سندھو واس: جہاں لاہور لاڑکانہ سے ملتا ہے


لاڑکانہ کی بات ہوتے ہی اکثر لوگوں کے ذہن میں شہید بھٹو اور المرتضٰی ہاؤس کا آجانا سیاسی نفسیات ہے، جبکہ موئن جو دڑو، سیتا ولاز اور گیان چندانی ہاؤس کا ذہن میں آنا تہذیبی نفسیات ہے۔ اگر ہم اس بات کا تقابلی جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان کی اکائیوں کے درمیاں سارا روابط کا معاملہ سیاسی ہی لگتا ہے، جبکہ یہ تہذیبی ہونا چاہیے۔

سیاسی معاملات اور روابط ہمارے درمیان اقتدار، اختیارات، سرحدوں اور وسائل کی تقسیم کی باتوں کو چھیڑتا ہے اور ہمیں اختلافات میں ڈال دیتا ہے، جبکہ تہذیبی گفت و شنید کرتے ہوئے ہم کئی بار موئن جو دڑو، ہڑپا، ٹیکسلا، مہر گڑھ سے لے کر سندھو دریا کی جنم بھومی تبت، اس کے راستوں دیامر، داسو، شانگلا، چشمہ، پنجند، سکھر، جامشورو، کھارو چھان اور آخری منزل سندھ ساگر تک ایک ساتھ ملتے ہیں، کئی بار ملتے اور ملتے ہی اپنے اندر ایک ہی تہذیب کے نشانات ڈھونڈھ لیتے ہیں۔

بچپن لاڑکانہ کی گلیوں میں گزارنے والے، ملک کے بہترین تعلیمی اداروں مین تعلیم پانے والے، جوانی قوم پرست سیاست پر وارنے والے، لاڑکانہ کی جگدیش آہوجا گذشتہ دو دہائیوں سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے مٹی سے بنے لوگوں کی تلاش میں ہیں۔ وہ پھر سے انڈس سولائیزیشن کے لوگوں کو سندھو کے کنارے آپس میں متحد کرنے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ کافی لوگوں کا خیال ہوگا کہ یہ گناھ کا کام کیسے ممکن ہے، مگر شیخ ایاز کے اس عاشق کو اپنے رہنما نے سمجھایا تھا

ھن سر جی گدلی سینور ۾

ھی نیل ڪنول بھ تھ ڏوھی آ

جی ڪو بھ چڪور انڌاری ۾

جی اڏری ٿو تھ دروھی آ

ھی ڏوھ نھ آھی، ماڻھوءَ جی

مون مثی ٻیھر ڳوھی آ

مان ڏوھی ہاڻ، مان ڏوھی ہان

مون ڪیئی ڏوھ ڪیا آھن

(اس گندے گدلے جوہڑ میں

یہ نیل کنول بھی تو مجرم ہے

ہاں کوئی بھی چکور اندھیرے میں

گر اڑتا ہے تو مجرم ہے

یہ جرم نہیں کہ آدمی کی

میں نے مٹی پھر سے گوندھی ہے

میں مجرم ہوں، میں مجرم ہوں

میں نے کئی جرم کیے ہیں )

لاڑکانہ میں جگدیش آہوجا اکیلے نہیں ہیں، ان کی ساتھ انیتا پنجانی اور استاد خالد کے ساتھ ساتھ شہر کے سینکڑوں اہل علم، اہل دانش، وکلا، صحافی، مزدور اور خاص طور پر طلباء اس کے ساتھ ہیں، یہ سب لوگ مل کر اگلے ہفتے سالانہHEAL Festival منا رہے ہیں۔ Health، Education، Arts and Literature کے سائے تلے منایا جانے والا یہ میلہ اپنی نوعیت کا منفرد میلہ ہے، جہاں ہونے والے ”لاہور لاڑکانہ سے ملتا ہے“ کنسرٹ کے بڑے چرچے ہیں۔ اس تقریب میں پنجاب کے بہت سارے اہل دانش اور لاہور کا مشہور ”لال بینڈ“ اپنے فن کا مظاہرہ کرے گا۔

جگدیش کے دیرینہ دوست سراج قادر کا کہنا ہے کہ ”آہوجا خاندان کا شمار لاڑکانہ کی رائل فیملیز میں ہوتا ہے، خاندان کی مشہور حویلی“ سیتا ولاز ”صدیوں سے اہل دانش و فکر کا مرکز رہی ہے، اس وقت سیتا ولاز جیسا کردار لاڑکانہ میں کوئی اور نہیں ہے۔ آہوجا اس تہذیبی امیر شہر کا شہزادہ ہے، جو ہمیشہ اپنے خاندانی کام امن، سکھ، شانتی اور محبت کا درس دینے میں جٹا رہتا ہے۔

