مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے


سانحہ ساہیوال کوتین دن گزرگئے، مگر پوری قوم نفسیاتی طور پر صدمے سے باہر نہیں نکل سکی۔ جب بھی مرنے والے خلیل کے معصوم بچوں کی تصویریں ٹی وی پر دیکھتا ہوں تو آنکھوں میں آنسوؤں کا سیلاب امڈ آتا ہے۔ سوچتا ہوں کہ ان معصوم پھولوں کو کیا پتہ کہ ان کے والدین کو کس جرم کی پاداش میں نہایت سفاکی سے قتل کردیا گیا۔ جب پہلی مرتبہ ٹی وی پر خبر نشر ہوتی دیکھی تو اس کا متن کچھ یوں تھا کہ سی ٹی ڈی نے کارروائی کرتے ہوئے اغوا کاروں سے بچے بازیاب کروا لئے، لیکن چند لمحوں بعد یہ خبر ٹی وی پر نشر ہوئی کہ سی ٹی ڈی نے ساہیوال میں آپریشن کرتے ہوئے چار دہشت گردوں کو ہلاک کردیا، دہشت گرد بچوں اور عورتوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔

چند لمحے مزید گزرنے کے بعد سوشل میڈیا پر بہیمانہ قتل کی متعدد ویڈیوز منظر عام پر آ گئیں۔ جس نے سی ٹی ڈی کے مبینہ مقابلے کا پردہ چاک کر دیا۔ ویڈیوز چیخ چیخ کر یہ بتا رہی تھیں کہ جاں بحق افراد کی جانب سے کسی قسم کی کوئی مزاحمت نہیں کی گئی، نہ ہی گاڑی کا پچھلا شیشہ کالا تھا۔ جس کی وجہ سے سی ٹی ڈی اہلکار گاڑی میں سوار بچوں اور خاتون کو نہیں دیکھ سکے، اور انہوں نے اندھی گولیاں پر سادیں۔ ایک طرف جہاں ظلم کا بازار گرم تھا۔

تو دوسری جانب جاں بحق ہونے والے خلیل اور ذیشان کے لواحقین لاہور کی سڑکوں پر احتجاج کرکے سرعام گواہی دے رہئے تھے، کہ قتل کیے گئے افراد دہشت گرد نہیں بلکہ پر امن شہری تھے۔ مگر حکومتی وزراء اب بھی اس بات پر قائم ہیں کہ ذیشان دہشت گردتھا۔ اور خلیل کی فیملی کے قتل کو کولیٹرل ڈیمج قرار دینے کی کوشش کی گئی۔ دکھ اس بات کا تھا، کہ آج پاکستان کا وزیراعظم عمران خان تھا۔ وہ عمران خان جس نے مجھ سے ریاست مدینہ بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ عمران خان جس نے مجھ سے انصاف کا نظام رائج کرنے کا کہا تھا۔ وہ ہی عمران خان جس نے مجھ سے پولیس کلچر تبدیل کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن اس سانحہ کے بعد وہ سب وعدے ٹوٹ گئے۔

میرے فلاحی ریاست دیکھنے کے سب خواب بکھر گئے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے وزرا کا بھی وہی رویہ سامنے آیا جو ان سے پہلے حکمرانوں کا تھا۔ جیسے جائز طور پر ہر ذی شعور انسان کی جانب سے تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک طرف حکومت معاملے کی تحقیقات کے لئے جے آئی ٹی بنا چکی ہے تو دوسری جانب یہ سوال بھی اہم ہے کہ وہ قانون نافذ کرنے والے ادارے جن کے اہلکاروں نے اس اندہوناک واقع کو انجام دیا ہے۔ کیا وہ آزادانہ اور منصفانہ تحقیقات کر سکیں گے؟ تین دن گزرنے کے بعد جی آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ کی روشنی میں سی ٹی ڈی اہلکاروں کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات کے علاوہ سی ٹی ڈی کے اعلی افسران کو عہدوں سے ہٹانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ جے آئی ٹی کی تحقیقات خلیل کی فیملی کو بے گناہ تصور کرتی ہے۔ مگر دوسری جانب صوبائی وزیر قانون سانحہ ساہیوال کے آپریشن کو سو فیصد درست سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک ذیشان دہشت گرد تھا۔ جس کی تفصیلات وہ میڈیا کو کل ان کیمرہ بریفنگ میں دیں گے۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا جو معلومات میڈیا کے ساتھ شیئرکی جائے گی وہ عام آدمی تک کیوں نہیں پہنچنی چاہیے۔ معلومات کی فراہمی میں شفافیت کا فقدان کیوں ہے۔ دوسری جانب وزیر قانون کی پوری بات کا سادہ مطلب یہ ہے کہ جن سی ٹی ڈی اہلکاروں کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ چلے گا۔ وہ کچھ عرصے بعد کو لیٹرل ڈیمج کے نام پر چھوٹ جائے گے۔ اور کہا یہ جائے گا کہ دہشت گرد کو مارنے کے لئے بد قسمتی سے بے گناہ خاندان کو بھی گولیوں کا نشانہ بننا پڑھا۔ اہلکاروں کی آپریشن کے وقت نیت ٹھیک تھی اور کسی شخص کو کوئی سزا نہیں ہوگی۔

پاکستان کی تاریخ میں مبینہ پولیس مقابلے کا یہ کوئی پہلا واقع نہیں تھا، مگر سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی۔ کہ وہ مسلم لیگ ن جس کے دور میں سانحہ ماڈل ٹاؤن میں پنجاب پولیس نے چودہ بے گناہ انسانوں کو قتل کیا۔ وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں منافقت پر مبنی مذمت کر رہی تھی۔ جس پیپلزپارٹی نے راؤ انوار جیسے جعلی پولیس مقابلوں کے ماسٹر مائند کی پشت پناہی کی وہ بھی قومی اسمبلی میں گلے پھاڑ پھاڑ کر تحریک انصاف کو انسانیت یاد کرا رہی تھی۔ دونوں سیاسی جماعتوں کے منافقانہ موقف کو دیکھ کر دل سے ایک ہی آواز آرہی تھی کہ اگر سانحہ ماڈل ٹاؤن کے لواحقین کو انصاف مل جا تا تو آج شاید کسی کو جعلی مقابلے کرنے کی ہمت نہ ہوتی۔ ایک نقیب اللہ محسود کے لواحقین کو انصاف مل جا تا تو کسی قانون نافذ کرنے والے ادارے اہلکاروں کو دہشت گردی کا لیبل لگاکر معصوم جانوں کو قتل کرنے کا موقع نہ ملتا۔

ایک طرف تحریک انصاف کی حکومت کے لئے جہاں یہ سانحہ بہت بڑا سوالیہ نشان ہے تو وہی عمران خان کے لئے ایک ٹیسٹ کیس بھی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کیا عمران خان مبینہ مقابلے میں شامل افراد کو نشان عبرت بنا سکیں گے یا نہیں۔ مگر دو ایف آئی آرز کے انداراج، وزیر قانون کی پریس کانفرنس، جے آئی ٹی کی تشکیل اور صوبائی وزیر قانون کی پریس کانفرنس سے معلوم یہ ہوتا ہے۔ کہ عمران خان کی نیت کتنی ہی نیک کیوں نہ ہوں وہ انصاف دینے میں اسی طرح ناکام ہو گے جس طرح گڈ گورننس دینے میں ناکام رہے۔

اس وقت پاکستانی میڈیا قانون نافذ کرنے والے ادروں کی کارروائی کو کڑی تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں پریہ تنقید بالکل ہونی چاہیے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ میڈیا کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اس کردار کو بھی یاد رکھنا چاہیے۔ جس کی بدولت آج اس ملک میں کسی حد تک امن قائم ہوا ہے۔ انھیں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کی قربانیوں کی وجہ سے ہم نے دہشت گردی کے خلاف کافی حد تک جنگ جیتی ہے۔

ہم برے کام کو برا ضرور کہں۔ مگر اچھے کاموں کی تعریف بھی کریں۔ مجرموں کو سزا ملنے سے یتیم بچوں کے والدین واپس تو نہیں آئے گے۔ مگر دکھی دلوں کو قرار ضرور آ جائے گا۔ پولیس اصلاحات کے نافذ سے خلیل کے یتیم بچوں اور ذیشان کی بوڑھی ماں کی دنیا تو واپس نہیں آسکے گی۔ مگر یہ یقین سے کہ سکتا ہوں کہ اس قوم کے کئی خلیل کئی ذیشان ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بننے سے بچ سکتے ہیں۔ جمہوریت اور سویلین بالادستی کا نعرہ لگانے والے سیاستدانوں کے لئے یہ بات لمحہ فکریہ ہے کہ لواحقین کو ان کی بنائی ہوئی جے آئی ٹی پر کوئی اعتماد نہیں ہے۔ وہ انصاف کے لئے اس وقت چیف جسٹس اور آرمی چیف کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ پتہ نہیں کوئی ان بے کس لوگوں کی فریاد سنے گا یا نہیں۔ کیونکہ فریاد سننے والے چیف جسٹس ثاقب نثار اب ریٹائر ہو چکے۔ مگر حکمرانوں کو یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ کفر کا نظام چل سکتا ہے مگر ظلم کا نظام نہیں چل سکتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).