ایک بیٹی نے سلام بھیجا ہے


بعض تحریریں لکھی نہیں جاتیں۔ مصنف کا قلم بس محرک ہوتا ہے۔ معمول ہوتا ہے۔ اس کو علم نہیں ہوتا کیا لکھ رہا ہے، کیا کہہ رہا ہے۔ کسی ٹائپ رائٹر کی طرح لکھے جاتا ہے۔ یہ تحریریں خود مختار ہوتی ہیں۔ قلم کو حکم دیتی ہیں کہ اور اپنا آپ ظاہر کر دیتی ہیں۔ آج کی تحریر بھی کچھ ایسی ہی ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں نا کہ یہ ہمارا اسلوب نہیں؟ یہ کوئی اور ہے۔ ہم تو محض معمول ہیں، ہاتھ میں لرزتا قلم تھامے۔ شام کے چھے بے چکے ہیں۔ شفق پر لالی نمودار ہونے کو ہے۔ یہ وقت بڑا عجیب ہوتا ہے۔ غمگین سا، نمکین سا۔ لاکھ کوشش کی کہ اس تحریر کو ٹالیں۔ یہ ہمارے لکھنے کا وقت نہیں ہے۔ شام ہونے کو ہے۔ دل ڈوبا ہوا ہے۔ سر دکھ رہا ہے۔ کتنے دنوں سے نیند پوری نہیں ہوئی۔ لیکن معمولوں کو یہ عذر کہاں جچتے ہیں۔

بچہ جمورا، گھوم جا!
گھوم گیا!

آپ سے پہلے ہی التماس ہے کہ آج کا کالم اپنی تمام عینکیں اتار کر پڑھئے گا۔ عینک پر غبار چھا جاتا ہے۔ ہر قسم کس۔ دید جتنی بھی کمزور ہو غبار میں اٹی عینک سے زیادہ سچی ہوتی ہے۔ اس کم بخت تحریر نے قلم تو ہاتھ میں پکڑا دیا لیکن یہ نہیں بتایا کہ کہاں سے شروع کریں۔ خیر جانے دیجئے۔ یہ قصہ ہے اس وقت کا جب پیڑ گھنے بھی تھے اور سایہ دار بھی۔ پاپا ایک ٹیکسٹائل مل میں کام کرتے تھے۔ صبح جاتے تھے۔ شام کو لوٹتے تھے۔

ہم گھر کے دروازے پر کھڑے ان کی راہ تکتے رہتے تھے۔ ہم اور چھوٹا بھائی ان کے آنے پر نجانے کیوں ایکسائیٹڈ ہو جاتے تھے۔ وہ تھکے ہوتے تھے لیکن ہمارے لئے ہمیشہ تازہ دم۔ ہفتے میں چھے دن جسم توڑ محنت کے بعد ہمیں اتوار کو کہیں گھمانے ضرور لے کر جاتے۔ اب خیال آتا ہے کہ جوائے لینڈ میں پاپا کو کیا جوائے ملتا تھا۔ شاید ہماری بے تکان قلقاریاں ہی ان کا حاصل تھیں۔ پاپا کبھی تھکتے نہیں تھے۔ پوری دنیا پر دبدبہ رکھنے والا میرا یہ باپ اپنے بچوں کے لئے گھٹنوں پر بھی چلتا تھا۔ گھوڑا بن کر پورے گھر کا چکر لگاتا تھا۔ سچ کہیں تو ہمارے پہلے اور آخری ہیرو وہی تھے۔

ہمیں یاد ہے کہ ہمارے بچپن کا سب سے بڑا خوف یہی تھا کہ پاپا بوڑھے نہ ہو جائیں۔ ہم چاہتے تھے کہ پلک جھپکتے ہی جوان ہو جائیں۔ اپنی مرضی سے بارش میں آئس کریم کھائیں۔ لپ اسٹک لگائیں۔ ایڑی والی جوتی پہن کر ٹک ٹک چلیں۔ لیکن بس پاپا بوڑھے نہ ہوں۔ ان کے بال ہمیشہ کالے رہیں۔ کمر ہمیشہ تنی رہے۔ وہ اسی طرح ہمیں جوائے لینڈ گھماتے رہیں۔ گھوڑا بن کر پورے گھر کی سیر کراتے رہیں۔

ہماری ایک خواہش تو پوری ہو گئی لیکن دوسری خواہش پوری نہ ہو سکی۔ ہم جوان ہو گئے۔ سردیوں کی بارش میں بھی آئس کریم کھاتے ہیں۔ امی کے دوپٹے کی نہیں بلکہ اپنی ساڑھی پہنتے ہیں۔ لال لپ اسٹک لگاتے ہیں۔ لمبی ایڑی کی جوتی پہنتے ہیں۔ لیکن پاپا بوڑھے ہو گئے۔ ان کا سر سفید ہو گیا۔ ان کے کاندھے جھک گئے۔ اب ان کی صحت بھی بہت اچھی نہیں رہتی۔ ان کا کھانے میں بھی پہلے کی طرح دل نہیں لگتا۔ بس سبزی کھاتے ہیں وہ بھی ایک پھلکے کے ساتھ۔ اب نوکروں سے غصہ بھی نہیں کرتے۔ ہمیں گھر سے باہر نکلنے پر باز پرس بھی نہیں کرتے۔ اب ہم جوائے لینڈ بھی نہیں جاتے۔ پاپا گھوڑا بن کر پورے گھر کی سیر بھی نہیں کراتے۔ بس ان کا دل کرتا ہے کہ ان کے ساتھ کوئی وقت بتائے۔