یہ ”سندھو واس“ کیا ہے؟ اس سوال کا درست جواب وہی دے سکتا ہے جس نے یہ لفظ استعمال کیا ہے۔ جواب دیتے ہوئے جگدیش آہوجا کہتے ہیں، انگریزی لفظ Indus Civilization کا سلیس سندھی میں ترجمہ ہے ”سندھو واس“، ہم نے اپنے ادارے کا نام رکھا ہے ”سندھو واس فاؤنڈیشن“ جو احاطہ کرتا ہے سندھو دریا کی جنم بھومی تبت سے لے کر سندھ ساگر تک کا۔ وہ اور تمام سندھی لوگ بحیرہ عرب کو سندھ ساگر کہتے ہیں، اور اس بات کے ان کے پاس دلائل بھی ہیں۔

انڈس ویلی (سنڌو ماٿری) کی پوری تہذیب (سنڌو واس) پر موجود تمام قومیتیں بھلے جاگرافیائی طور پر تبتی، بلتی، گلگتی، پشتون، پنجابی، سرائیکی اور سندھی کے نام سے اپنی اپنی جاگیرافیکل سرحدوں میں رہتے ہوں، مگر اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ بنیادی طور ہم سب ایک ہی تہذیب ”انڈس سولائیزیشن“ سے وابستہ ہیں۔ ہمارہ تاریخی ورثہ ایک ہی ہے، تبت میں گوتم بدھ کے مجسموں سے لے کر ہری پور میں بدھ یونیورسٹی کے آثار، ٹیکسلا اور ہڑپا کے میوزیم سے چلتے موئن جو دڑو کے اسٹوپا تک ایک جیسی تہذیب کے آثار نمایاں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جگدیش آہوجا نے اپنے ادارے ”سندھو واس“ کے مونوگرام میں ”گوتم بدھ کے 8 اصول کی“ علامت 8 کونوں والا دائرہ (دھرم چکر) اور یونی کارن نما ”ایک سینگ والا“ جانور بنایا ہے اور دونوں علامات کے درمیاں نیلی لائن سندھو دریا کی علامت ہے۔ مطلب تبت سے موئن جو دڑو تک ایک ہی تہذیب ہے، اور ہم سب ایک ہیں، اور یہ ممکن ہے جو ہمارا حق بھی ہے۔

یہاں پر گوتم بدھ کے انسان کے لئے جاری کردی 8 اصولوں کا بھی ذکر ہوجائے۔ ہشت پہلو راستہ یا اشٹانگ مارگ وہ آٹھ اصول ہیں جن سے یہ متشکل ہے۔ اشٹانگ مارگ کے یہ اصول نظریاتی کم اور عملی زیادہ ہیں اور یہی ان کا تخصیصی پہلو ہے۔ بدھی افکار کے مطابق نجات کے ضامن ہشت پہلو راستے کے آٹھ ارکان مندرجہ ذیل ہیں :

1۔ سمیک ورشٹی: مناسب نقطہ نظر

بدھ مت کے اپنے روایتی انداز میں اس کا مطلب ہے : ”چیزوں کو اسی طرح دیکھنا جیسی کہ وہ ہیں۔ “

2۔ سمیک سنکلب: مناسب ارادہ

انسان اپنے اندر ایسے خیالات اور جذبات پیدا کرے جو اخلاقی برائیوں مثلاً غصہ، نفرت، لذت پرستی، خود غرضی اور تشدد کی نفی کرتے ہوں۔

3۔ سمیک واک: مناسب گفتگو

یہ رکن نرم گفتاری، راست گوئی اور متوازن اور مدلل گفتار کی تلقین کرتا ہے اور ہر اس بات کے زبان سے ادا کرنے کی مخالفت pr زور دیتا ہے جو شر اور برائی کا سبب ہو۔

4۔ سمیک کرمانتا: مناسب اعمال

ان تمام باتوں سے بچنا جو اخلاقیات میں ممنوع ہیں اور ان تمام اعمال کو سر انجام دینا جو لازم ہیں جیسا کہ ہر جاندار سے ہمدردی، فیاضی اور خدمت خلق وغیرہ

5۔ سمیک اجیوا: مناسب رزق

اپنے رزق سے کمائی ہوئی حلال آمدنی کو استعمال کر کے زندگی بسر اور ناجائز ذرائع سے دولت کمانے کی ممانعت ہے۔

6۔ سمیک ویام: مناسب محنت

اس سے مراد وہ قوت ہے جو پسندیدہ خیالات و جذبات کو پیدا کرنے اور انہیں اختیار کرنے نیز ناپسندیدہ جذبات و خیالات کو ابھرنے سے روکنے اور باطن بدر کرنے کے سلسلے میں سچے بدھی پیرو کو درکار ہوتی ہے۔

