منی بجٹ: اسد عمر کی گگلی نے اپوزیشن کی وکٹیں اکھاڑ دیں


 

23 جنوری کو وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے اپنے دورِ وزارت کا دوسرا منی بجٹ پیش کیا، اور اس موقع پر قومی اسمبلی سے دھواں دار خطاب کرتے ہوئے طنز کے نشتر بھی برساتے رہے۔ منی بجٹ پر بحیثیت مجموعی مثبت عوامی ردِعمل آیا۔ میڈیا اور تاجر برادری کے بیشتر حلقوں نے مختلف ٹیکسز کے خاتمے پر اطمینان کا اظہار کیا۔ منی بجٹ سے پہلے اخبارات میں حکومتی پریس ریلیزز اور مختلف ذرائع کے حوالے سے شائع ہونے والی خبریں یہ تاثر دے رہی تھیں کہ منی بجٹ ٹیکسز میں اضافے کے ساتھ مہنگائی کا نیا طوفان لے کر آ رہا ہے۔ سرمایہ کار اپنا سرمایہ روک کر بیٹھے تھے، کاروباری سرگرمیاں نقطئہ انجماد کو چُھو رہی تھیں۔ مزید تبصرے سے پہلے اس بجٹ کے چیدہ نکات پر ایک نظر:

فائلرز کے لئے بینک لین دین پر ود ہولڈنگ ٹیکس ختم

ایک کنال تک کے چھوٹے شادی ہالز پر ٹیکس 20 ہزار سے کم کر کے 5 ہزار

نان فائلرز کو ٹیکس میں اضافے کے ساتھ چھوٹی گاڑی خریدنے کی اجازت

چھوٹے موبائلز پر ٹیکس میں کمی

کم لاگت گھروں کے لئے 5 ارب قرض حسنہ

زرعی اور چھوٹی صنعتوں پر بنکوں کا ٹیکس نصف

بڑی گاڑیوں اور لگژری اشیا مہنگی

مقامی صنعتوں کے لئے خام مال کی ڈیوٹی میں کمی

کارپویٹ ٹیکس میں ایک فیصد کمی

کینسر کے علاج میں استعمال ہونے والے آلات پر ڈیوٹی میں کمی

توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری پر ٹیکس چھوٹ

کھاد کی قیمتوں میں کمی اور کسانوں کے لئے دیگر مراعات

ایس ایم ای سیکٹر کے مختلف ٹیکسز جو مجموعی طور پر 39 فیصد تھے کو 20 فیصد کر دیا گیا

اس کے لئے علاوہ نیوز پرنٹ، مختلف طبی آلات پر بھی ڈیوٹی میں کمی کی گئی ہے۔ کاروباری طبقے کو بھی کئی طرح کی ٹیکس چھوٹ فراہم کی گئی ہے۔

تاہم اس بجٹ کے چند نکات پر تنقید ہو رہی ہے۔ ان میں دوبہت اہم ہیں۔

1۔ نان فائلرز کے گاڑیاں اور پراپرٹی خریدنے پر پابندی تھی جس کی وجہ سے آٹو موبلز اور رئیل اسٹیٹ کی مارکیٹ میں مصنوعی تیزی پیدا کرنے والے عوامل ختم ہو رہے تھے۔ اس منی بجٹ میں نان فائلرز کے نسبتاً زیادہ ٹیکس ادا کر کے 1300 سی سی تک کی گاڑی خریدنے کی اجازت دی گئی ہے۔

2۔ اگر کسی شخص نے ایمنسٹی اسکیم کے تحت اپنی بیرونِ ملک پراپرٹی ڈکلئیر کی ہے تو ملکی ادارے بشمول ایف بی اور اور نیب وغیرہ اس سے پوچھ گچھ نہیں کریں گے۔

اس کے علاوہ عام آدمی کو سب سے زیادہ ریلیف ملتا ہے جب بجلی، گیس، ادویات اور اجناس کے نرخ کم ہوتے ہیں۔ گو کہ اس بجٹ میں ایسا کچھ نہیں تھا لیکن امید کی جا سکتی ہے کہ معاشی سرگرمیوں میں تیزی سے عام آدمی کی قوتِ خرید بہتر ہو گی۔

بحیثیت مجموعی اس بجٹ کے زیادہ تر نکات کاروباری سرگرمیوں پر چھائے جمود کو ختم کرنے میں مدد دیں گے۔ اور مشروط طور پر امید کی جا سکتی ہے کہ کاروباری سرگرمیوں میں اضافے سے معیشت پر چھائے غیر یقینی کے بادل چھٹیں گے۔

 

منی بجٹ پر کسی بھی قسم کا تجزیہ کرنے سے پہلے اس کی ٹائمنگ دیکھنا بہت ضروری ہے۔ کافی دنوں سے امید کی جا رہی تھی کہ جنوری میں دوسرا منی بجٹ آئے گا۔ عام طور پر منی بجٹ کو کسی بھی حکومت کے لئے نیک شگون تصور نہیں کیا جاتا۔ ستمبر میں آنے والا منی بجٹ کسی حد تک قابلِ فہم تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے گذشتہ بجٹ کے بعد اقتدار سنبھالا تھا اور اسے یہ پورا حق حاصل تھا کہ اپنی مرضی کی معاشی پالیسیاں لاتی۔

منی بجٹ عام طور پر ناگہانی اخراجات پر قابو پانے اور ادائیگیوں کے عدم توازن پر قابو پانے کے لئے لایا جاتا ہے۔ جن دنوں میں اس منی بجٹ کو پیش کرنے کی تیاریاں ہو رہی تھیں، انہی دنوں تحریک انصاف کے اتحادیوں نے کھلے لفظوں میں حکومت کی معاشی پالیسیوں پر تنقید شروع کر دی تھی، ق لیگ اور شیخ رشید نے واضح طور پر اپنے عدم اطمینان کا اظہار کیا۔ ق لیگ کے عمار یاسر نے وزارت کے معاملات میں مداخلت پر اپنا استعفیٰ بھی پیش کیا۔ بی این پی نے کچھ اور وجوہ کی بنا پر اپوزیشن کے اجلاس میں شرکت کی۔ اور چند روز پہلے ساہیوال کے المناک واقعے نے حکومت کو بیک فٹ پر لا کر کھڑا کر دیا۔

ذرا تصور کیجئے کہ ایسے حالات میں عین ویسا ہی بجٹ پیش کیا جاتا جیسا کہ خبریں آ رہی تھیں، تو اس وقت تحریک انصاف کی حکومت کہاں کھڑی ہوتی؟ ایک طرف ٹیکسز میں چھوٹ دے کر عوامی غم و غصہ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی گئی اور دوسری طرف آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کی خبریں بھی پلانٹ کی جا رہی ہیں۔ ان دو سطروں میں اس منی بجٹ کا پورا خلاصہ سما جاتا ہے۔

جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ منی بجٹ ادائگیوں کے عدم توازن پر قابو پانے کے لئے لایا جاتا ہے۔ ایک بہت بڑا فیکٹر یہ بھی ہوگا کہ ان ٹیکس اصلاحات کے ملکی ریونیو پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ آیا محصولات میں اضافہ ہو گا یا کمی ہو گی؟ زیادہ تر ٹیکسز میں کمی کے ساتھ ظاہر ہے کہ ریونیو میں کمی ہوگی۔ (اگرچہ امید کی جا سکتی ہے کہ معاشی سرگرمیوں میں تیزی سے عام آدمی کو کچھ ریلیف مل سکتا ہے )۔ ایک طرف آپ کو زیادہ پیسے درکار ہیں، دوسری طرف محصولات میں کمی؟ نتیجہ چہ معنی دارد؟ اس کا سیدھا سیدھا فطری مطلب یہ ہے کہ یہ منی بجٹ عارضی ریلیف ہے۔ اگر کسی کو یہ خوش فہمی ہے کہ برادر ممالک سے ملنے والی امداد سے ملک چلے گا تو یہ خوش فہمی ہوا ہو جانی چاہیے کہ اب تک ملنے والے 2 ارب ڈالر غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی میں ہوا بھی ہو چکے ہیں۔

مجموعی طور پر ایسی ٹیکس اصلاحات کا خیر مقدم کرنا چاہیے۔ اگرچہ اسد عمر تواتر سے کہہ رہے ہیں کہ مشکل فیصلے کرنے پڑیں گے۔ اس منی بجٹ کی حد تک تو کوئی مشکل فیصلہ نہیں کیا گیا۔ فی الحال تو اسد عمر نے سجی دکھا کر کھبی مار دی ہے۔ اور میڈیا کی تنقید، اتحادیوں کے تحفظات، تیزی سے بدلتی ہوئے رائے عامہ اور تاجر طبقے کی بد ظنی کو کافی حد تک بیک فٹ پر دھکیل دیا ہے۔ دیکھنا یہ ہو گا کہ آیا یہ ریلیف وقتی ہے یا آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہوئے اگلے چند ماہ میں ایک اور منی بجٹ آ سکتا ہے۔ اگر تحریک انصاف کی حکومت مالی سال کے اختتام اور اگلے بجٹ میں بھی ان اصلاحات کو جاری رکھتے ہوئے ادائیگیوں کا توازن قائم رکھنے میں کامیاب ہوئی تو اس کو حکومت کی بڑی معاشی کامیابی سمجھا جانا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).