نعیم الحق کا شہبازشریف کو غصیلہ ٹویٹ


نعیم الحق صاحب تحریک انصاف کے قیام کے دنوں ہی سے عمران خان کے معتمدِ خاص ہیں۔ غصیلے آدمی ہیں۔ کئی بار ٹاک شوز میں سیاسی مخالفین کو طیش میں آکر تھپڑمارتے اور ان پر گلاس پھینکتے رہے ہیں۔ اپنی جماعت کے اقتدار میں آجانے کے پانچ ماہ بعد بھی انہیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا مگر دشوار محسوس ہو رہا ہے کہ اب ان کی جماعت حکومت میں ہے اور حکمرانوں سے دل بڑارکھنے کی توقع رکھی جاتی ہے۔

بدھ کی شام وزیر خزانہ اسد عمر ملکی معیشت کے سانس بحال کرنے کا دعویٰ کرنے کے بعد اسے بستر سے اُٹھ کر چلنے اور پھر دوڑنے کے قابل بنانے کے لئے تیار کردہ نسخہ متعارف کروانے کے لئے اُٹھے تو پاکستان مسلم لیگ نون کے اراکینِ اسمبلی نے ہنگامہ برپا کردیا۔ ان کے شور سے صحیح معنوں میں پریشان ہم صحافی ہوئے۔ پریس گیلری یا لائونج میں بیٹھ کر اسد عمر کی تقریر کا ایک فقرہ بھی سننا محال ہوگیا۔

ہماری اسمبلی میں ایسا ہنگامہ مگر پہلی بار نہیں ہوا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کے دو ادوار گزرجانے کے بعد بھی جنرل مشرف نے جس پارلیمان کو ابھرنے دیا۔ اس کے اجلاسوں میں اپوزیشن کے شور شرابے کی وجہ سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی تھی۔ وہاں کا معمول ہوئے ہنگامے کی وجہ سے جنرل مشرف ایک بار بطور صدر پارلیمان سے سالانہ خطاب کرنے تشریف لائے تو ہوا میں مکا لہراتے ہوئے اپنی طاقت کے اظہار پر مجبور ہوئے۔

مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے درمیان ’’مک مکا‘‘ کے الزامات کے باوجود یوسف رضا گیلانی کے گرد کئی بار اسمبلی کے ایوان میں گھیرا ڈال کر ان سے سپریم کورٹ سے آئے ایک فیصلے کی وجہ سے استعفیٰ مانگا گیا۔ نواز شریف کی تیسری حکومت کے دوران تحریک انصاف نے پارلیمان کو مسلسل ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کی آماجگاہ قرار دیا۔ اسے دھاندلی کی پیداوار ٹھہراتے ہوئے 126دنوں تک پھیلادھرنا بھی ہوا۔

ماضی کے تناظر میں بدھ کی شام ہوا شور شرابہ کافی ’’مہذب‘‘ دکھائی دیا۔ نعیم الحق صاحب مگر اسے بھی برداشت نہ کر پائے۔ غصے میں ایک ٹویٹ لکھ کر شہباز شریف کو یاد دلایا کہ اصولی طورپر وہ ان دنوں نیب کے بنائے مقدمات کی وجہ سے جیل میں رکھنے کے قابل قیدی کی حیثیت رکھتے ہیں۔

قومی اسمبلی کے سپیکر نے اپنے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے انہیں ایوان میں لانے کی اجازت دے رکھی ہے۔شہباز شریف مگر اپنے ’’چمچوں‘‘ کو ہنگامہ آرائی سے روک نہیں رہے ہیں۔بہتر یہی ہے کہ فیصلہ کرلیں کہ اسپیکر کی مہربانی سے ایوان میں آنے کی سہولت حاصل کرنا ہے یا جیل میں رہنا ہے۔

نعیم الحق کے لکھے اس ٹویٹ سے ثابت ہوگیا کہ تحریک انصاف کے رہنمائوں کی اکثریت اس بات پر بضد ہے کہ ان کے سیاسی مخالفین ہر صورت سرجھکاکر ان کے اقتدار کے دنوں میں غلامانہ خاموشی اختیار کرلیں۔وگرنہ…

قومی اسمبلی کے قواعد وضوابط واضح الفاظ میں سپیکر کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ کسی مقدمے میں زیر حراست رکن اسمبلی کو پارلیمان کی کارروائی میں حصہ لینے کے لئے تھانے یا جیل سے ایوان میں لانے کا حکم جاری کرے۔ یہ روایت دنیا کی کئی پارلیمانوں میں ہے۔ اس کے پیچھے یہ اصول کارفرما ہے کہ قومی اسمبلی کی کارروائی میں حصہ لینا ایک منتخب نمائندے کا حق ہے کیونکہ لوگوں نے اسے اپنے خیالات کی نمائندگی کے لئے منتخب کیا ہے۔