7۔ سمیک سمرتی: مناسب حافظہ

مناسب باتوں کو یاد رکھنا اور نامناسب خیالات کو ذہن سے نکال پھینکنا ہے تاکہ بقائمی ہوش و حواس فلاح ذات کی سمت بھرپور کوشش ممکن ہو سکے۔

8۔ سمیک سمادھی: مناسب مراقبہ

یہ آٹھواں عملی اصول بدھ مت کی اہم ترین عبادت ہے کیونکہ گوتم نے نروان کی منزل مراقبہ ہی کی بدولت پائی تھی لہٰذا ان کے مریدین کے لیے بھی ”مناسب مراقبہ“ کے بغیر نجات ممکن نہیں ہے۔ بدھ تعلیمات کے مطابق مراقبہ کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں جو نجات یا نروان کی منزل پر تمام ہوتا ہو۔ (اردو وکیپیڈیا)

کیا پاکستان ”سندھو واس“ کی عملی تصویر نہیں ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے جگدیش آہوجا خوشی نہیں سما رہے تھے، سو فیصد ایسا ہی ہے، یہ پاکستانیوں کی خوش بختی ہے کہ ان سب کو وہ سرزمین ملی ہے جو ہزاروں سالوں سے ان کے آبا و اجداد اور ان کی مشترکہ تہذیب کی دھرتی ہے، ہمیں خوش ہونا چاہیے کہ ہم اکٹھے آباد ہوئے، تقسیم در تقسیم نہیں ہوئے، اس وقت بھی تمام پاکستانی اکائیوں میں حیرت انگیز یکسانیت ہے، یہاں تک کہ ہماری زبانیں شینا، بلتی، ہندکو، پنجابی، سرائیکی اور سندھی ایک ہی مالا کی لڑی میں پروئی ہوئی زبانیں ہیں۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ ہم سب اس بات پر بہت فخر کرتے ہیں کہ ”ہم انڈس سولائیزیشن کے وارث اور امین ہیں۔ “

تو پھر ہماری اکائیوں کے مابین یہ اختلافات اور وسائل پر جھگڑے کیوں ہیں؟ اس سوال کا جواب دیتے جگدیش آہوجا کہتے ہیں ”اگر کھلے ذہن سے اس سچی بات کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں یہ بات سمجھ آجائے گی کہ ہمارے درمیان سارے اختلافات اور جھگڑے صرف سیاسی ہیں، سیاسی طور پر اختلافات کا ہونا اس لئے ہے کہ ہم پر قابض اور مسلط حکمرانوں نے ہمیشہ ہمیں تقسیم کیا۔ راجا سہاسی کے دور میں تو کشمیر سے لے کر ملتان اور دیبل تک ایک حکمران اور ایک عوام رہا، راجا ڈاہر کے دور تک کشمیر الگ ہوچکا تو سندھ کی سرحدیں ملتان تک رہ گئیں۔ جغرافیائی طور پر ہزاروں سال علیحدہ رہنے سے ایسے سیاسی خیالات نے جنم لیا کہ ہم اور ہمارے مفادات ایک نہیں۔

ہم اگر سندھ اور پنجاب کو بھی تہذیبی طور پر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ہمارے تہوار، لباس، رزمیہ اور عشقیہ داستانیں اور قومی ہیروز تک ایک یا ایک جیسے ہیں۔ راجا پورس اور راجا ڈاہر، ہیموں کالانی اور دلا بھٹی، سورہیہ بادشاہ پیر پگاڑہ اور رائے احمد خان کھرل کی بہادری اور وطن دوستی کے کارناموں سے لے کر شاہ عبداللطیف بھٹائی اور وارث شاہ، سچل سرمست اور بلھے شاہ، سنت سامی اور خواجہ فرید کی شاعری میں ملنے والے پیغامات کیا بالکل ایک جیسے نہیں۔ اگر سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کیا جائے تو پنجاب اور سندھ کے درمیاں کوئی بھی ”تہذیبی اختلاف نہیں ہے، ہاں یہ بات درست ہے کہ سیاسی اختلافات بہت ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اب ہم کو سوچنا چاہیے کہ کیا ہم تہذیبی بنیادوں پر ایک ہوسکتے ہیں۔ “

پنجاب کے اہل دانش لوگ بھی اس بات سے انکار نہیں کرتے، نامور سیاستدان قانوندان اور دانشور اعتزاز احسن نے اپنے کتاب ”Indus Saga“ میں کم و بیش یہی باتیں کی ہیں۔ پنجاب کے نامور شخصیت منو بھائی نے تو ہم کو اک ملاقات میں بتایا تھا ”میری خواہش تھی کہ اس ملک کا نام پاکستان نہیں، سندھ ہونا چاہیے تھا، ہمیں مذہبی اور سیاسی طور پر تقسیم کرنے کے بجائے تہذیبی طور پر تقسیم کیا جاتا تو بہت اچھا ہوتا، “ اک طرف ہند تو دوسری طرف سندھ ”، اس سے ہمیں سندھو واس سے انسیت کا بھی موقع ملتا، اور دنیا کے تہذیب یافتہ ممالک سے سامنے ہماری پہچان اور حیثیت بہت اعلیٰ اور ارفع ہوتی۔ “

