خدا انسانوں سے محبت کرنے والے پر رحمت کرے


\"anisبتایا جا رہا ہے کہ جس قومی اعزاز کے ساتھ ایدھی صاحب کی تدفین ہوئی وہ اس سے قبل پاک فوج نے ضیاالحق کو دیا تھا۔

چلیے دیر آید درست آید۔ اٹھائیس سال بعد سہی ایک گناہ کا کفارہ ادا کر تے ہوئے اس اعزازکی توقیر بحال کر ہی دی گئی۔ اس ملک کی بیس کروڑ سے زائد آبادی میں اگر کوئی شخص اس کا واقعی مستحق تھا تو وہ ایدھی صاحب ہی تھے۔ یہ اور بات ہے کہ انکی عظمت کسی دنیاوی اعزاز کی محتاج کبھی نہ تھی۔

بچپن میں ایک شعر کا بڑا چرچا تھا۔

فرشتوں سے بہتر ہے انسان بننا

مگر اس میں پڑتی ہے محنت زیادہ

حیرت ہوتی تھی کہ انسان فرشتوں سے بہتر کیسے ہو سکتاہے۔ فرشتے تو فرشتے ہوتے ہیں۔ معصوم ۔ ہر دم اللہ ہو اللہ ہو کرنے والے۔

جب ہوش سنبھالا تو جانا کہ اللہ ہو اللہ ہو کرنے والے تو بہت ہیں۔ عظیم جثوں اور بے پناہ ڈاڑھیوں والے۔اور پھر ان میں سے ہر ایک کو دعویٰ کہ صرف انہی کی اللہ ہو بارگاہ الٰہی میں مستجاب ہوتی ہے۔ باقی سب کافر، زندیق، واجب االقتل۔

اور پھر زمانے کی آنکھ نے یہ بھی دیکھا کہ خدا کی اس کم نصیب بستی میں ساٹھ ہزار سے زائد کلمہ گو عقیدے کے نام پر خاک و خون میں نہلا دیے گئے۔ٖ فوجی جوانوں کے سر کاٹ کر ان سے فٹبال کھیلی گئی۔ سکول کے بچوں کو بے دردی سے ذبح کر دیا گیا اور یہ سب شغل فرمانے والوں کو عظیم جثے اور بے پناہ ڈاڑھیوں والے اپنے بھٹکے ہوئے بھائی قرار دیتے رہے۔

اب ان کے نیزوں کے رخ اس بے لوث انسان کی جانب ہیں جو ان کی نفرتوں کے دوزخ سے آگے نکل گیا ہے۔ عبدالستار ایدھی۔

عبدالستار ایدھی ، وہ جو فرشتوں سے دو ہاتھ آگے تھا، ساٹھ سال کی کڑی مسافت کے بعد اس مقام تک پہنچا تھا جہاں پہنچ جانے والا مسجود ملائک قرار پاتا ہے۔ انسان کہلانے کا مستحق۔ زمین پر خدا کا نائب۔

اور یہ انسان بہتر حوروں کی بجائے لاوارث لاشوں کی بات کرتا تھا۔ بے سہارا عورتوں کی بات کرتا تھا۔ یتیموں، بیماروں ، ضعیفوں کی بات کرتا تھا۔

بلا امتیاز رنگ و نسل، عقیدہ ، قومیت سب کی بات کرتا تھا۔ اپنی نظروں سے گر جانے والوں کو دوبارہ انسانیت کے منصب پر لے آتا تھا کہ اسے ان میں سے خدا کی سب سے خوبصورت مخلوق کی بو آتی تھی۔

آدم بو آدم بو کرنے والے فرعون یہ بات کیا جانیں۔

کل فیس بک پر ایسے ہی ایک فرعون کی ویڈیو دیکھی۔ وہی بغض، وہی کینہ ، وہی نفرت ، وہی دشنام۔

عدنان کاکڑ صاحب نے اس کے بارے میں لکھا بھی۔ سو اس بارے میں مزید کیا بات کرنا۔ بس اتنا کہنا ہی کافی ہو گا کہ ایدھی ایک درویش تھے۔ فقیر تھے۔ ان کا سفر ان کی موت کے بعد بھی جاری رہے گا اور جیسا کہ کسی نے خوب کہا ہے۔۔۔ آواز سگاں کم نہ کند رزق گدا را۔

بدقسمتی اس قوم کی یہ ہے کہ ریاست خود کو ان تمام ذمہ داریوں سے الگ کر چکی ہے جن کا تعلق عوام کی فلاح اور ابتدائی سہولتوں سے ہوتا ہے۔ بدنظمی اور افراتفری کے اس سیلاب میں ڈوبتے ابھرتے لوگ تنکوں کو بھی سہارا سمجھنے لگتے ہیں۔ ایسے میں قدرت اگر مہربان ہو جائے تو روتی بلکتی انسانیت کو دلاسہ دینے کے لئے ایدھی جیسے انسان سامنے آتے ہیں جو شاید پیدا ہی اسی مقصد کے لئے کیے جاتے ہیں۔

