حساس اداروں کو کب احساس ہو گا؟


پتہ نہیں کس ستم ظریف نے خفیہ اداروں کو اخباری اصطلاح میں حساس ادارے کہنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ خفیہ ادارے کہنے میں کیا مضائقہ تھا؟ اردو لفظ حساس کا لفظی معنی سے دردِدل رکھنے اور زیادہ احساس کرنے والا چہرہ ذہن میں ابھرتا ہے۔ ہم مثبت سوچتے رہیں تو مثبت ہی نظر آتا رہے گا، ہم مثبت ہی لکھتے رہیں تو لوگ مثبت ہی پڑھتے رہیں گے۔ لیکن برا ہو ان ویڈیو کیمروں اور موبائل فونز کا جو جانے کس روزنِ دیوار سے ایسی ایسی فوٹیج بنا لیتے ہیں کہ اچھی بھلی پریس ریلیز کا بیڑہ غرق ہو جاتا ہے۔ کیسے کیسے عالی مقام وزیر کے بیان کی سبکی ہو جاتی ہے۔ اور لفظ حساس کا تاثر کسی ظالم چہرے سا بننے لگتا ہے۔

زیادہ تفصیل میں جائے بغیر، اور یاد داشت پہ زیادہ زور دیے بغیر چند واقعات صرف یاد دہانی کے لئے عرض ہیں۔

اٹھارہ مئی 2011 کو کوئٹہ کے علاقے خروٹ آباد میں پانچ چیچن باشندے جن میں دو خواتین بھی شامل تھیں، کو خود کش بمبار قرار دے کر قتل کر دیا گیا اور اگلے روز اخبارات میں خبر بھی یہی چھپی۔ مجھے یاد ہے کہ اس خبر کے پہلے تاثر کے نتیجے میں ذہن میں برادر مسلم امہ کی احسان فراموشی کا ہیولہ سا بنا تھا۔ برا ہو ان ٹی وی فوٹیجز کا جس نے پوری کی پوری پریس ریلیز کا بیڑہ غرق کر دیا۔ فائرنگ کے پہلے سلسلے کے بعد ابھی مبینہ دہشت گرد زندہ تھے اور رحم کی اپیل کر رہے تھے اور ایف سی اہلکار شاید اگلی ہدایات کا انتظار کر رہے تھے، اس اثنا میں کسی نے ویڈیو بنانی شروع کر دی اور اس کے بعد فائرنگ کا دوسرا سلسلہ شروع ہوا اور خود کش بمبار جو شاید اپنے ہتھیار اور جیکٹس گھر بھول آئے تھے اور بالکل نہتے تھے اپنی جانوں سے گئے۔ اس واقعے پر بھی کچھ اہلکار معطل ہوئے تھے، تحقیقاتی کمیٹی بھی بنی تھی، پتہ چلا کہ بیچارے سیستانی باشندے اپنی جان بچانے اور روزگار کی تلاش میں یہاں پہنچے تھے۔ اور پھر نسیان کے قومی عارضے میں مبتلا عوام بھول گئے!

2011 میں ہی سرفراز شاہ نامی 22 سالہ نوجوان جو تین بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا کو رینجرز نے مسلح دہشت گرد قرار دے کر قتل کر دیا۔ سما ٹی وی کے کیمرہ مین، جس نے چھپ کر ویڈیو بنائی، نے ایک بار پھر پریس ریلیز کا سوا ستیا ناس کر دیا۔ ویڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا تھا کہ نوجوان کو سادہ لباس میں ملبوس ایک اہکار بالوں سے پکڑ کر لایا اور باوردی اہلکاروں کے آگے کھڑا کر دیا، نوجوان ہاتھ جوڑ کر رحم کی اپیل کرتا رہا لیکن رینجرز اہلکاروں نے اسے سیدھے فائر کر کے قتل کر دیا۔