تحریک انصاف مگر ’’سیاستِ کہنہ‘‘ کے اس اصول کو ناپسند کرتی ہے۔ کرپشن سے شدید نفرت کا دعویٰ کرنے والے بضد ہیں کہ ’’چور اور لٹیرے‘‘ اگر رائے دہندگان کی ’’جہالت‘‘ کی وجہ سے پارلیمان کے رکن منتخب ہوجائیں تو بھی ’’چور اور لٹیرے‘‘ ہی رہتے ہیں۔ ان کے ساتھ وہی سلوک ہونا چاہیے جو عام ’’چور اور لٹیرے‘‘ کے ساتھ ہوتا ہے۔ شہباز شریف یا خواجہ سعد رفیق کا اصل مقام جیل کی کوٹھری ہے۔ انہیں ’’مقدس‘‘ ایوان میں بیٹھنے کا کوئی حق حاصل نہیں۔

شہباز شریف کو ’’مقدس‘‘ ایوان سے دور رکھنے کے لئے راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراط نے بھی کافی شور مچایا تھا۔ ان کا مچایا شورکسی کام نہیں آیا تو کئی بار ٹی وی کیمروں کے روبرو یہ وعدہ کرتے رہے کہ ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کو ’’مقدس‘‘ ایوان سے دور رکھنے کے لئے وہ اعلیٰ عدالتوں سے رجوع کریں گے۔اس دعوے پر عملد رآمد کی زحمت اٹھانے کا اگرچہ انہوں نے تردد نہیں کیا۔

راولپنڈی کے بقراطِ عصرایک جہاں دیدہ سیاست دان ہیں۔ کئی بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوچکے ہیں۔ محترمہ کی دوسری حکومت میں انہیں اپنی لال حویلی میں ممنوعہ بور کی بندوق رکھنے کے الزام میں سزا بھی ہوئی تھی۔ مجھ ایسے کئی بدنصیب ان دنوں بہت تواترسے حکومت کو اپنے کالموں کے ذریعے یاد دلاتے رہے کہ جیل میں ہونے کے باوجود قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں شرکت شیخ رشید کا حق ہے۔

آصف علی زرداری کے لئے اس حق کے حصول کے لئے پیپلز پارٹی نے کئی مہینے ایک طویل پارلیمانی جنگ لڑی تھی۔ اس دور کے وزیر اعلیٰ سندھ جام صادق مرحوم مگر بہت ڈھٹائی سے یہ اعلان کرتے رہے کہ وہ ’’اپنے قیدی‘‘ کو سندھ کی جیل سے اسلام آباد آنے نہیں دیں گے۔ ان کی ڈھٹائی کو ان دنوں کے صدر غلام اسحاق خان کی مکمل سرپرستی حاصل تھی۔

بالآخر قومی اسمبلی کے سپیکر گوہر ایوب خان سے محترمہ بے نظیر بھٹو کی ایک طویل ملاقات ہوئی۔اس ملاقات کے بعد قومی اسمبلی کے قواعد وضوابط میں صراحت سے لکھ دیا گیا کہ سپیکر جب کسی زیر حراست رکن کی پارلیمان میں موجودگی کا حکم جاری کرے تو اس کی تعمیل میں لیت ولعل نہیں برتی جائے گی۔ہماری سیاسی تاریخ کا ایک تلخ واقعہ یہ بھی ہے کہ شیخ رشید کے ضمن میں پیپلز پارٹی اپنی کوششوں سے متعارف کردہ اس ضابطے کی تذلیل کرتی نظر آئی۔

اس بے اصولی کو ایمان داری کی بات ہے یوسف رضا گیلانی نے بطور سپیکر ہضم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ وزیر اعظم کو صاف الفاظ میں بتادیا کہ اگر شیخ رشید کوقومی اسمبلی کے اجلاسوں میں نہیں لایا گیا تو وہ اس کی صدارت چھوڑ دیں گے۔ یوسف رضا گیلانی کی ضد ہی بالآخر شیخ رشید کو جیل سے اسمبلی کے اجلاس میں لائی۔

اس سہولت سے بذاتِ خود فائدہ اٹھانے کی تاریخ طے ہوتے ہوئے بھی راولپنڈی کی لال حویلی سے اُٹھے بقراط شہباز شریف کے زیرحراست ہونے کے باوجود قومی اسمبلی کے اجلاسوں میں آنے پر چیں بہ جبیں رہتے ہیں۔اب نعیم الحق صاحب نے بھی اس ضمن میں ’’لاڑکانے چلو ورنہ تھانے چلو‘‘ مارکہ ٹویٹ لکھ دیا ہے۔

جان کی امان پاتے ہوئے تحریک انصاف کے غصیلے اصول پسندوں کو یاد فقط یہ دلانا ہے کہ آج کی قومی اسمبلی میں ان کی جماعت کو اکثریت حاصل ہے۔ اگرواقعتا وہ کسی ’’چور اور لٹیرے‘‘ٹھہرائے رکنِ پارلیمان کی ’’مقدس‘‘ایوان میں موجودگی گوارہ نہیں کرسکتے تو اسمبلی کے قاعدہ نمبر103کو ختم کردیں۔

اس قاعدے کے اطلاق ہی سے سپیکر رکن اسمبلی کی ایوان میں موجودگی کا حکم جاری کرتا ہے۔ خوامخواہ کی بیان بازی اور تڑیاں لگانے کے بجائے اس قاعدے کے خاتمے کے لئے عملی قدم اٹھائیں اور ’’مقدس‘‘ ایوان کو ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ سے پاک کردیں۔

بشکریہ روزنامہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).