دانشور اور سیاستدان فخر زمان جیسے پنجاب پرست بھی جب اپنی ”پنجاب، پنجابی اور پنجابیت“ لکھتا ہے تو سندھ اور پنجاب کے مشترکہ دانش کی بات ان الفاظ میں کرتا ہے کہ ”ایسا لگتا ہے کہ (پنجاب میں ) ہیرو کا تصور بھی ہمیں سندھ کی قومی جدوجہد سے ملا۔ سندھی ادبی سنگت کی تقلید میں ہم نے چند برسوں کے بعد ”پنجابی ادبی سنگت“ قائم کی۔ وہاں سے راجا داھر کا نعرہ بلند ہوا تو ہمارے لوگوں نے بھے ہیرو کا سوال اٹھایا۔ وہاں“ بزم صوفیا سندھ ”کے کارکنوں نے اپنی مادروطن کے ساتھ اپنی وحدت الوجود کا اعلان کیا تو پنجاب کی یہ تحریک بھی پنجاب کے ساتھ اپنے وحدت الوجود کا اظھار کیے بغیر نہ رہ سکی۔ “

یہی بات تو ہم کرتے ہیں پنجاب اور سندھ ایک دوسرے کے ساتھ دانش، صوفی ازم، ادب، رقص، موسیقی، فن، کتابت، شاعری یہاں تک کے مذہبی طور پر ساتھ یا ایک جیسے رہے ہیں۔ بدھ ازم، ہندو ازم اور بعد میں اسلام جیسے مذاہب جب ایک خطے میں پہنچے تو دوسرا بھی اس سے متاثر ہوئے بغیر رہ نہ سکا۔ ہمارے تو مرشد اور محبوب بھی ایک ہیں۔

تاریخ میں جب بھی سندھ پر کسی جابر نے قبضہ کیا ہے چند سال بعد اسی نے پنجاب پر قبضہ کیا ہے، اور جس کی بھی پنجاب پر بری نظر رہی سندھ بھی اس سے سہما رہا۔ مغلوں سے لے کر انگریزوں تک پنجاب اور سندھ کے اصل حکمران ایک ہی رہے۔ اب جب ہم ایک آزاد وطن پاکستان میں رہتے ہیں تب ہمارے درمیاں نئے رشتے کے ساتھ بہت سارے اختلافات نے بھی جنم لیا ہے، مگر وہ سارے سیاسی اختلافات ہیں۔ ”سندھو واس“ ان تمام سیاسی معاملات اور اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر صرف ایک تہذیب کی بات کرتا ہے، جہاں ہم سب ایک ہیں، جہاں ہمارے درمیاں کوئی اختلاف نہیں بلکہ بہت ساری یکسانیاں اور قربتیں ہیں۔

لاڑکانہ کے اس میلے میں آرٹ، دستکاری، وال پینٹنگ، موسیقی، موسیقی، ادب، تعلیم، واک، مذاکرے، ڈرامے، فنی نمائشوں کی کئی تقاریب رکھی گئی ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ساری تقاریب صرف لاڑکانہ میں نہیں بلکہ اس کے ساتھ موئن جو دڑو، قمبر، میھڑ، گھوگھارو اور دوسرے قصبوں میں بھی منعقد ہوگئیں۔ ان تقریبات میں پنجاب اور سندھ کے دانشور اور اہل علم حضرات شرکت کریں گے۔

ایسی تقریبات کا انعقاد اگر سرکاری سطح پر ملک کے اہم شہروں میں بھی ہو تو کیا بات ہے۔ لاڑکانہ ہی کے قلمکار استاد خالد کا کہنا ہے کہ ”یہ ممکن نہیں، تہذیب اور قومی تشخص کے بجائے مذہبی بنیادوں پر بنی اس ریاست میں ایسا اس لئے بھی ممکن نہیں کہ ہزاروں سال جابروں اور قابضوں کے ساتھ یا زیر تسلط رہنے کے بعد خود ہمارے لیڈروں کی طرز حکمرانی جابرانہ اور قابضانہ بن گئی ہے، اور مُلا اس کے ساتھ ہے، وہ تہذیب کی بات تسلیم کریں گے تو ان کی چھاونی اور مذہبی دکانیں تو بند ہوجائیں گی۔ “

۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).