عُروس البلاد سے دائرہ دین پناہ تک


عروس البلاد کے سحر میں گم ہم سر پھروں کو نیوتہ ملا کہ دو کزنز نے یک بعد دیگرے شادی کرنے کا پکا ارادہ کرلیا ہے اور ہمیں شرکت کو ہر قیمت یقینی بنانا ہے۔ اصرار اتنا شدید تھا کہ ساری وضاحتیں دھری کی دھری رہ گئیں۔ بہرحال بادلِ نخواستہ آناً فاناً تیاری کی اور ٹکٹِ ریل کے حصول کے لئے سٹی اسٹیشن جا پہنچے۔ عوام کا جم غفیر دیکھ کر بہت حیرت ہوئی کہ یہ آخر ماجرا کیا ہے۔ عقدہ کھلا کہ وفاقی وزیر ریل شیخ رشید کی پھرتیوں کے بعد زبوں حال نظام ریل میں آہستہ آہستہ بہتری آتی جا رہی ہے اسی لئے عوام کی بڑی تعداد ریل سے سفر کرنے کے خواہشمند ہیں۔

بہرحال کاؤنٹر پر پہنچے کہ بزنس کلاس کی ایک عدد سیٹ بک کروالی جائے مگر کھڑکی پر بیٹھی خاتون نے سپاٹ سے لہجے میں کہا کہ اگلے 15 روز تک کسی بھی گاڑی میں سلیپر یا بزنس کلاس میں کوئی سیٹ دستیاب نہیں۔ خاتون کا جواب سن کر پریشانی لاحق ہوئی کہ اب جائیں توکیسے جائیں؟ ۔ چاہیے کتنی ہی جدید اور آرام دہ ہو مگر بس کا سفر ہمارے بس کی بات نہیں۔ مرتا کیا نا کرتا۔ فون نکالا اورڈی سی او ریلوے کے عہدے پر براجمان اسحاق بلوچ کواپنا دکھڑا سنا ڈالا۔ وہ بھی بے بس نظر آئے کچھ دیر ہمیں اپنی مجبوری سمجھاتے رہے مگر ہم نے ان کی ایک نہ سنی۔ مسلسل اصرار پر انہوں نے ہتھیارڈال دیے اور چانس پر ٹکٹ بک کروانے کا وعدہ کر لیا جوہماری روانگی سے ایک روز قبل وفا ہوا۔ یوں ہم نے کراچی کینٹ اسٹیشن سے نائٹ کوچ پکڑی اور اولیاء کی دھرتی کی جانب روانہ ہوئے۔

مملکت خداداد  پاکستان کئی اعلیٰ مرتبت اولیاء اللہ کا مسکن ہے جن کے فیض سے کروڑوں لوگوں سیراب ہوئے اور سلسلہ جاری وساری۔ ولی اللہ کے کشف وکرامات عام لوگوں تک پہنچانے کے لئے کسی انسانی ذریعہ کی محتاجی ہرگز نہیں ہوتی۔ ولی اللہ کا طرزِ زندگی، گفتار، کرداراور کمالات دیکھ کر مسائل اور مصائب میں گرفتار لوگ ولی ِ کامل کا قرب حاصل کرنے اور فیض پانے کے لئے جوق درجوق ان کے مزارات پرحاضری دیتے رہتے ہیں۔

حضرت سخی دین پناہ سرکارؒ کے نام سے مشہور علاقہ دائرہ دین پناہ تحصیل کوٹ ادو ضلع مظفر گڑھ پنجاب میں واقع ہے۔ اس چھوٹے سے قصبے کے وسط میں واقع سید عبدالوباب شاہ بخاری المعروف سخی دین پناہ سرکارؒکا مزار شریف خستہ حالی کے باوجود بھرپور جاہ وجلال کے ساتھ روحانیت کا فیض بخش رہا ہے۔ ضرورت مندوں، دکھیاروں اور مصیبت زدہ لوگ اس عظیم صوفی بزرگ کے کشف وکمالات کی برکات سے فیضیات ہوتے ہیں۔ سخی دین پناہ سرکارؒنے 957 ہ میں اس علاقے (دائرہ ) میں تشریف لائے۔

تاریخ بتاتی ہے کہ آپ کا اصل وطن مدینہ منورہ تھا جبکہ عارضی مسکن اُوچ شریف رہا جہاں آپ کے والد شاہ حسین بن شاہ بڈھنؒ مدفن ہیں۔ آپ اولاد رسول ﷺاوراولاد علیؓمیں سے ہیں۔ حضرت جلال الدین سرخ پوش، حضرت جہانیاں جہاں گشت اورحضرت لال شہبار قلندر آپ کے جدِ امجد ہیں۔ آپ نے مکول خاندان کی نیک اور پارسا خاتون حضرت مائی سہاگن کے ہاں پرورش پائی جن کا مزار دائرہ دین پناہ سے تقریباًایک کلومیٹر کے فاصلے پر لیہ روڈ پر موقع ہے۔