شاہد ظفر نامی رینجرز اہکار اور دیگر پر مقدمہ بنا، گرفتار ہوئے اور سندھ ہائی کورٹ سے شاہد ظفر کو سزائے موت ہوئی جو سپریم کورٹ میں معطل ہوئی اور بعد ازاں صدر مملکت نے شاہد ظفر کو معافی دے کر رہا کر دیا۔ مثبت تخیل یہ کہتا کہ شاہد ظفر اپنے عہدے پر بحال بھی ہوا ہو گا۔ اور اگلی بار کیمرہ مین کی ممکنہ موجودگی کا سد باب یقینی بنانا نہیں بھولے گا۔

جون 2014، منہاج القرآن مرکز کے باہر پولیس اہلکاروں نے سیدھی فائرنگ کر کے ایک حاملہ ماں سمیت چودہ افراد کو قتل کر دیا۔ اس پر بھی انکوائریاں ہوئیں، معطلیاں ہوئیں۔ لیکن آج تک سوائے گلو بٹ کے کسی کو سزا نہیں ہوئی۔ گلو بٹ بھی بعد ازاں رہا ہو گیا تھا۔ اس واقعے کی تفصیلات آپ کی معلوم ہیں اس لئے زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں۔ اسی طرح نقیب اللٰہ محسود کے قتل کی جزیات سے بھی آپ اگاہ ہیں۔

اب ساہیوال کے واقعے نے دل چیر کر رکھ دیا ہے۔ معصوم منیبہ، ہادیہ اور عمیر کے چہرے دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ یہ بچے میرے اور آپ کے بھی ہو سکتے تھے، خلیل کی جگہ میں اور آپ بھی ہو سکتے تھے۔ ذیشان جیسا کوئی دوست کسی کا بھی ہو سکتا تھا۔ اس واقعے کے بعد جس قسم کی صفائیاں پیش کی جا رہی ہیں، سی ٹی ڈی کی مضحکہ خیز پریس ریلیزیں، صوبائی وزیر قانون کی جاہلانہ گفتگو، اور عثمان بزدار کی مزاحیہ اینٹری صورتحال کو مزید گھمبیر بنا رہی ہیں۔

کوئی ہے پوچھنے والا؟ کوئی ہے جس سے سوال کیا جا سکے؟ جے آئی ٹی بنی ہے، اور اس کا جو انجام ہو گا وہ پوری قوم جانتی ہے۔ کون سا قانون اس طرح کے قتل عام کی اجازت دیتا ہے؟ وہ بھلے سے دہشت گر بھی ہوتے، جب انہوں نے گاڑی روک دی تھی تو بچوں کو باہر نکال کر باقاعدہ اہتمام سے سیدھے فائر کرنے کا کون سا قانون ہے؟ بچوں کو بھی مار دیتے۔ انہوں نے اب ایسی زندگی کا کرنا بھی کیا ہے؟ ہر اس شخص کو بھی مار دیتے جس نے اس واقعے کی فوٹیج بنائی۔ ہر اس آواز کو بھی دبا دیتے جو ان معصوموں کے نوحے پڑھتی ہے۔ ہر اس لفظ کو بھی مٹا دیتے جو ان یزید صفت اہلکاروں کے خلاف لکھا گیا ہے؟ کون سا قانون ایسے جنونی درندوں کے ہاتھ میں بندوق دیتا ہے؟ ہمارے ادارے جب مہینوں اور سالوں پر محیط ٹریننگ کرواتے ہیں تو کیوں نہیں انہیں بندوق چلانے کے ممکنہ طریقے سمجھاتے۔ کیوں انہیں یہ نہیں بتاتے کہ یہ بندوق نہتے شہریوں پر چلانے کے لئے نہیں ہے۔ کیوں نہیں آپ ان جاہلوں کے لئے کوئی ماہر نفیسیات رکھ لیتے؟

