صحافیوں سے نمٹنے کا غلط طریقہ


دہائیوں پرانی بات ہے جب اگاتھا کرسٹی کے ناول اور اس کی مختصر کہانیاں پڑھنا لازم تھا۔ اس کے چند ناولوں کی تلخیص کی، کہانیوں کا ترجمہ کیا۔ اسی کی تحریریں پڑھ کر یہ جانا کہ قابیل سے اب تک کسی بھی قاتل کا جرم نہیں چھپتا اور ایک نہ ایک دن فاش ہو کر رہتا ہے۔

یہ بات بھی جانی کہ قاتل کو عدالت سے سزا دلانے کے لیے مقتول کی لاش اور آلۂ قتل کا برآمد ہونا بنیادی بات ہوتی ہے۔ امریکا کی شہریت اختیارکرنے والے صحافی خویشگی کے قاتلوں کو بھی یہ نکتہ معلوم تھا اور اسی لیے انھوں نے اس کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کی کمال منصوبہ بندی کی۔ ان کا خیال تھا کہ جب ترک پولیس جمال کی لاش کا کھوج نہیں لگا سکے گی اور نہ آلۂ قتل برآمد ہوگا تو آخرکار معاملہ داخلِ دفتر ہو جائے گا اورکچھ دنوں بعد لوگ اسے بھول جائیں گے۔

شاہی نظام میں سانس لینے والے اس قتل کو اپنے نقطہ نظر سے دیکھ رہے تھے انھیں آزاد دنیا کے معاملات کا درست اندازہ نہیں تھا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ آج کی دنیا میں صحافی اور وہ بھی امریکی اخبار سے وابستہ ایک نامی گرامی صحافی کی جان کس قدر اہم ہے، انھوں نے اس بارے میں نہیں سوچا تھا، یہ بات بھی ان کے حاشیۂ خیال میں نہیں آئی تھی کہ ترک صدر رجب اردوان اس دہشتناک جرم کو کس طرح اپنا قد وقامت بڑھانے کے لیے استعمال کریں گے، حالانکہ خود ان کے ملک میں جہاں صحافیوں اور حقوقِ انسانی کی بات کرنے والوں پر عرصۂ حیات تنگ ہے، وہاں سے جمال خویشگی کی گمشدگی اور پھر قتل پر جس قدر شوروغوغا ہوا اس نے ساری دنیا میں تہلکہ مچادیا۔

بہت مشہور محاورہ ہے کہ دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔ یہ محاورہ جمال کے قتل پر حرف بہ حرف صادق آیا اور جس قونصل خانے میں اس کا قتل ہوا تھا، وہاں کی دیواروں نے سب راز اُگل دیے۔ یہ راز 3 ترک صحافیوں عبدالرحمن سمسک، نازف کرمان اور فرحت انلو نے چند دنوں پہلے شایع ہونے والی مشترک کتاب میں بیان کردیے ہیں۔ یہ بات شروع سے کہی جا رہی تھی کہ اسے قتل کرنے والوں کا گروہ 15 لوگوں پر مشتمل تھا اور جن کے فرائض میں داخل تھا کہ وہ گستاخ زبانوں کو سلیقے سے خاموش کر دیا کریں۔

استنبول میں بھی ان لوگو ں نے اپنی ہنرمندی دکھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لیکن ترک محکمۂ خفیہ نے عمارت کی دیواروں میں اور باہر کے علاقے میں سننے والے آلات لگا رکھے تھے۔ ان آلات نے یہ راز آشکار کیا کہ اس گستاخ کے بارے میں یہ فیصلہ پہلے سے کر لیا گیا تھا کہ جب وہ اپنے پاسپورٹ پر مہر لگوانے کے لیے قونصل خانے کی عمارت میں داخل ہو گا تو اس سے کہا جائے گا کہ ہم تمہیں اپنے ساتھ لے جانے کے لیے آئے ہیں۔ تمہیں ہمارے ساتھ چلنا ہو گا اور اگر وہ جانے سے انکار کرے تو اسے قتل کر دیا جائے گا اور پھر لاش فوری طور پر ٹھکانے لگا دی جائے گی۔

ریکارڈنگ کے مطابق خویشگی جیسے ہی قونصلیٹ کی اندرونی عمارت میں داخل ہوا، دو لوگوں نے اسے بازوؤں سے پکڑ لیا جس پر خویشگی نے تیز آواز میں کہا ’’یہ تم لوگ کیا کر رہے ہو، میرے بازو چھوڑو‘‘ اس کے احتجاج پر اس سے کہا گیا کہ ’’تم ہمارے ساتھ چلو ۔ ہم تمہیں لینے کے لیے آئے ہیں ۔‘‘ اس نے جب ان لوگوں کے ساتھ جانے سے انکارکیا تو اس سے کہا گیا کہ وہ اپنے بیٹے کے نام ایک پیغام لکھ دے۔ پیغام میں اسے لکھنا تھا کہ ’’بیٹے ! میں استنبول میں ہوں اور اگر چند دنوں تک میں تم سے رابطہ نہ کر سکوں تو پریشان نہ ہونا۔‘‘