عظیم صوفی بزرگ حضرت سید عبدالوباب شاہ بخاری المعروف سخی دین پناہ سرکارؒ کے کرامات کے بیشمار قصے آج بھی زدعام ہیں۔ مشہور ہے کہ حضرت دین پناہ سرکار ؒ کا ایک بیڑا (کشی) ہوتی تھی جوحکم خداوندی سے خشکی پر چلتی تھی اور سرکارؒ اس پر کئی میلوں سفر کرتے تھے۔ ایک دفعہ سخی دین پناہ سرکارؒ کشی میں سفر کررہے تھے اور دائرہ سے شمال کی جانب تقریباً 50 میل دور کروڑ لعل عیسن پہنچے جہاں پر حضرت لعل عیسنؒ موجود تھے جو حضرت سخی دین پناہ سرکارؒ کے ہم عصر بھی تھے۔

انہوں نے کشتی کو رکنے کا حکم دیا اور بیڑا رک گیا۔ حضرت سخی دین پناہؒ نے کہا کہ بیڑا روکنے والے کے ”سینگ“ کیوں نہیں نکل آتے تو یہ کہتے ہیں حضرت لعل عیسن ؒ کے سینگ نمودار ہوگئے پھر حضرت لعل عیسن ؒ کی والدہ ماجدہ جوکہ نیک اور پارسا خاتون تھیں سرکارکی خدمت میں حاضر ہوئیں اور معافی کی طلب گار ہوئیں ان کی عزت و تکریم کو مدنظر رکھتے ہوئے سخی دین پناہ سرکار ؒ نے حضرت لعل عیسنؒ کو معاف کردیا مگر آج بھی جو ان کے خاندان کے اصل قریش ہیں ان کے سروں پر سینگ کے نشان پیدائشی طورپر موجود ہوتے ہیں۔

حضرت سخی دین پناہ سرکارؒ کے کشف و کرامات کے قصے سن کرشہنشاہ ہند مغل بادشاہ جلال الدین اکبر آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کی خدمت میں ہیرے جواہرات پیش کیے۔ اسی اثناء ایک غریب عقیدت مند تھوڑے سے (گیہوں) گندم لے کر بھی حاضرہو گیا۔ حضرت ؒ نے ہیرے اور جواہرا ت کو ہاتھ میں پکڑ کر دبایا تو ان ہیرے جواہرات سے خون نکلنے لگا اور پھر غریب عقدت مند کے (گیہوں) گندم کو ہاتھ میں پکڑ کر دبایا تو اس میں سے دودھ نکلنے لگا۔ جس کے بعد سخی دین پناہ سرکارؒ نے غریب عقیدت مند کے گیہوں قبول کر لئے جبکہ شہنشاہ ہند جلال الدین اکبر کے جواہرات یہ کہہ کر واپس لوٹا دیئے کہ ان میں غریب اور مجبورلوگوں کا خون شامل ہے۔ یہ سارا ماجرا دیکھنے کے بعد شہنشاہ ہندجلال الدین اکبر حضرت سخی دین پناہ سرکارؒ کے عقیدت مندوں میں شامل ہ وگیا اور قدم بوسی کر کے الٹے پاؤں واپس لوٹ گیا۔

حضرت سخی دین پناہ سرکارؒ کی وفات 1011 ہ میں ہوئی اور ان کے عقیدت مند شہنشاہ ہند جلال الدین اکبر نے آپ کا مغل تعمیرات کی طرز پر شاندار مزار تعمیر کروایا اور مزار کے اطراف بھی وسیع زمین ان کے عقیدت مندوں کی آمد و رفت اور قیام کے لئے وقف کی۔

دائرہ دین پناہ مزار پر حاضری کے بعد وہاں کے مقامی بزرگ افراد سے ملاقات میں معلوم ہوا کہ حضرت سخی دین پناہ سرکارؒ کے دو مزارات ہیں ایک دائرہ شرقی جس پر ہم موجود تھے جبکہ دوسرا دائرہ شرقی جوکہ دریا کے مشرقی کنارے پر موجود ہے۔ دو مزارات کا عقدہ بھی اس طرح کھلا کہ  سخی دین پناہ سرکارؒ کے خدمت گزار مکول خاندا ن دریا کے دونوں کناروں پر آباد ہے۔ سخی دین پناہ سرکارؒ کی وفات پرمکول خاندان میں شدید اختلافات ہوئے اور تصادم کی صورتحال پیدا ہوگئی جس کے بعدآپ نے مکول خاندان کے بزرگوں کو بشارت دی کہ میرا جسدِ اطہر دریائے سندھ کے سپرد کر دیا جائے۔

یوں سخی دین پناہ سرکارؒ کے حکم پر ان کاجسدِ اطہر ایک صندوق میں رکھ کر دریا میں چھوڑ دیا گیا جب یہ صندوق دریا کے درمیان پہنچا تو صندوق نے ڈبکی لگائی اور واپسی پر قدرت الہٰی سے دو صندوقیں نمودار ہوئیں۔ ایک صندوق دریا کے مشرقی کنارے اور دوسار ا دریا کے مغربی کنارے جا لگا دو طرف کے لوگوں نے صندوق میں آپؒ کا جسدِ اطہر پایا اور اس طرح دریا کے دونوں کناروں پر حضرت سخی دین پناہ سرکارؒ کو دفن کیا گیا۔

 دائرہ دین پناہ شہر کے وسط میں موجود حضرت سید عبدالوباب شاہ بخاری المعروف سخی دین پناہ سرکارؒ کا مزار طویل عرصے سے محکمہ اوقاف اور آثار قدیمہ کی عدم توجہی کی باعث زبوں حالی کا شکا ر ہے۔ مزار کے اطراف کی زمین پر قبضہ کر کے دوکانیں بنا دی گئیں جس کے باعث عقیدت مندوں اور زائرین کا مزار تک پہنچنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے کسی گاڑی میں جانا تو درکنار پیدل مزار تک پہنچنا بھی ایک مشکل مرحلہ ہے۔

پچھلی حکومت میں صوبائی وزیربرائے جیل خانہ جات پنجاب ملک احمد یارہنجرا اسی حلقے سے منتخب ہوئے جبکہ موجودہ رکن قومی اسمبلی و وزیر مملکت برائے ہاوسنگ میاں شبیر علی قریشی بھی یہیں سے منتخب ہوئے مگر اس قدیم روحانی اور تاریخی ورثے کی نگہداشت، تزین و آرائش کا کسی کو خیال نہیں آیا۔ مزار کے اطراف میں قبضے اور مارکیٹیں بنانے کا نوٹس تو کیا لیا جاتا حالت یہ ہے کہ مزارکی دن بدن بڑھتی بوسیدگی پر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی جس کے باعث ملک بھرمیں رہنے والے کروڑوں عقیدت مندوں میں شدید مایوسی اور تشویش پائی جاتی ہے۔

پاکستان تحریک انصاف نے ”تبدیلی“ کا نعرہ لگا کر سرائیکی وسیب سمیت ملک بھر میں خوب سیٹیں سمیٹیں۔ حکومت میں آنے کے بعد سیاحت، مذہبی مقامات بالخصوص بزرگان دین کے مزارات پر سہولیات کی بہت باتیں کی گئیں مگر عملی طورپر کچھ نہیں دکھائی دیا۔ وزیراعظم عمران خان نے کرتارپور کوریڈورکھولنے کا اعلان کر کے تو خوب تھپکیاں وصول کیں بلاشبہ یہ ایک احسن اقدام ہے مگر ابھی تک وفاقی حکومت کی جانب سے ملک بھر میں موجود سیکڑوں صوفیائے کرام  و بزرگان دین کے مزارات کی نگہداشت اور تزین وآرائش کے حوالے سے کوئی حکمت عملی نہیں بنائی اورمحکمہ آثار قدیمہ اور محکمہ اوقاف کوبھی مکمل طور پر فعال کیا جائے۔

یہاں ایک امر بھی قابل ذکر ہے کہ ضلع مظفر گڑھ کی حکومتی، سیاسی اور نوکر شاہی کی غفلت اور لاپرواہی پر بھی کس سے رویا جائے۔ مگر امید نہیں چھوڑی جا سکتی ہے۔ ہمیں امید ہے کہ یہاں سے برس ہا برس سے منتخب ہونا والا ہنجرہ خاندان، موجودہ رکن قومی اسمبلی ووزیر مملکت برائے ہاؤسنگ میاں شبیر علی قریشی، رکن صوبائی اسمبلی اشرف رند، ڈی سی مظفر گڑھ، اسسٹنٹ کمشنرکوٹ ادوسمیت دیگر ضلعی انتظامیہ ضلع مظفرگڑھ کی سب سے قدیم اور تاریخی مزار کی حالت بہتر کرنے میں اپنا بھرپور کردار کریں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).