ابن مریم جیسے آدمی۔۔۔ تجھے سلام!


کیا ایدھی صاحب پنجابی کے اس شعر سے واقف تھے؟\"muhammad

میری نکی جہی جاں اے

تے سارا شہر واپاری اے!

ہوسکتا ہے کے ایدھی صاحب نے کبھی یہ شعر سنا بھی ہو اور کبھی موڈ میں آکر اس کو گن گنایا بھی ہو اور اپنی مصروفیت دیکھ کر ٹھنڈی آہ بھر کر رہ جاتا ہو کیوں کہ ایدھی صاحب بھی انسان تھے بلکہ عظیم انسان تھے ان کو تو عام انسان کے مقابلے میں زیادہ فنونِ لطیفہ سے محبت ہوگی لیکن مصروفیت۔۔۔ اور ایسی مصروفیت کہ آدمی کو کچھ خیال نہیں رہتا۔ ایدھی صاحب بھی اس طرح مصروف رہے کہ ان کو تو معلوم ہی نہیں ہوا کہ کب ان کے گردے جواب دے چکے ہیں۔ اس لئے اب ایدھی صاحب ہسپتال کے ایک بیڈ پر پڑے اپنی گزری زندگی کو کسی فلم کی صورت دیکھ رہے تھے۔ ایدھی صاحب کو ان کے گردے اسپتال لے آئے تھے ورنہ انہیں کاندھوں پر ایدھی صاحب نے ایک دو نہیں ہزاروں انسان اٹھائے اور اپنے رضا کاروں کی مدد سے اسپتال پہنچا کر ان کی جان بچائی ،کیونکہ ایدھی صاحب جانتے تھے کہ ایک انسان کو بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے برابر ہے۔ اس لئے ایدھی صاحب نے اپنے ضعیف کندھوں پر انسانیت کا اتنا بوجھ اٹھایا کہ اب وہ کندھے بلکل ضعیف ہوچکے تھے۔

شیخ ایاز لکھتا رہا اور زمانے کے طعنے سنتا رہا یہاں تک کہ شیخ ایاز پر حملہ بھی ہوا اور اس کے بچوں پر بھی حملہ ہوا اس کے گھر کے باہر فائرنگ بھی ہوئی اس کے گھر کے باہر پتھراؤ تو روز کا معمول تھا ایک دن تو شیخ ایاز کے گھر کو ہی جلا دیا گیا تھا تو شیخ صاحب بہت مایوس ہوگئے تھے اور انہیوں نے لکھا تھا کہ

یہ تو خدا ہی جانتا ہے کہ کسی رنگین چمن میں کیوں نہ پیدا ہوا

ایک دامنِ صحرا میں کھلی خوشبو بیکار گئی!

شیخ ایاز بھی آخر اپنی بے توقیری پر برس پڑے اور ایاز کا یہ شعر اب ایک مثل بن گیا ہے، اب جو بھی اپنی ناقدری محسوس کرتا ہے تو وہ ایاز کا یہی شعر بول اٹھتا ہے اور بھری محفل میں کہہ دیتا ہے کہ اس کی عزت نہیں کی جا رہی لیکن ایدھی صاحب نے کبھی نہیں کہا کہ اس کی بے توقیری ہو رہی ہے۔  ایاز تو شاعر تھا اور شاعرحساس ہوتے ہیں لیکن ایدھی صاحب تو انسانیت کے علبردار تھے۔ ایدھی صاحب کے پاس کیا تھا جب انہوں نے سوچا کہ انسانیت کی خدمت کرنی چاہیے، بیمار کو اسپتال پہچانا چاہیے، کمزور کو کھانا کھلانا چاہیے، مریض کو اسپتال پہچانا چاہیے، گمشدہ بچوں کو کسی محفوظ ٹھکانے پر رکھنا چاہیے، لاوارث عورتوں اور ماؤں کا خیال رکھنا چاہیے، بوڑھوں کا خیال رکھنا چاہیے، اگر کوئی انسان مر جائے تو اس کو دفن کرنا چاہیے، بیمار جانور کا بھی خیال رکھنا چاہیے، جب یہ سب خیال ایدھی صاحب کے دماغ میں پک رہے تھے تو ایدھی صاحب کے پاس کیا تھا ؟