مقتول نے جب یہ پیغام لکھنے سے انکار کیا تو قاتلوں اور اس کے درمیان ہاتھا پائی شروع ہو گئی۔ چند ہی لمحوں میں انھوں نے اُسے زیر کرلیا۔ اس کے چہرے پر پلاسٹک بیگ چڑھا دیا گیا جس سے اس کا دم گھٹ رہا تھا، اس نے ہاتھ پیر مارنے کی کوشش کی لیکن اس کی ایک نہ چلی، اس کی آواز سنائی دیتی ہے۔ بعد میں وہ یہ کہہ رہا ہے کہ ’’میرا دم گھٹ رہا ہے۔ مجھے چھوڑو۔ میں دمے کا مریض ہوں۔ تم مجھے مار دو گے۔ ‘‘

ٹیپ پر بدن کے تڑپنے کی آوازیں بھی ریکارڈ ہوئی ہیں۔ اس کے بغدے سے بدن کے جوڑ توڑے جا رہے ہیں۔ پوسٹ مارٹم میں استعمال ہونے والی برقی آری کی آواز بھی آ رہی ہے۔ ریکارڈنگ میں اس کا تڑپنا اور پس منظر میں قصائیوں کے اوزاروں کی اٹھا رکھ کی آوازیں آ رہی ہیں۔

ایک شخص جس نے شاید ایسے کسی منظر کو پہلے نہیں دیکھا تھا، اس کی طبیعت خراب ہونے لگتی ہے تو دوسرا اسے تیز آواز میں ڈانٹتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے اب تک کسی گرم لاش کے ٹکڑے نہیں کیے ہیں، لیکن اس مرتبہ یہ بھی کر لوں گا۔ پھر فرش پر پلاسٹک کے بچھائے جانے کی اور اس پر کسی بدن کے گرانے کی آواز آتی ہے۔ وہ شخص جو بدن کے ٹکڑے کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ’’ میں عام طور پر یہ کام کرتے ہوئے اپنے کانوں پر ہیڈ فون چڑھا لیتا ہوں اور موسیقی سنتا ہوں۔ اس کے ساتھ ہی کافی اور سگریٹ پیتا رہتا ہوں۔‘‘ اس دوران برقی آری کی آواز آتی رہتی ہے۔ لاش کے ٹکڑے کرتے ہوئے وہ شخص اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے کہ وہ ان پارچوں کو اچھی طرح پلاسٹک میں لپیٹ لیں تا کہ کسی طرح کی بدبو نہ آئے۔ اس کے بعد یہ ٹکڑے قریب کی ایک عمارت کے کنویں میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ اس کی لاش کے ٹکڑے تیزاب میں گلادیے گئے تاکہ تحقیق و تفتیش کے دوران کسی بھی طور لاش کا سراغ نہ مل سکے۔

اس ہولناک تفصیل کو پڑھتے ہوئے اگاتھاکرسٹی کا ایک ناول یاد آیا جس میں قاتل نے فریزر سے نکلی ہوئی ایک یخ بستہ بوتل کو سر پر مارکر ہلاک کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ کچھ ہی دیر میں برف پگھل گئی تھی اور آلۂ قتل معدوم ہو گیا تھا۔ اس کے قتل میں آلۂ قتل ایک پلاسٹک بیگ تھا اور بدن کے ٹکڑے تیزاب میں تحلیل کر دیے گئے یا کسی کنویں کی تہ میں گل سڑ گئے۔

کتاب لکھنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ قتل اتنی پھرتی اور صفائی سے کیا گیا کہ یہ اس سارے کام کے ختم ہونے تک صرف دس منٹ لگے۔

یہ کتاب چھپ کر آئی تو راتوں رات فروخت ہو گئی۔ آنے والے دنوں میں بھی مقتول اپنے قاتلوں کا تعاقب کرے گا۔ ہو سکتا ہے کہ آلۂ قتل اور لاش کے نہ ملنے کے سبب بعض عدالتی کارروائیاں نہ ہو سکیں لیکن یہ ضرور ہے کہ اس قتل نے دنیا میں لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ وہ ملک جہاں محکمۂ خفیہ بے لگام ہے، وہاں متعلقہ حکام کو بہت سوچ سمجھ کر ایسے معاملات کو نمٹانے کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔ وہ اپنے حکمرانوں کے حکم پر سب کچھ کر گزرتے ہیں لیکن اب انھیں یہ ضرور سوچنا ہو گا کہ ایسے کسی بھی حکم کو بجا لانے کے بعد ان کا کیا ہو گا۔ اس صحافی کے قتل میں ملوث 11 اہلکاروں کی گرفتاری کی خبریں آ چکی ہیں۔

ترکی نے مطالبہ کیا تھا کہ ملزمان ترک حکومت کے حوالے کیے جائیں کیونکہ قتل ترک سر زمین پر ہوا ہے۔ آیندہ کیا ہو گا، کوئی بھی کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن صحافیوں کو اپنے انداز میں ’’سزا‘‘ دینے والوں کو آیندہ قدرے سوچنا ہو گا کہ وہ اپنے مخالفین صحافیوں سے کس طرح نمٹیں۔

بشکریہ روز نامہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).