اسلامی معاشی انڈکس: اسلامی ممالک ہی غیر اسلامی ہیں


امریکہ کی جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے دو پروفیسروں ڈاکٹر شیرزادے رحمان اور حسین عسکری نے نہایت دلچسپ تحقیق کی ہے۔ انہوں نے ایک اسلامی انڈکس (Islamicity Index) ترتیب دیا ہے جس کے تحت ان ممالک کی فہرست مرتب کی گئی ہے جہاں معیشت، گورننس، انسانی و سیاسی حقوق اور امور خارجہ کے معاملات انسانی قوانین کے قریب تر ہیں۔ اس سلسلے میں معاشی اسلامی انڈکس اور عمومی اسلامی انڈکس ترتیب دیے گئے ہیں۔ آپ کو یہ جان کر شدید حیرت ہو گی کہ مندرجہ بالا خیالات کو سامنے رکھتے ہوئے جو فہرستیں ترتیب دی گئی ہیں ان میں اسلامی ممالک کی کارکردگی بے حد خراب نظر آتی ہے۔

معاشی اسلامی انڈکس میں آئرلینڈ نے پہلا نمبر حاصل کیا ہے جبکہ اس کے بعد ڈنمارک، لکسم برگ، سویڈن، امریکہ، نیوزی لینڈ، سنگاپور، فن لینڈ اور بیلجئم کا نمبر آتا ہے۔ مسلم ممالک میں سب سے اوپر ملائیشیا 33 ویں نمبر پر جبکہ سعودی عرب 91 ویں اور قطر 111 ویں نمبر پر آئے ہیں۔ دوسری جانب عمومی اسلامی انڈکس میں بھی صورتحال کچھ زیادہ مختلف نہیں، اس میں نیوزی لینڈ پہلے نمبر پر اور اس کے بعد لکسم برگ، آئرلینڈ، آئس لینڈ، فن لینڈ، ڈنمارک، کینیڈا، برطانیہ اور پھر آسٹریلیا کو رکھا گیا ہے۔

مسلم ممالک میں ملائیشیا کا نمبر 38 جبکہ کویت کا 48 ہے اور ٹاپ 50 میں یہ دو اسلامی ممالک ہی جگہ بنانے میں کامیاب ہو سکے ہیں۔ تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ اگر کسی ملک میں کرپشن ہو، غیر منصف حکمران ہوں، قانون سب کے لئے برابر نہ ہو، انتخاب کی آزادی نہ ہوا ور مذاکرات کی بجائے طاقت کے استعمال سے مسائل حل کیے جائیں تو بادی النظر میں ایسے معاشرے کو غیر اسلامی کہا جائے گا۔ ان کے مطابق افسوسناک بات یہ ہے کہ آج کل کے دور میں جو ممالک مسلم کہلاتے ہیں ان کے ہاں رائج نظام بالکل بھی اسلامی تعلیمات کے مطابق نہیں ہے۔

صاحبو! یہ انڈکس بذات خود مسلمان ممالک کے لئے سوچ بچار کا باعث بھی ہے کیونکہ اسلامی ریاست کے ابتدائی تصورات میں جن امور پر توجہ دینے کی ہدایت کی گئی وہ اول تو اسلامی ممالک میں نظر نہیں آتے اگر نظربھی آتے ہیں توان کا معیار عام آدمی اور حاکم کے لئے مختلف ہے۔ سعودی عرب اسلامی ممالک کی فہرست میں اول نمبرپریوں بھی ہے کہ یہاں کعبہ اللہ اور مدینہ منورہ موجود ہیں جنہیں رسول مکرم صلی اللہ علیہ والہ کے دور کا دارالخلافہ مانا گیا اور آج تک دونوں مرکز اسلام کی حیثیت کے حامل ہیں جبکہ دیگر اسلامی ممالک کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہے۔

ایران عراق شام مصر یمن افغانستان پاکستان لیبیا ملائیشیا عرب امارات انڈونیشیا نائیجیریا سمیت تمام ممالک میں انسانی حقوق عوام کے لئے حکومتی سہولیات پر مبنی ترجیحات کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ اسلامی تعلیمات کا مطالعہ کیا جائے تو اسلام نے انسانوں کے لئے جن ترجیحات کو اہمیت دی ہے عام شہری کے لئے روزگار رہائش کی سہولیات کا تصور اسلامی ریاست میں ہونا چاہیے وہ کم ازکم موجودہ اسلامی دنیا میں نظرنہیں آتا۔

دوسری جانب فلاحی ریاست کے تصور پر بھی کوئی ملک اس وقت پورا اترتا دکھائی نہیں دیتا کہ ان ملکوں میں عوامی رفاہ کے لئے کام ہو رہا ہے تو انصاف کا فقدان ہے کیونکہ اسلامی تعلیمات میں انصاف کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے تاہم یہ کمزوری بہت سے اسلامی ممالک میں پائی جاتی ہے۔ برطانوی سامراج نے شکست وریخت کے بعد جب اپنے ڈھانچے کی از سر نومرمت چاہی تو پھر عالی دماغ لوگوں پر مبنی کئی تھنک ٹینک مسلسل سوچ بچار کرتے رہے سلطنت کی ترجیحات طے کرنے کے لئے کئی طرح کے مشورے سامنے آئے جن میں تعلیمی ترجیح کی بھی بات ہوئی تو کسی نے معاشی نظام کی ترویج کا مشورہ دیا لیکن بالآخر عدل فاروقی کو بنیاد بنا کر انصاف کی فراہمی کو ترجیح بنایا گیا اور آج دنیا گواہ ہے کہ برطانیہ نے اپنا راستہ نہیں چھوڑا۔

ماضی میں یہ بھی پڑھتے رہے کہ بھارت ماتا کے بانی گاندھی نے ایک خطاب میں کہا تھا کہ میرے سامنے سادگی کے حوالے سے کئی دوسری مثالیں موجودہیں لیکن میں پھر مسلمانوں کے خلفا حضرت ابوبکر صدیق اور  حضرت عمرفاروق کا ہی حوالہ دوں گا کہ دونوں نے اپنے ادوار میں سادگی کی ایسی مثالیں پیش کیں کہ اس کے بعد اورنہ اس سے پہلے کوئی پیش کرسکا ہے

صاحبو! یہ ایک طویل بحث ہے جس پر بات کرنے کے لئے کئی صفحات درکار ہوں گے۔ اس کے لئے علما کرام کی خدمات بھی حاصل کی جا سکتی ہے اوراسلامی معیشت کی ترویج کے حوالے سے نامی گرامی معیشت دانوں سے رابطہ بھی کرنا پڑسکتا ہے کہ ایک حقیقی فلاحی ریاست ہے کیا؟ جس کا تصور اسلام نے پیش کیا؟ یقینا ہمارے سامنے اسلاف کی قربانیوں کا ذکر ہے ان کی خدمات کے لئے بھی دور جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی؟ پھر موجودہ دور میں ان کے دور کے اقدامات کا موازنہ کرنے کے بعد لائحہ عمل تیار کیا جا سکتا ہے کہ حقیقی معنوں میں فلاحی ریاست ہوتی کیا ہے؟

کیا محض عنان اقتدار سنبھال کر سابقہ روش پر چلتے ہوئے عوام کے جان ومال کے تحفظ انہیں شہری آزاد ی کی سہولت دیے بنا کوئی ریاست فلاحی مملکت کا تصور پیش کر سکتی ہے؟ یقینا ایسا نہیں ہے۔ اسلام نے مذہب کی بنیاد کو ایک طرف رکھتے ہوئے ہرشخص چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم اس کے حقوق کاتعین کیا ہے، اس کے لئے آزادی کا ایک فارمولہ طے کیا ہے؟ سوچئے کہ آج کے مسلمان ممالک میں اس فارمولے پر کس حد تک عمل جاری ہے؟ اگر جواب نفی میں ہوتو پھر اسلامی دنیا کے حاکموں کو مل بیٹھ کر سوچنا ہوگا کہ وہ کیسے اس تصورکو عملی شکل میں ڈھال سکتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).