اس وقت ایدھی صاحب کے پاس سوائے ایک بوڑھی ماں کے علاوہ کچھ بھی نہیں تھا! اور وہ کپڑے تھے جو ایدھی صاحب نے اپنے بدن پر پہن رکھے تھے لیکن اس وقت ایدھی ساحب کے پاس ہمت بہت تھی! اب ایدھی ساحب نے اپنی ماں سے ایک دن پوچھا، ماں یہ آدمی مر کیوں جاتے ہیں؟،،

تو ایدھی صاحب کی ماں نے جواب دیا، ان کو دوائی نہیں ملتی

ایدھی صاحب نے پھر سوال کیا، دوائی کہاں ہوتی ہے؟

ماں نے کہا، اسپتال میں!

پھر یہ بیمار آدمی اسپتال کیوں نہیں جاتے؟ ایدھی صاحب نے ماں سے پوچھا

ماں نے کہا ،، ان کو کون لے جائے غریبوں کو؟،،

اس پر ایدھی صاحب کا دل جل اٹھا اور اسی دیے کو لیکر ایدھی صاحب عملی میدان میں آ گئے۔ ایدھی صاحب کی برادری نے بائیکاٹ کردیا پر  یہ لڑکا کہاں یہ کام چھوڑنے والا تھا جس کو اس کی ماں نے کہا تھا کہ بیمار اسپتال میں ٹھیک ہوتے ہیں اسپتال میں دوائی ہوتی ہے پر ان بیماروں کو اسپتال لے کر کون جائے؟

ایدھی صاحب نے کھارادر کراچی سے جو سفر شروع کیا تھا وہ سفر اب چترال کے بلند و بالا پہاڑ اور سندھ کے کیٹی بندر تک، ہر جگہ جاری ہے اور ایدھی کا سلوگن، سب سے پہلے انسانیت کے لئے اور اس کا نشان دو ہاتھ،، آپ کو ہر جگہ نظر آئیں گے! اس ایدھی لاوارث کے قبرستان میں ہزاروں لاشیں دفن کی جا چکی ہیں جن کا اس شہر میں کوئی بھی وارث نہیں ہوتا انہیں ایدھی صاحب امانتاً اس قبرستان میں دفن کرواتے تھے۔

صرف ایدھی صاحب تھے جنہوں نے ہمارے ملک کے غریبوں کے سر پر ہاتھ رکھا۔

آج وہ ایدھی کراچی کے اداس قبرستان میں جا سویا اپنے سارے دکھ لئے وہ ایدھی جو ساری زندگی دوسروں کے دکھ سنتا رہا ان کے لئے روڈوں پر بھیک مانگتا رہا، وہ معصوم بچے جنہیں مائیں جب چھوڑ گئی تھیں جب وہ دودھ پیتے بچے تھے، یہ شہر میں لگے ایدھی کے جھولے جن میں وہ مائیں جو کالی رات کی وجہ سے مائیں تو بن گئیں پر اپنے بچوں کی مائیں نا ہو پائیں پھر ان جھولوں میں موجود بچوں کا باپ کون بنتا؟

یہ جگر خدا نے صرف ایدھی صاحب کو ہی دیا تھا کہ وہ لاوارث کا وارث بنے، بغیر باپوں کے بچوں کا باپ بنے، ہزاروں بچیوں کا باپ بنے ان کی شادیاں کروائے، جھولے میں موجود بچوں کا بوڑھا باپ بنے ، بیمار مریضوں کا مسیحا بنے۔ ایدھی صاحب اس دکھی دنیا کی بھر پور انسانی خدمت کر کے اب سو رہے ہیں وہ اب کیوں نہ سوئیں ان کو تکان بھی تو برسوں کی ہے، تو اب ایدھی صاحب کو سونے دیں اور ان کے لئے ایک ایسا گیت لکھیں جب وہ کل سو کر اٹھیں اور خدا کے حضور حاضر ہوں تو خدا کے فرشتے ایدھی صاحب کا استقبال کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments