بلوچستان کی تعلیم پر قابض اساتذہ


الف لیلہ کی کہانیوں سی داستان لیے محکمہ تعلیم بلوچستان میں ہر روز ایک نیا کردار اور ایک نئی کہانی ہوتی ہے ابھی کچھ دنوں کی بات ہے کہ چیئرمین بلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سکینڈری ایجوکیشن نے اعلامیہ جاری کیا کہ امتحانی مراکز پر اساتذہ کی ڈیوٹیاں اساتذہ کے 3 گروپوں کے درمیان ٹاس کے ذریعے لگائی جائیں گی۔ یہ فیصلہ اور ایسے دیگر غیر قانونی فیصلے اساتذہ تنظیموں کی دباؤ پر ہوتے آرہے ہیں۔ کیونکہ محکمہ تعلیم کے ذمہ داروں نے اپنے وزیر، اساتذہ تنظیموں اور اپنے آپ کو بھی خوش رکھنا ہے گویا یہ پیغمبری والا شعبہ نہ ہوا بلکہ The venetian Macao مکاؤ کی دی وینیشن کسینو یا جوا خانہ کا ٹیبل ہوا جہاں کارکردگی کی بجائے سکہ اچھال کر قسمت آزمائی جاتی ہے۔

اچھے اور سینئر اہلکاروں کو نظر انداز کرکے جونئر اور کمزور ترین شخص کو چیئرمین بلوچستان آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سکینڈری ایجوکیشن پر مسلط کرنے والے و تعیلم کو چار چاند لگانے والے انگریزی زبان سے نابلد مشیر سیکنڈری ایجوکیشن اپنے سیکرٹری اور ایڈیشنل سیکریٹری کے ہمراہ لندن کی یخ بستہ ہواوں میں ہیں جہاں پر یہ لوگ تعلیمی اصلاحات کے سیمینار میں شرکت تو کرنے گئے ہیں۔ لیکن ان کو شاید یہ معلوم نہ ہو کہ یہاں تعلیم پر سمجھوتا جرم و گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ بلوچستان میں تعلیم کا شعبہ گوناگوں مسائل و مشکلات میں گھرا ہوا

اور اس صوبے کو آج تک ایسا کوئی غوطہ خور میسر نہیں آیا جو اس ڈوبے ہوئے ٹائی ٹینک کی باقیات کو ڈھونڈ کر لے آئے۔ جو بھی حکومت آئی اپنے دو نمبر کاموں کی وجہ سے اساتذہ تنظیموں کے ہاتھ بلیک میل ہوکر تعلیمی اصلاحات کرنے میں ناکام رہی کیونکہ جب بھی سیاسی صوبائی وزیر تعلیم نے اپنے مفادات کے کام کیے تو ان کو اساتذہ تنظیموں کو خاموش رکھنے کے لئے ان کے غیر قانونی کام مجبورا کرنے پڑے اور یوں ان کی دوستی ہوئی اور مفاداتی حمام میں دونوں فریق ننگے ہوئے اور گھل مل گئے۔ محکمہ تعلیم کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے لگے اور نقصان عام بلوچستانی بچے کا ہوا اور وہ تعلیم کے زیور سے محروم رہا ہے دوسری جانب جو بھی حکومت وقت آئی انہوں نے اپنا فعال کردار ادا نہیں کیا جس کی وجہ سے مسائل مزید پیچیدہ ہو گے۔ کمرہ جماعت میں پڑھانے والا استاد ہو یا دفتری کام کرنے والا بابو یا پھر محمکہ تعلیم کے انتظامی امور کے ضلعی افسران ہر ایک کی یہی خواہش رہی کہ ان کے ذاتی مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جائے۔ ایسے وقت میں کرن کی امید وزیراعلی بلوچستان میر جام کمال خان نظر آئے۔ جن سے عوام کو توقعات وابستہ ہوگئیں کہ پڑھے لکھے اور مدبر وزیراعلیٰ ان مسائل کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات اٹھائیں گے۔

عوامی خواہشات کے عین مطابق انہوں نے اقدامات اٹھانا شروع کر دیے لیکن پھر کیا ہوا کہ چلتی گاڑی کو روکنا پڑا تاریخ ساز فیصلہ کرتے ہوئے موجودہ صوبائی کابینہ نے تعلیم کو لازمی سروس قرار دینے کا بل 2018 کی منظوری دی۔ اس ایکٹ کو کابینہ کی منظوری کے بعد اب اسمبلی کے اجلاس میں لانے سے پہلے اسلام پرست اور قوم پرست اپوزیشن کی جانب سے بحث و مباحثہ کی نظر کر دیا گیا ہے۔ بلوچستان لازمی تعلیمی خدمات کے نام سے منسوب مسودہ بلوچستان میں تعلیم کی خستہ حالی کو فعال بنانے کے لیے کسی نعمت سے کم نہ ہوگا لیکن سیاست در سیاست کرنے والے یہ لوگ اپنے دور حکومت میں تعلیمی اصلاحات تو نہ لا سکے لیکن ایک پڑھے لکھے وزیراعلی کا راستہ روکنے کی ٹھان لی۔ اس پر ایک کمیٹی اسمبلی میں اپوزیشن نے دیگر تعلیم دشمن ہمنواوں کے ہمراہ شور شرابہ کر کے حکومت کو بنانے پر مجبور کر دیا۔ تا کہ اس پر غور و خوض کے نام پر اس بل کو اسمبلی سے منظور ہونے سے روکا جائے۔

