واقعہ ساہیوال: جذبات، سچ اور جے آئی ٹی


ساہیوال کا سانحہ 19 جنوری کو پیش آیا۔ تین دن بعد جے آئی ٹی نے اپنی رپور ٹ صوبائی حکومت کو پیش کی۔ اس کے مطابق، خلیل اور اس کا خاندان ( بشمول مرحومین اور زخمی ) بے گناہ، ذیشان (ڈرائیور) گناہگار، جس پر مزید تفتیش ہونا باقی ہے، جبکہ یہ آپریشن بالکل درست تھا۔ آپریشن میں ملوث اہلکار معطل کر دیے گئے ہیں اور حراست میں ہیں۔ ان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ چلے گا۔ کچھ اور اعلی سطح کے افسران بھی معطل ہو چکے ہیں۔ ذیشان کے معاملے پر، مزید تفتیش ہو گی، جس کے لئے مہلت مانگی گئی ہے۔ وزیر اعلی چاہیں تو اپنی صوابدید پر جو ڈیشل کمیشن کی سفارش کر سکتے ہیں۔ عجیب بات ہے، جس کوتاہ بینی اور لاپرواہی کے نتیجے میں چند بے گناہ لوگ مر گئے اور پھول جیسے بچے زخمی ہو گئے، وہ آپریشن درست قرار پایا ہے؟

اس سانحے پر پولیس کے کردار کو کیسا ہونا چاہیے تھا، کچھ مفروضوں کا سہارا لے کر حالات و واقعات کا اگر جائزہ لیں تو مندرجہ ذیل ممکنات ہو سکتے تھے۔

مفروضہ نمبر 1 : گاڑی میں سوار تمام افراد، دہشت گرد تھے۔ اور ان کے ساتھ خاندان کے اور لوگ نہیں تھے۔

بحث: اگر یہ درست مان لیا جائے، تو، ان کو مارنے کا ایک ہی محیرالعقل جواز ہو سکتا تھاکہ ان کی طرف سے پولیس پر شدید اور اندھا دھند فائرنگ کی گئی ہو، یا دستی بم سے حملہ کر دیا گیا ہو۔ کچھ پولیس والے زخمی ہو گئے ہوں اور ان کی جوابی فائرنگ کے نتیجے میں کچھ دہشت گرد مارے گئے ہوں اور باقی گرفتار کر لئے گئے ہوں۔ مگر ابھی تک آنے والی تمام اطلاعات کے مطابق مرنے والوں کی گاڑی سے کوئی گولی نہ چلائی گئی تھی اور نہ ہی کو ئی اور ایسا حربہ استعمال کیا گیا تھا۔ مزید یہ کہ کسی قسم کا اسلحہ برآمد ہونے کی بھی تا حال کو ئی اطلاع نہیں ملی ہے۔

مفروضہ نمبر 2 : گاڑی میں سوار ا تمام افراد دہشت گرد تھے۔ اور ان کے ساتھ خاندان کے اور لوگ بھی تھے۔

بحث: اگر یہ مفروضہ ٹھیک ہے توپھر دو صورتحال ہو سکتی تھیں۔ اول یہ کہ ان کی طرف سے فائرنگ ہوئی ہو، دوم یہ کہ فائرنگ نہ ہوئی ہو۔ اگر، فائرنگ نہیں ہوئی تو، صاف ظاہر ہے کہ انھیں سرنڈر کرنے کی کوشش کروائی جانی چاہیے تھی، گاڑی سے اتروا لینا چاہیے تھا، بچوں اور خواتین کو علیحدہ کر لیا جاتا۔ اور اس کے لئے اس وقت تک گاڑی کا پیچھا کیا جانا چاہیے تھا جب تک گاڑی کو روک نہ لیا جاتا۔ پولیس کے پاس جو بھی اطلاعات ان لوگوں کے بارے میں تھیں ان کی روشنی میں وہ حقائق کا جائزہ لیتے اور کچھ نہ پانے کے بعد انھیں جانے دیتے۔ اگر حملے میں پہل مارے جانے والوں کی طرف سے ہوئی تو بھی، ان کے ساتھ، بچے تھے، خواتین تھیں، پولیس پہلے ان کو دہشت گردوں سے علیحدہ کرتی تاکہ معصوم جانوں کا ضیاع نہ ہو اور انھیں کو ئی گزند نہ پہنچتی۔ سنا ہے جنگ کے بھی کچھ اصول ہوتے ہیں۔

مفروضہ نمبر 3 : گاڑی میں سوار تمام افراد دہشتگرد نہیں تھے، بلکہ مشکوک افراد تھے

بحث : یہ مفروضہ اور ا سکے مضمرات سب سے زیادہ خوفناک ہیں۔ یعنی، محض شک کی بنیاد پر، لوگوں کو مار دیا جائے۔ نہ پولیس اس بات کی تحقیق کرے کہ اطلاعات درست ہیں یا غلط، بس اندھا دھند فائرنگ کرنے لگے۔ اور خاص طور پر جب ان کے پاس کو ئی اسلحہ نہیں تھا۔ ایسے تو اجرتی قاتل کرتے ہیں۔

اب آتے ہیں ان سوالوں کی طرف جو یہ سانحہ ہمارے ذہن میں چھوڑ گیا ہے۔ گاڑی کے شیشے سفید تھے یعنی باہر سے اندر موجود لوگوں کی تعداد، جنس اور عمر کا تعین با آسانی کیا جاسکتا تھا اور اسی طرح اسلحہ بھی دیکھا جا سکتا تھا، تو پھر یہ اندھا دھند فائرنگ کی سٹریٹجی کیوں اپنائی گئی؟

پولیس کو جو اطلاعات آئیں، ان کی تصدیق کیوں نہ کی گئی؟

کیا پولیس کا خفیہ اطلاعات کا نظام واقعی اس قدر کمزور ہے یا پولیس اب اجرتی قاتل کا کردار بھی ادا کرنا چاہتی ہے؟

اگر وہ لوگ (یا اکیلا کو ئی ایک ) دہشت گرد تھے تو پولیس نے آپریشن سے پہلے ان کے رہائشی علاقوں سے کیا معلومات اکٹھی کیں؟ کیا یہ دیکھا گیا کہ یہ لوگ کسی دہشت گردی کی واردات کرنے جا رہے ہیں یا کسی قسم کے سہولت کار ہیں؟

ا س پولیس آپریشن کی قیادت کرنے والے نے افسران بالا کو مطلع کیا یا وہ اس سے بے خبر رہے؟

میڈیا، اس واقعے کے بعد، سنسنی پھیلاتا رہا یا واقعی سچ دکھانے کی کوشش کرتا رہا؟

اس غم کی گھڑی میں لواحقین کے منہ میں ما ئیک ٹھوسنے والے میڈیا کو کیا نہیں پتہ کسی بھی سانحے کے اسوگ کے کم از کم دن تین ہوتے ہیں؟

سیاستدانوں نے اس واقعہ کو پوائنٹ سکورنگ کے لئے استعمال کیا یا واقعی کچھ تعمیری بحث وقوع پذیر ہوئی؟

ماڈل ٹاوٗن جیسے واقعہ پر اپنی نا اہلی پر مہر ثبت کرنے والے حکمران، اپوزیشن میں آ کر حکومت سے گھنٹوں کا کام منٹوں میں کیوں کروانا چاہتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).