی احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکل آئی۔

 

اگلے سال بھٹو صاحب جنرل یحیٰی سے اقتدار حاصل کرتے ہو ئے پرائم منسٹر کے ساتھ ساتھ چیف مارشل لا ایڈمنسٹڑیٹر بھی بن گئے۔ اب اٹھارہ سالہ عاصمہ جیلانی نے حکومت کے خلاف عدالت میں ایک دعوی دائر کیا کہ بھٹو عوامی لیڈر ہیں وہ چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نہیں بن سکتے۔ اس لئے ان کو اس عہدہ سے فوراً دستبردار ہو جانا چاہیے اور وہ جیت گئی۔ اٹھارہ سال سے چھیاسٹھ سال کی عمر تک عاصمہ جیلانی سے عاصمہ جہانگیر تک اس نے بلا تمیزِ مذہب و سیاست ہر مظلوم کے لئے قانونی جنگ لڑی۔ وہ انسانی آزای اور انسانی حقوق پر ایمان رکھتی تھی یہاں تک کہ گمشدہ طالبان اور جماعتِ مخالف کے لئے بھی مقدمات لڑے۔ 1983 میں اس نے ضیا الحق کے ملٹری راج کے خلاف تحریکِ جمہوریت میں حصہ لیا جس کے نتیجے میں جیل کی سزا ہو ئی۔ 2007 میں جنر ل مشرف کی حکومت کے خلاف وکلا کی تحریک میں حصہ لینے پر اسے گھر میں نظر بند کیا گیا۔ وہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف اپنے موقف پر بڑی بہادری سے ڈٹی رہی۔ پاکستان میں ہیومن رائٹس کمیشن اور وومن ایکشن فورم کے قیام کا سہرا اسی کے سر رہا۔ وہ پاکستان سپریم کورٹ ایسوسی ایشن کی پہلی خاتون صدر تھی۔

سنہ 1995 میں اسے مارکس اینڈ لینن ایوارڈ دیا گیا۔ معاشرے میں انسانی حقوق کی ترویج کی کوششوں کے لئے یونیسکو نے اسے بلبو ایوارڈ پیش کیا۔ نو فروری سنہ 2018 کو وہ کورٹ میں ایک کیس کی وکالت کر رہی تھی اور دو دن بعد گیارہ فروری کو ہارٹ اٹیک کے نتیجہ میں اچانک دنیا سے رخصت ہو گئی۔ اسے تو ابھی بہت کچھ کر نا تھا۔ دنیا بھر کے انسانیت پرستوں کے لئے یہ بہت بڑا سانحہ ہے۔ ہم پاکستانیوں کے لئے تو یہ غم اس لئے بھی عظیم تر ہے کہ کوئی اور انسانیت کے لئے زندگی بھر جہاد کر نے والا، کو ئی اور اپنے گھر کی ض٘مانت دے کر کسی مظلوم کو بچانے والا، کو ئی اور انصاف کا مدعی اور وسیع المشرب ایسا نظر نہیں آتا جو عاصمہ جہانگیر کی جگہ لے سکے۔

ستم بالائے ستم یہ کہ ہماری نوجوان نسل ایسے جادو گروں کے اثر میں جا رہی ہے جو انسان کو مکھی بنانے کے عمل میں ماہر ہیں۔ ہماری سر زمین کی فضاوں میں ایسا زہر گھل رہا ہے جو اپنے حق کے لئے اٹھنے والی ہر آواز کو ہلاک کر دیتا ہے۔ ایسے حالات کے خلاف آواز اٹھانے والا اب لب کھولے گا تو مشال خان کی طرح موت سے ہاتھ ملا کر ہی کھولے گا۔ الوداع عاصمہ جہانگیر تو گھپ اندھیروں میں جلنے والا چراغ تھی۔ تو راہِ حق پر چلنے والی ایسی مسافر تھی جس کا راستہ مشکل مگر عظیم تھا۔ راستے کی عظمت نے تجھے عٰظیم کر دیا۔ انسانیت کی تاریخ میں تیرا نام سنہرے حروف میں لکھا جائے گا۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).