کیوں نہیں آپ اپنے مخبری کے نظام کو ٹھیک کرتے؟ فرض کیجئیے کہ واقعی مخبری تھی، اب کوئی اس غلط مخبری کرنے والے کو بھی ایسے مارے گا؟ کوئی اس پر بھی مقدمہ چلائے گا؟ پھر مان لیجیے کہ مخبری درست بھی ہو، مہر خلیل اور ذیشان داعش کے خلیفہ ابو بکر بغدادی کے دست راست ہی کیوں نہ ہوں، کیا ان کے بیوی بچے بھی قصور وار تھے؟ کیا اس کی گیارہ سالہ بیٹی کا لہو بھی دہشت گرد تھا؟ کیا اس کے کلاس فیلو ایک نفسیاتی شاک سے نہیں گزریں گے؟ اور وہ تین ننھے پھول۔ منیبہ، ہادیہ اور عمیر۔ جن کے چہرے دیکھ کر آنسو نہیں تھمتے۔ ان کا کیا قصور تھا؟ اور کیا اب آپ کے دو کروڑ روپے سے وہ تینوں ایک نارمل زندگی گزار سکیں گے؟ کیا وہ تینوں اب ریاست کو ماں کے جیسی سمجھنے لگیں گے؟ یا ایک ظالم درندہ جس نے ان کے ماں باپ اور بڑی بہن کو چھین لیا؟

ہم نے مان لیا کہ قانونی نظام پیچیدہ ہے۔ دہشت گردوں کو سزائیں بھی نہیں ہوتیں۔ بھائی فوجی عدالتیں بھی تو آپ نے ہی بنائی ہیں، مجرموں اور دہشت گردوں کو پھانسیاں بھی آپ نے دی ہیں۔ پوری قوم آپ کے پیچھے کھڑی ہوئی اور دہشت گردی میں کمی کا پورا کریڈٹ آپ کو دیا۔ اب اگر جو باقی ماندہ قوانین ہیں، پولیس، سپیشل برانچ اور سی ٹی ڈی وغیرہ کے تو ان کو بھی بدل دیجئے ناں۔ ایک ہی بار ہمیں کیوں نہیں بتا دیتے کہ کسی بھی شہری کہ کسی بھی وقت قتل کیا جا سکتا ہے۔ پھر جو باہر نکلے اپنی ذمہ داری پر نکلے۔

اس دلخراش واقعے کے بعد سیاسی پوائنٹ سکورنگ اپنی بد ترین شکل میں سامنے آئی۔ کچھ لوگ اسے پی ٹی آئی کی ناکامی قرار دے کر استعفے مانگ رہے ہیں اور کچھ لوگ اس خرابے کو بھی شہباز شریف کے دور کی تربیت کا شاخسانہ قرار دے رہے ہیں۔ استعفٰی دینے کا تو بھائی اپنے دیس میں رواج ہی نہیں۔ یہاں ٹرین حادثے کے بعد وزیر کہہ دیتا ہے کہ میں کون سا ٹرین چلا رہا تھا۔ یہاں لوگ کہتے ہیں کہ الزام پر استعفیٰ کیوں دوں پہلے عدالت میں ثابت کرو، جب ثابت ہو جائے تو لوگ کہتے ہیں زیادتی ہو گئی، اپیل کریں گے۔

اس لئے استعفیٰ وغیرہ کو تو بھول جائیے۔ باقی ناچیز اتنا تو آپ کو بتا سکتا ہے کہ جے آئی ٹی کی پہلی رپورٹ آنے تک ہم اور آپ اس واقعے کو بھول کر کسی نئے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگ چکے ہوں گے۔ اور باقی رہی سزا وغیرہ۔ تو یاد رکھیں اگر واقعی کسی نے سزا دینی ہوتی تو ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف نہ ہوتی۔ خیر شاہد ظفر نامی رینجرز اہلکار تو نامزد بھی ہوا تھا اور سزائے موت بھی ہوئی تھی لیکن معافی اور رہائی مل گئی تھی تو کیا بعید کہ فائرنگ کے دلدادہ ان درندوں کو بھی عام معافی مل جائے۔ ہم اور آپ اتنے حساس تو ہیں نہیں کہ اس واقعے کے زخم لے کر سالہا سال تک اس مقدمے کی پیروی کریں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).