پاپا بوڑھے ہو گئے ہیں نا۔ ہم جوان تو ہو گئے لیکن پاپا بھی بوڑھے ہو گئے۔ یہ کیا ہو گیا؟ آپ کہتے ہوں گے کہ یہ تو ہونا ہی تھا۔ ہمیں نہیں پتہ تھا نا کہ ایسے بھی ہوتا ہے۔ پتہ ہوتا تو یہ آرزو نہ کرتے۔ سردی میں آئس کریم کھانے کی خواہش نہ کرتے۔

جی چاہتا ہے کہ اپنا سر پکڑ کر اونچا اونچا روئیں۔ اب تو ہمارے اور ان کے درمیان سمندر بھی حائل ہیں۔ پاپا خود کہتے ہیں کہ ہم ان کی پسندیدہ اولاد ہیں۔ اور ہم ہی ان سے سب سے زیادہ دور ہیں۔ یہ کیا ہو گیا؟ ابھی بھی ہمارا یہ غرور قائم ہے کہ پاپا کے ہوتے ہوئے کوئی ہمارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ جس بچے نے ہم سے بال چھینی پاپا اس کو ضرور ڈانٹیں گے۔ لیکن ایسا نہیں ہوتا نا۔ یہ کیا ہو گیا؟

یہ تحریر پڑھنے والی سب بیٹیاں اس بات سے بخوبی آشنا ہیں کہ ہم دنیا کی وہ پہلی بیٹی نہیں جس کو اپنے باپ سے اس قدر محبت ہے۔ یہ رشتہ ہی ایسا ہے۔ ماں کی مامتا پر بہت کچھ لکھا گیا۔ خدا کی طرف سے بھی اور بندے کی طرف سے بھی۔ اس گھنے چھتنار درخت کو کسی نے وہ وقعت نہ دی جو اس کا حق تھی۔ سب بیٹیاں یہ بھی جانتی ہیں کہ عمر کے جس بھی حصے میں ہوں باپ کے سامنے آج بھی ان کے اندر کی بچی جاگ جاتی ہے۔ پولکا ڈاٹس کی فراک پہنے، سر کی دو پونیاں بنائے، لاڈ اٹھواتی، نخرے کرتی۔ اب تو آنسو بھی مٹی میں رلتے ہیں۔ گالوں پر خود ہی سوکھ جاتے ہیں۔ سب بیٹیاں شاید ہم سے اتفاق کریں۔

جیسے بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں اسی طرح باپ بھی سانجھے ہوتے ہیں۔ خدا جانے یہ جدائی کا اثر ہے یا ہمارا کمزور دل، ہمیں ہر کسی کے باپ کو دیکھ کر پاپا یاد آتے ہیں۔ کسی کے بھی باپ کی بیماری ہمارا دل لرزا دیتی ہے۔ شاید کچھ دنوں میں پاپا کا آپریشن ہو۔ ہم نہیں جا پائیں گے۔ یہیں بیٹھ کر کانپتے رہیں گے۔

ابھی کچھ دنوں سے ایک مجبور بیٹی کی ٹویٹس دل گداز کیے جا رہی ہیں۔ وہی بیٹی جسے ماں کی آخری سانس دیکھنا نصیب نہیں ہوئی۔ وہی بیٹی جو باپ کی خاطر جیل کاٹ آئی۔ وہی بیٹی جس کے پاس باپ ہی بچا ہے لیکن شاید وہ بھی نہیں۔ وہی بیٹی جو لمحہ بہ لمحہ اپنا باپ بھی کھو رہی ہے۔ وہی بیٹی جسے اپنے باپ کی میڈیکل رپورٹس میڈیا کے ذریعے معلوم ہوتی ہیں۔ وہی بیٹی جو اس وقت ایک ہی ملک میں ہوتے ہوئے اپنے ہی باپ کے گلے لگ کر کھل کے رو بھی نہیں سکتی۔ وہی بیٹی جو اپنی مسکراہٹ کھو چکی ہے۔ اسی بیٹی کی ٹویٹس پڑھ کر دل بہت دکھتا ہے۔

وقت کی تو سرشت ہے گزرنا۔ گزر جائے گا۔ لیکن اس گھاؤ کا نشان رہ جائے گا۔
مریم نواز، آپ سے لاکھ اختلافات صحیح لیکن آپ کے درد کو سمجھ سکتے ہیں۔ باپ تو سانجھے ہوتے ہیں۔
خدا کسی بیٹی کو باپ کا دکھ نہ دکھائے۔ ہر بیٹی کا باپ ہمیشہ اس کی ڈھال بنا رہے۔ اس کے سر کا تاج بنا رہے۔

اگر آپ کے والد آپ کے پاس ہیں تو اپنی خوش قسمتی پر نازاں ہوں۔ ان کے پاس بیٹھئے۔ ان کا ہاتھ تھامئے اور انہیں بتائیے کہ بہت دور سے کسی نے سلام بھیجا ہے۔ اگر وہ نام پوچھیں تو کہہ دیجئے گا۔ ایک سانجھی بیٹی۔
آداب۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).