منی بجٹ: تحریک انصاف کو اگلا الیکشن خریدنا نہیں پڑے گا


کہا جاتا ہے کہ زبان سے نکلے الفاظ واپس نہیں جاتے اس لئے بولنے سے پہلے کئی بار سوچ لینا چاہیے۔ انسان ناجانے جوش خطابت میں کیا کیا کہہ جاتا ہے۔ سیاست میں بھی جوش خطابت کی کئی مثالیں ملتی ہیں شہباز شریف بھی شاید جوش خطابت میں ہی کہہ گئے تھے کہ زرداری صاحب کو گلے سے پکڑ کر گلیوں میں گھسیٹیں گے بعد ازاں خواجہ سعد رفیق کو اپنے قائد کے اس بیان پر معافی مانگنا پڑی۔ فاروق ستار بھی ماضی میں اکثر اپنے قائد بلکہ سابق قائد کے بیانات پر معافیاں مانگتے رہتے تھے اور اس کی تشریح بھی دنیا کے سامنے پیش کیا کرتے تھے۔

6 ماہ میں تیسرا بجٹ عوام کے سامنے پیش کیا جانے لگا تو تبدیلی کی عادی عوام کے لئے اس بجٹ کے نام میں بھی تبدیلی کر دی گئی۔ اس بجٹ کو منی بجٹ کا نام دیا گیا جبکہ وزیر داخلہ نے تقریر کے دوران عوام اور اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے اراکین کو سمجھایا کہ یہ بجٹ نہیں اصلاحات کا پیکج ہے۔ اسد عمر کی بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن نے اسمبلی کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے شور شرابا شروع کیا تو اسد عمر بھی جوش خطابت میں کہہ گئے کہ ہم ایسے کام کریں گے کہ تحریک انصاف کو اگلا الیکشن خریدنا نہیں پڑے گا اب خدا جانے ان کے اس بیان کا کیا مطلب تھا اور کون اس کی صفایاں دے گا؟

اسد عمر نے اپنی تقریر میں کئی اہم باتیں کیں۔ اسد عمر کا کہنا تھا کہ بینک چھوٹی کمپنی کو قرضہ دے گا جس پر اب صرف 20 فیصد ٹیکس ہوگا۔ اول تو موجودہ حکومت سے سوال ہے کہ کیا مدینے جیسی اسلامی ریاست میں قرض پر سود لینا درست ہوگا؟ بہرحال یہ بات تو واضح ہے کہ پاکستان کی معیشت جس حال میں ہے اس کا بہتر حل یہی ہے کہ چھوٹی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ اس سلسلہ میں حکومت کا قرض دینا ایک احسن اقدام ہوگا۔ حکومت کو قرض دینے کے ساتھ ایسے اقدامات بھی کرنا ہوں گے جن سے چھوٹی صنعتیں قیام کے بعد کامیاب بھی ہوسکیں۔

صنعتوں پر نظر رکھنا اور مناسب قانونی اقدامات کرنا حکومت پر لازم ہے لیکن حکومت کو اس امر کا بھی خیال رکھنا ہوگا کہ حکومتی اداروں کے افراد کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ ان صنعتوں کے قیام میں کاروباری افراد کی مدد کریں اگر سابقہ حکومتوں کی طرح اب بھی کاروباری افراد کو کاروبار کی ریگولرائزیشن کے لئے کئی کئی ماہ تک سرکاری دفتروں کے چکر لگانے پڑے اور رشوت دینی پڑی تو اس قرض اسکیم کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔

اسد عمر کی جانب سے ایک اور بڑا اعلان یہ بھی کیا گیا کہ حکومت 5 ارب روپے کی قرض حسنہ اسکیم لے کر آرہی ہے۔ خیال یہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ قرض حسنہ اسکیم، متوسط طبقے کے لئے ہوگی۔ اس اسکیم کے تحت متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد اپنا گھر بنا سکیں گے۔ حکومت کی جانب سے یہ اعلان متوسط طبقے کے افراد کے لئے خوشی کی نوید ہے۔ لیکن کیا اس قرض حسنہ میں سے ان افراد کو بھی حصہ ملے گا جن کے گھر کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں تجاوزات کے نام پر گرا دیے گئے کیا حکومت ان افراد کی مدد بھی کرے گی؟

منی بجٹ تقریر کے دوران یہ اعلان بھی کیا گیا کہ نان فائلر 1300 سی سی تک کی گاڑی خرید سکیں گے۔ شاید وزیر خزانہ اس بات سے لاعلم ہیں کہ 1300 سی سی کی نئی گاڑی کی قیمت کیا ہے؟ اس ملک کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد یا تو موٹر سائیکل پر سفر کرتے ہیں یا 800 سی سی گاڑی پر اور وہ بھی سیکنڈ ہینڈ۔ حکومتی جماعت کے حمایتی افراد کے لئے یہ بات بھی عرض ہے کہ ٹیکسی سروس پر بھی زیادہ تر 1000 سی سی کی گاڑیاں ہی چلتی ہیں۔ خدا جانے یہ کون سے نان فائلر ہیں جنہیں 1300 سی سی گاڑی خریدنے کی اجازت دی گئی ہے اور رب ہی جانے اس اعلان سے کس کو فائدہ ہوگا۔ اگر یہ اعلان متوسط طبقے کے لئے ہی تھا تو نان فائلر کو 1000 سی سی تک کی گاڑی خریدنے کی اجازت دے دینا کافی ہوتا۔

چھوٹے شادی ہالوں پر ٹیکس کم کرنے کا اعلان بھی کیا گیا۔ ٹیکس 20000 سے کم کر کے 5000 کردیا گیا۔ حکومت کو اس اقدام کے ساتھ بلدیاتی نمائندوں کو اس بات کا پابند بنانا ہوگا کہ ہر یونین کونسل میں کم از کم ایک ایسا ہال بنایا جائے تو علاقہ مکینوں کو شادی بیاہ کے موقعوں پر کرائے پر دیا جائے اور اس مد میں ان سے 5000 وصول کیے جائیں اس طرح حکومت کو تو 5000 ہی ملیں گے لیکن غریب افراد کے لئے شادی کرنا آسان ہوجائے گا۔

وزیر خزانہ اسد عمر کی اس بجٹ تقریر سے کچھ دن قبل ہی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مستقبل میں پرنٹ میڈیا کی بقا نظر نہیں آتی۔ اسد عمر نے ان کے اس بیان کا اتنا اثر لیا کہ پرنٹ میڈیا کی بقا کے لئے نیوز پرنٹ امپورٹ کرنے پر ڈیوٹی ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ یہ اعلان یقینی طور پر اخبار مالکان کہ لئے ایک خوشخبری ہے لیکن کیا حکومت ان صحافیوں کے لئے بھی اقدمات کرے گی جنہیں اس حکومت میں بیروزگار کردیا گیا؟

امید ہے کہ اب کی بار وفاقی حکومت کے حامیوں کی جانب سے یہ نہیں کہا جائے گا کہ 70 سال کا حساب نہ مانگنے والے چند ماہ کا حساب کیوں مانگ رہے ہیں۔ امید یہ بھی ہے کہ اسد عمر صاحب کی جانب سے کی جانے والی تقریر محض تقریر ہی نہیں ہوگی بلکہ اس بار عوام کو حقیقت میں ریلیف دیا جائے گا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو اگلی بار ملک پر حکومت کرنے کا تحریک انصاف کا خواب شاید عوام پورا نہ ہونے دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).