غریبوں کے پاکستان کا بے تاج بادشاہ


\"masoodجس طرح دو قومی نظریے کے تحت دو مُختلف مذہبی و تہذیبی پس منظر کی حامل قومیں ایک ساتھ نہیں رہ سکتیں ، بالکل اسی طرح مختلف طبقاتی تہذیبی دھارے بھی ایک ساتھ نہیں بہ سکتے ۔ اور قائد اعظم کے بنائے ہوئے پاکستان کا المیہ یہ رہا ہے کہ اس میں بھی کئی سطحوں اور پرتوں پر دو قومیں ہمیشہ آباد رہی ہیں۔ جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ پاکستانی اور بنگلہ دیشی دو الگ الگ قومیں تھیں ، چنانچہ وہ اگرچہ ایک ہونے کے وہم میں مبتلا ہو کر ایک ساتھ چلیں مگر مل کر نہ رہ سکیں ۔

دوقومی تصور کی یہ تقسیم اب بھی پاکستانی معاشرت میں جا بجا نظر آتی ہے کہ ایک قوم عسکری ہے اور دوسری سول ۔ ایک قوم بزعمِ خود مذہبی ہے اور دوسری صوفی و مُلّا کی غلام ۔ ایک صاحبِ جاہ و حشمت ، والا مرتبت سٹیٹس کانشس Status Conscious قوم ہے اور دوسری اصحابِ صُفّہ کی مانند ایک قوم ہے جس میں غریب ، مسکین یتیم اور لاوارث لوگ ہیں جن کے بے تاج بادشاہ عبد الستار ایدھی تھے ۔ حضرت ایدھی کا ذاتی سماجی رُتبہ فقیر اور مسکین کا تھا جو صرف دو کپڑے جوڑوں کے مالک تھے ، بوریہ نشین تھے اور اُن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ماننے والے تھے کہ جب اِس دارِ فانی سے رخصت ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذرہ مُبارک چند صاع جو کے عوض ایک یہودی کے پاس گروی پڑی تھی ۔

دو جوڑے کپڑے کا ذکر آیا تو میں حضرت فضل شاہ نور والے علیہ رحمت سے بھی حوالہ لیتا چلوں جنہوں نے ایک بار بتایا تھا کہ مُسلمان کو اپنے پاس دو جوڑے کپڑے رکھنے کا حکم ہے :

شریعت کہتی ہے کہ ایک جوڑا ناپاک ہو جائے تو دوسرا پہن کر نماز ادا کی جا سکے ۔

جبکہ طریقت کہتی ہے کہ اُن دو جوڑوں میں سے ایک آپ کا ہے اور دوسرا اُس کا ہے جس کے پاس نہیں ہے اور وہ جوڑا اُس کو پہنچا دیا جائے ۔

ہم قصّے کہانیوں سے خوش ہونے والے لوگ ہیں ، اور ہم لوگوں کا دل اپنی خطابت سے موہ لینے کے لیے بیان کرتے ہیں کہ ایک بار ایک سوالی نے نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم سے قمیض کا سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سوالی سے انتظار کرنے کو کہا لیکن وہ اصرار کرنے لگا تو آپ نے اپنی وہ قمیض جو زیبِ تن کیے تھے، اُتار کر سوالی کو دے دی اور خود صرف ایک تہبند میں دونوں ہاتھ بغلوں میں ڈال کر بیٹھ رہے ۔ ہم ایسے قصوں پر صرف سبحان اللہ کہ کر درود شریف پڑھ دیتے ہیں مگر اِس ایثاراور اس نیک عمل کی پیروی نہیں کرتے اور اس کے باوجود بڑی ڈھٹائی سے عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویدار بنتے ہیں۔

عبد الستار ایدھی بھی خود کو فقیر اور ملنگ کہا کرتے تھے اور یہ اُس تعلیم کے عین مطابق تھا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہہ کر دی کہ وہ ایک فقیر ہیں اور یہ کہ اںہیں اپنے فقیر ہونے پر فخر ہے:

سماں الفقر فخری کا رہا شانِ امارت میں

بآب و رنگ و خال و خط چہ حاجت روئےزیبا را ( اقبال )

لیکن غریبوں کے پاکستان کی باگ ڈور استہزا کے طور پر اُن لوگوں کے ہاتھ میں ہے جو ڈیڑھ لاکھ روپے مالیت کے قالین پر بیٹھ کر کہتے ہیں :

سلام اُس پر کہ جس کا بوریا ٹُوٹا بچھونا تھا

یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے عبدالستار ایدھی حاملِ حیاتِ جاودانی کو موت کے بعد خراج پیش کرنے کے لیےایک نمائشی شو شروع کر رکھا ہے جس میں وہ اپنی مالی خباثتوں کے ساتھ سروں پر حرص ہوس کی ٹوکریاں اُٹھائے ایدھی صاحب کی تعریفیں کرتے ہیں ، اُن کی لحد پر پھول چڑھاتے ہیں اور ٹی وی پر اُن کی شان میں توصیفی کلمات ادا کرتے ہوئے نہیں تھکتے اور اُنہیں ہدیہء عقیدت پیش کرتے ہیں۔ حالانکہ اُن کا وجود اور طرزِ زندگی عبد الستار ایدھی کے طرزِ زندگی کی نہ صرف تردید ہے بلکہ توہین بھی ہے ۔

یہ وہ لوگ ہیں جو نفسیاتی غلامی میں مبتلا ہیں ۔ حالانکہ اُن کا اصل چہرا وہ ہے جس پر کاسہ لیسی لکھی ہے اور وہ بر سرِ اقتدار لُٹیروں کے ساتھ سلفیاں بنواکو اپنا قد بڑھانے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ مگر وہ اپنی اس نفسیاتی بیماری کو اس لیے نہیں دیکھ پاتے کہ اُن کی باطنی آنکھیں ہیں ہی نہیں ۔

یہ دولت کے پجاری اور اقتدار کے دیوانے جب بارگاہِ ایدھی میں سرِ نیاز خم کرتے ہیں تو اُس وقت بھی اُن کی نگاہیں اُن کے اپنے اعزاز پر ہی ہوتی ہیں کہ وہ ایک بڑے آدمی کی میت سے لگ کر بڑے ہو گئے ہیں حالانکہ وہ نہیں جانتے کہ عبالستار ایدھی دلوں کے حکمران اور غریبوں کے بے تاج بادشاہ تھے ۔

میں نے جب اُن کی وفات کی خبر سُنی تو دل مسوس کر رہ گیا ۔ پھر اچانک ایک آواز میرے کانوں میں آئی :

نام عبدالستار ایدھی تھا

زندگی سادگی سے کاٹ گیا

نیک اعمال کا کفن پہنا

قبرِ خدمت میں جا کے دفن ہوا

دیدہ ور شخص، صاحبِ ایمان

آدمی تھا کہ مُلک پاکستان

تو میرا ردِ عمل اس آواز پر کیا تھا جو مجھے سنائی دی تھی؟ آوازیں ہمیشہ اپنی بازگشت ساتھ رکھتی ہیں اور اُسی میں قیام کرتی ہیں ، سو میں نے زور سے پکارا:

سُنا تم نے ، اُسے بھی لے گئے آج آسماں والے

مُسلمانوں کی بستی میں جو کرتا تھا مسیحائی

مسعود منور

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مسعود منور

(بشکریہ کاروان ناروے)

masood-munawar has 19 posts and counting.See all posts by masood-munawar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments