سرائیکی وسیب کے فنکارکس دیوار گریہ سے سر پھوڑیں؟


کسی بھی مہذب معاشرے میں فنکار، ادیب، شاعر، موسیقار، گلوکار اور اداکار کو عام انسان کے سانچے سے مختلف سمجھا جاتا ہے کیونکہ مہذب دنیا سمجھتی ہے کہ یہ لوگ وہ ”میوٹیٹیس“ ہوتے ہیں جو کسی بھی معاشرے میں اس لئے پیدا کر دیے جاتے ہیں کہ اس معاشرے کے لوگ کہیں اپنی زندگیوں کی بے رنگی سے تنگ آکر مر ہی نہ جائیں لیکن پاکستان میں یہ روایت قائم ہوتی جا رہی ہے کہ جب تک فنکار اپنے فن سے لوگوں کو محظوظ کرتا ہے، عوام ان کو پسند کرتے ہیں لیکن وہی فنکار جب حالات کی بے رحم چکی میں پس کر رہ جاتا ہے تو عوام اس سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ سرائیکی وسیب کے فنکاروں کے لئے تو زندگی ہمیشہ سوا کا پہاڑا بنی رہتی ہے۔ جب تک کام ملتا ہے دال روٹی چلتی ہے جب کام کرنا ختم کیا تو فاقہ دروازے پر دانت نکوسے آن کھڑا ہوتا ہے۔

غزل گائیکی میں منفرد مقام کی حامل اور ریڈیو، ٹی وی پر اپنے فن کا جادو جگانے والی صدارتی ایوارڈ یافتہ ممتاز گلوکارہ گل بہار بانوکے حوالے سے گزشتہ ماہ یہ اطلاعات آئی تھیں کہ گل بہار بانو کے سوتیلے بھائی نے جائیداد کی خاطر ملک کی اس مہان گلوکارہ کو کمرے میں لمبے عرصے تک بند رکھا۔ اہل علاقہ کی شکایت پر مقامی پولیس نے انہیں بازیاب کیا۔ اس دوران گلوکارہ کے بھائی کا بیان سامنے آیا کہ وہ گزشتہ دس سالوں سے شیزوفرینیا جیسے ذہنی مرض میں مبتلا ہیں۔

اتنی بڑی فنکارہ کا یہ حشر معاشرتی رویوں کی نشاندہی کرتا ہے اور شوبز سے وابستہ افراد کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔ ریڈیو پاکستان ملتان اور بہاول پور کے دوش پر وسیب میں گونجنے والی دلستاں آوازوں میں استاد رمضان حسین خان، عاشق حسین خان کی جوڑی کے علاوہ جمیل پروانہ اور نصیر مستانہ (مرحوم) کی جوڑی نے فن کے لئے گرانقدر خدمات سرانجام دیں اورآؤٹ سٹینڈنگ کلاس میں روایتی سرائیکی گیتوں کو محفوظ کیا۔ شائقین ان کے سرائیکی گیتوں پرجھوم اٹھتے تھے۔

پروانہ مستانہ کی جوڑی کو صدارتی ایوارڈ کے لئے بھی نامزد کیا گیاتھا مگر شاید سرائیکی وسیب کی آواز ہونے کی وجہ سے ان کا بھی وہی حشر ہوا جو ہماری دھرتی کے عظیم لوک فنکار استاد پٹھانے خان کا ہوا کہ انہیں بھی مرنے کے بعد ایوارڈ سے نوازا گیا، پٹھانے خان کے فن سے متاثر ہو کر صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے انہیں ایک امدادی چیک عطاکیا تھا جومارچ 2000 ء میں ان کی وفات تک کیش نہ ہو سکا، ماضی کی ممتاز اداکارہ روحی بانو کا حال بھی سب کے سامنے ہے جس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے مجمع الٹ آتا تھا، اب اپنے بیٹے کے قتل اور گھریلو حالات کی وجہ سے ذہنی توازن کھو کر گلیوں میں دیوانہ وار گھومتی نظر آتی ہیں۔

اوچ شریف سے تعلق رکھنے والے صدارتی ایوارڈ یافتہ شاعر جانباز جتوئی اور ممتاز گائیک استاد حسین بخش خان ڈھاڈی بھی گم نامی کی حالت میں جہان فانی سے رخصت ہوئے، استاد حسین بخش خان ڈھاڈی کی گائیکی کا طوطی بولتا تھا، انہوں نے ستارہ ریاست بہاول پور کے نام سے شہرت سمیٹی، ان کا نام گائیکی کے میدان میں کمال حیثیت رکھتا تھا جبکہ سرائیکی زبان کے قومی شاعر جانباز جتوئی نے پوری دنیا میں اپنے خطے اور علاقائی زبان کا نام روشن کیا، سرائیکی ٹیلی فلموں کے معروف اداکار، رائیٹر اور ڈائریکٹر قمر احمد خان بھی گزشتہ روز طویل علالت کے بعد گم نامی کی حالت میں ایسے وفات پا گئے کہ کوئی ان کا پرسان حال نہ تھا، سٹیج ڈراموں میں اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والے ممتاز آرٹسٹ محسن علی ساقی بستر علالت پر ہیں اور حکومتی سطح پرعلاج کے مستحق ہیں۔

نامساعد حالات اور حکومتی سرپرستی نہ ہونے کے باوجودسرائیکی وسیب کے بہت سارے فنکار اپنے والدین کے فن کو زندہ رکھے ہوئے ہیں، استاد حسین بخش خان ڈھڈی کے فرزند شہزادہ سخاوت حسین خان، شہزادہ شرافت حسین خان، ان کی بیٹی سحر سلطانہ، عاشق رمضان کی جوڑی میں سے عاشق حسین خان کی بیٹیاں شیریں کنول اور کرن آفرین، فقیرابھگت کے بیٹے موہن بھگت اور پروین نذر کی بیٹی عاصمہ سرائیکی خطے میں فن کے فروغ کے لئے کوشاں ہیں، حکومت کی جانب سے درجنوں ادبی وثقافتی ادارے قائم ہیں جو معاشرے کے اس مخصوص حساس طبقہ کی معاونت کے لئے بنائے گئے ہیں مگر ہر دور حکومت میں یہاں بھی اقربا پروری کی جاتی رہی ہے، غیر ملکی طائفوں اور بڑے پروگرامز میں بھی سرائیکی وسیب کے فنکاروں کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے فنکاروں کو ملکی طائفوں اور پروگرامز میں نمائندگی دی جائے اور علالت و تنگ دستی میں مبتلا فنکاروں کے لئے وظائف اور تاحیات ماہانہ پنشن مقرر کی جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).