اب ہوتا یہ ہے کہ جوں جوں یہ اپنا کام بڑھاتے جاتے ہیں، آرام کرتی نیم مدہوش نا اہل ریاست اپنی ٹانگیں مزید پسارنے لگتی ہے اور وہ کام بھی جو در حقیقت اس کے وجود کو جواز فراہم کرتے ہیں، دھیرے دھیرے رضا کار اداروں کو منتقل ہونے لگتے ہیں کہ آخر کسی کو تو یہ کام کرنا ہی ہوتا ۔ اور ایدھی صاحب تو انسانیت کی اس معراج پر تھے کہ وہ اسے کئے بغیر رہ ہی نہیں سکتے تھے۔

رضا کار ادارے اور ویلفیئر ٹرسٹ یورپ میں بھی قائم کئے جاتے ہیں حالانکہ یہاں کی ریاستیں اتنی فعال ہیں کہ ان کی ضرورت ہی نہیں ہونی چاہیئے۔

لیکن ہوتا یہ ہے کہ لوگ ریاست کو اپنی ماں، اور ریاست عوام کو اپنے بچے تصور کرتی ہے لہٰذا دونوں ایک دوسرے کا سہارا بنتے ہوئے مل کر کام کرتے ہیں۔

اس طرح مختلف گروپ اپنے اپنے جائز مفاد ات کے تحفظ کے لئے باقاعدہ تنظیمیں قائم کر لیتے ہیں۔ پریشر گروپ بنائے جاتے ہیں۔ انہیں جمہوری طریقے سے چلایا جاتا ہے۔

تنظیمی اور فلاحی امور کے لئے ممبر شپ فیس اور چندہ اکٹھا کیا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔

مثلاٌ پنشنر اپنی تنظیم بنا لیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ پنشن یافتہ افراد کے لئے حکومت سے زیادہ سے زیادہ مراعات لی جا سکیں۔ اسی طرح دل اور سینے کے مریضوں کی اپنی تنظیم ہو گی جو علاج کی سہولتوں اور دواؤں کے اخراجات کم کرنے کے لئے رائے عامہ ہموار کرنے، لوگوں کو معلومات فراہم کرنے اور ریسرچ بڑھانے پر زور دیتی رہتی ہے اور اپنے چندے اور دیگر ذرائع سے اکٹھی کی جانے والی رقوم سے چھوٹے بڑے اسپتال تک بنا لیتی ہے۔ ناروے میں ہیلی کاپٹر ایمبولنس سروس کا ایک پورا فلیٹ ایسی ہی ایک تنظیم نے خود کھڑا کر لیا ہے، جس سے بلا امتیازسبھی بشمول سرکاری اسپتال بھی استفادہ کرتے ہیں۔ اور بھی بہت سی تنظیمیں ہیں جو اپنی مدد آپ کے اصول کے تحت قائم کی گئی ہیں اور سرکاری اعانت یا اس کے بغیر نہایت کامیابی سے چلائی جا رہی ہیں۔ مقصد صرف ایک ہی ہے۔ کسی ستائش یا صلے کی تمنا کیے بغیر روئے زمین پر انسان کی زندگی کو آسان بنانا، اور بس۔ وہی خدمت جو ایدھی صاحب چھ دہائیوں تک انجام دیتے رہے۔

ایدھی صاحب چلے گئے۔ جب تک وہ لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں، ان کی باتیں اور خراج تحسین بھی انہیں پیش کیا جاتا رہے گا۔ لیکن بات صرف زبانی جمع خرچ سے نہیں بنے گی۔ یہ سوچئے کہ اظہار تشکر کا بہتر اور احسن طریقہ کیا ہے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں حکومت سے کوئی توقع رکھنا عبث ہو گا۔ جو عمارت ایدھی صاحب کھڑی کر گئے ہیں، اسے سلامت رکھنے اور اس کی تزئین وآرائش کرتے رہنے کے لئے ضروری ہے کہ لوگ خود بڑھ کر اس میں اپنا حصہ ڈالیں۔ صرف کسی بڑی سڑک یا ہوائی اڈے کے نام کو ان سے منسوب کر دینے سے بات نہیں بنے گی۔ اگرچہ یہ ہم پر ان کا قرض ہے لیکن یاد رہے کہ ایدھی صاحب مردہ پرست نہ تھے۔ زمینی حقائق پر یقین رکھتے تھے ۔ اور وہ زمینی حقائق سب کے سامنے ہیں۔

ایک چھوٹی سی تجویز تو یہ ہے کہ ایدھی ویلفیر ٹرسٹ کے لئے گاہے گاہے چندہ اور عطیات جمع کرنے کی مہم شروع کی جانی چاہیئے۔ اس کام کے لئے بیسیوں ٹی وی چینل موجود ہیں جو سال میں کم از کم ایک دن اس مہم کے لئے مخصوص کر سکتے ہیں۔ یورپ میں اس طریقے سے عالمی سطح پر چلنے والی تنظیموں کے لئے رقم اکٹھی کی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ لوگ ایدھی کے نام پر دینا چاہتے ہیں۔ موقع آپ فراہم کر دیجئے۔

الوداع ایدھی صاحب۔ جو وقت آپ نے ہمارے درمیان گزارا، اس پر آپ کا شکریہ۔

بہت تھک چکے ہوں گے آپ۔ اب آرام کیجئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments