اسد عمر کا منی بجٹ: اپوزیشن کی امیدوں پر پانی پھر گیا


کئی دنوں سے چرچا تھا کہ منی بجٹ آنے والا ہے اپوزیشن چیلوں کی مانند بے چارے اسد عمر پر جھپٹنے اور نوچنے کو تیار بیٹھی تھی۔ میڈیا نے بھی نیزے بھالے تیز کر کے میز پر سجا دیے تھے۔ عوام بے چارے بھی بولائے بولائے پھر رہے تھے کہ نہیں معلوم اس منی بجٹ میں ان پر کون سا بم گرنے والا ہے۔ منی بجٹ کی تاریخ کو بڑھایا گیا کیونکہ عمران خان کا دورہ قطر بیچ میں آ گیا تھا۔ آخر کار اسد عمر نے منی بجٹ پیش کر دیا اوپر بیان کیے گئے تمام خدشات کے برعکس منی بجٹ در اصل منی اصلاحات پیکج نکلا۔

وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے سجی دکھا کر کھبی مارنے کی بھرپور سعی کی اور اپوزیشن کی چیخ و پکار سے محسوس بھی ہوا کہ جیسے واقعی ان کو پڑی ہو۔ اس منی بجٹ میں چیدہ چیدہ نکات یہ تھے : شادی ہالوں پر ٹیکس 15 ہزار کم، گھر کے لیے قرض پر ٹیکس 19 فیصد کم، سٹاک ٹریڈنگ پر ود ہولڈنگ ٹیکس ختم، 50 ہزار سے زائد رقم نکلوانے پر عائد ٹیکس ختم، اخبارات کے لیے نیوز پرنٹ پر عائد ٹیکس مکمل ختم، نان بینکنگ کمپنیز پر عائد سپر ٹیکس ختم، نئی صنعتوں کو پانچ سال تک انکم ٹیکس کی مکمل چھوٹ، صنعتی زون کے مشینری ٹیکس سے مستثنٰی قرار، نان فائلرز کے لیے گاڑی خریدنے پر عائد پابندی ختم، چھوٹے موبائل فون پر ٹیکس 350 روپے کم، مہنگے فون اور بڑی گاڑیاں درآمد کرنے پر ٹیکس بڑھا دیا گیا اور خام مال کی درآمد پر مجموعی طور پر 600 ارب کا ٹیکس ریلیف دیا گیا۔

یہ ہے وہ منی بجٹ جو آج حکومت نے قومی اسمبلی کے سامنے رکھا۔ اب اس منی بجٹ کے پیش نظر تحریک انصاف والے بغلیں بجا رہے ہیں کہ اپوزیشن تو کہہ رہی تھی کہ ٹیکسوں کا نیا طوفان آنے والا ہے، لیکن اعداد و شمار تو کچھ اور ہی کہہ رہے ہیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس منی بجٹ کو لے کر اپوزیشن اور میڈیا کے بہت سے ہدائف اور عوام کو کافی خدشات تھے لیکن ہوا اس کے برعکس، لیکن اس منی بجٹ کو اتنی ہائپ ملنے میں تحریک انصاف کا بھی اتنا ہی بڑا ہاتھ ہے جتنا اپوزیشن اور میڈیا کا۔

تحریک انصاف اگر چاہتی تو اک بیان میں ہی واضح کر سکتی تھی کہ منی بجٹ میں عوام پر بوجھ نہیں ڈالا جا رہا مگر شاید اسد عمر اور ٹیم سرپرائز دے کر سیاسی پوائنٹ سکورنگ اور اپوزیشن کو خجالت سے دوچار کرنا چاہتی تھی۔ جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے اپوزیشن نے اسد عمر کی تقریر سنے بغیر ہی مسترد کردی اور بل کی کاپیاں بھی پڑھے بغیر پھاڑ دیں۔ حالانکہ عوام نے انہیں شور شرابا کرنے کے لیے نہیں بلکہ قانون سازی کرنے کے لیے ایوان میں بھیجا تھا۔

اگر بل کے مسودے سے اتفاق نہیں ہے تو کم از کم اسے پڑھ تو لیا جاتا، یقیناً ان اصلاحات میں ایسا کچھ نہیں جس کو بنیاد بنا کر اپوزیشن اپنے اس احتجاج کو جسٹیفائی کر سکے۔ دوسری طرف اس منی بجٹ کو تحریک انصاف کی شوبازی ہی کہا جا سکتا ہے جسے منی بجٹ کہہ کر اور پارلیمنٹ کی پیالی میں اتنا طوفان کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی۔ یہ معمول کے معاشی اقدامات تھے جن کا اعلان ایک پریس کانفرنس کر کے کیا جاسکتا تھا۔ اسمبلی اجلاس میں منی بجٹ کی گردان سے وقت اور پیسہ ضائع کرنے کی ضرورت نہیں تھی اور سب سے اہم منی بجٹ میں بجٹ خسارے جیسے اہم معاملات تو اس تقریر کا حصہ ہی نہیں بنائے گئے۔

بلکہ اسد عمر نے بجٹ اور دیگر اعداد و شمار کو اک دو جملوں میں گول مول کر کے بیان کر دیا اور اپوزیشن نے اتنی غیر اہم تقریر پر شور و غل مچاکر اتنی اہمیت دے دی۔ کل ملا کر بات یہ ہے کہ منی بجٹ کے لفافے میں پیش کردہ یہ اصلاحات یقیناً مثبت اقدام ہے اور اسد عمر کو فیس سیونگ کا موقع فراہم کر گئی ہیں ورنہ وزیر خزانہ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اسد عمر کو پارٹی کے اندر اور پارٹی سے باہر سے جس طرح ٹارگٹ کیا جا رہا تھا ان پر یقیناً بہت دباؤ تھا۔ اب انہیں کچھ عرصے کے لیے ریلیف ضرور ملا ہو گا لیکن کہانی اتنی سادہ نہیں ہے۔ آئی ایم ایف کے عفریت سے جان چھڑانا بھلے سننے میں خوشگوار محسوس ہوتا ہو مگر ہنوز دلی دور است۔

میں حکومت کی ان اصلاحات کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے امید کرتا ہوں کہ ملک کے معاشی بحران چھپے ٹیکس خوروں اور کرپشن کے پیسے کو باہر نکالنے کے لیے اسد عمر عملی اقدامات کریں گے۔ انہیں مودی کی طرز پر اچانک کرنسی کی تبدیلی اور پانچ ہزار کے نوٹ کی بندش جیسے بولڈ فیصلے لینے ہوں گے۔ زرعی ملک کی زرعی اجناس کو عالمی منڈیوں تک رسائی کے لیے اقدامات اٹھانے ہوں گے، کسان کو شوگر مل نرغے سے نکال کر دیگر فصلات کی جانب جانے کے مواقع فراہم کرنا ہوں گے، ملتان میں آموں کے باغات کی کٹائی روکنا ہو گی، ایران کو پھر سے مالٹے اور چاول خریدنے پر راضی کرنا ہو گا، ایران جاپان اور ناروے جیسے ممالک جنہوں نے پاکستان کی سبزیوں اور پھلوں پر اعتماد کھو دیا ہے انہیں اپنا مال خریدنے پر راضی کرنا ہو گا، ریکوڈک اور سینڈک کے ذخائر میں جاری غبن کو روکنا ہو گا، سیاحت کو فروغ دینا ہو گا، آٹو موبائیل انڈسٹری میں ایمرجنسی اصلاحات لانی ہوں گی، ملک میں صرف آٹو کمپنیوں کی اجارہ داری ختم کر کے دیگر گاڑیوں کو لانچ کرنے کی اجازت دینا ہو گی، ملک میں خود سے موبائل، گاڑیاں اور دیگر مصنوعات کا آغاز کرنا ہو گا اور مین پاور کو بیرون ممالک بھیجنے پر دوست ممالک کو راضی کرنا ہو گا۔

بیان کردہ تمام تجاویز الگ سے اک اک تحریر کی متقاضی ہیں لیکن چونکہ آپ ماہر معشیت ہیں اور حکومت میں ہیں تو بہتر سمجھتے ہوں گے کہ کیوں ملک میں گاڑیاں نہیں بنائی جا سکتیں؟ کیوں سینڈیک کا سونا نکالنے والی چائنہ کی کمپنی جھاڑو تک چین سے منگواتی ہے اور کیسے دس ٹن سونے کاپر کو دو ٹن ظاہر کرتی ہے؟ کیوں آم کینو سیب پیاز آلو دودھ گندم گوشت پیدا کرنے والے پہلے دس ممالک میں شامل پاکستان کی اجناس عالمی مارکیٹ میں اعتماد کھو چکی ہیں؟ کیسے شوگر ملز تاخیر سے چلا کر کسان کو دیگر فصلیں کاشت کرنے روکا جاتا ہے؟ کیوں سیاح پاکستان کا رخ نہیں کرتے؟ اور کیوں ہمارے تاریخی آثار قدیمہ بربادی کے دہانے پر ہیں؟ مانا آپ کرپٹ نہیں ہیں مانا آپ ملک کے ساتھ مخلص ہیں مگر ذاتی اوصاف سے معاشی خوشحالی نہیں آتی، آپ کو بولڈ فیصلے لینے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).