اور اساتذہ تنظیموں کو یہ تسلی دی کہ وزیراعلیٰ کچھ دنوں کے مہمان ہیں ہم ان کے خلاف عدم اعتماد لا رہے ہیں اس کا بل ہم روک رہے ہیں اس کے بعد ہم اپنی کابینہ میں اس بل کو واپس لے لیں گے۔ اس مسودے کا بہترین نقطہ جس میں احتجاج کی صورت میں بغیر کسی وارنٹ کے استاد کو گرفتار کرنا شامل ہے۔

اس جیسے دیگر بہت سارے نقاط سے مزین یہ ایکٹ ہے۔ یہ بات بڑی واضح ہے کہ محکمہ تعلیم بلوچستان کی زبوں حالی و تباہی کے ذمہ دار اساتذہ کی تنظیمیں اور محکمہ کے ملازمین ہیں۔ تعلیم کی بہتری کے لئے جب بھی کسی صوبائی حکومت نے کوشش کی تو سب سے پہلے اس کے رستے میں اساتذہ تنظیمیں مافیا کے طور آڑے آئیں جنہوں نے مختلف طریقوں سے حکومت کو پریشرائز کرکے کئی اچھے قدم اٹھانے سے روکے رکھا اس بل کے بعد کل اساتذہ و کلرکل اسٹاف کی تعداد 70993 جس میں اصلی و بوگس اساتذہ شامل ہیں۔

یہ تنظیمیں یہ تاثر دے رہی ہیں کہ 1 کروڑ 23 لاکھ 44 ہزار 480 کی آبادی والے بلوچستان میں صرف ان 70 ہزار سرکاری ملازمین کی وجہ سے گویا جمہوریت خطرے میں پڑ گئی ہے اور انہوں نے مظاہرے شروع کر دیے۔ اس سے کیسے تعلیم کے شعبے میں مزید بہتری آئے گی؟ کیوں کہ محکمہ تعلیم میں اساتذہ تنظیموں پر پابندی لگانے بغیر محکمے میں جاری کرپشن کمیشن خوردبرد غیر حاضر و بوگس اساتذہ کی نشاندہی سیاسی مداخلت میرٹ کی پامالی اور اقربا پروی کو بند کرنا ممکن نہ ہوگا۔

بلوچستان میں اکثر محکمے حکومت کی غفلت اور پلاننگ کے فقدان کی وجہ سے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ وقتی طور پر منصوبہ سازی کرنے والوں نے کبھی مستقل بنیادوں پر منصوبہ سازی نہیں کی ہے بلوچستان میں تعلیمی پسماندگی کا رونا ہر حکومت روتی ہے لیکن روز اول سے ایمرجنسی کے طلب گار محکمہ تعلیم پر اس انداز میں توجہ نہیں دی گئی جس کا تقاضا حالات وواقعات نے کیے رکھا۔ محکمہ تعلیم جس کا کل بجٹ 53.19 ارب ہے اس میں سے اساتذہ کو بطور تنخواہ صوبہ بلوچستان مجموعی 43.89 سالانہ ادا کررہا ہے جو کہ سرکاری سکولوں کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے مہنگے ترین تعلیمی نظام کی عکاسی کرتا ہے۔

جہاں پرائمری کے ایک بچے پر فی طالب علم سالانہ 58888 روپے جبکہ ہر ماہ فی طالب علم 4907 روپے خرچ کیا جاتے ہیں۔ اور پرائمری سکول میں پڑھانے والا استاد بھی ایک لاکھ بیس ہزار روپے تک کی ماہانہ تنخواہ لیتا ہے۔ جو کہ ایچی سن کے جونئر استاد کو اتنی تنخواہ نہیں ملتی۔ بلوچستان میں جو بھی حکومت آئی اس نے عوام کو بطور ٹرافی 15 ہزار ملازمتیں دکھائیں اور ساتھ ہی بھرتیوں کا اعلان بھی کردیا۔ جس میں زیادہ تر ایجوکیشن میں ہر دور بھرتیاں کی گئیں۔

قوم پرست اور اسلام پرست اگر در حقیقت اس صوبے سے جہالت اور پسماندگی کا خاتمہ چاہتے ہیں تو وہ سیاست دیگر ایشوز پر کرسکتے ہیں نہ کہ اس اہم ترین بل پر۔ اپوزیشن کا فرض بنتا ہے کہ اس ایکٹ کو منظور کروانے میں حکومت کا ساتھ دے۔ اور اپوزیشن اس

خواب خرگوش میں رہ کر وزیراعلیٰ اور اس کی حکومت کو گرانے کی خواب دیکھنے چھوڑدیں۔ سینیٹ کے حالیہ ضمنی الیکشن کے نتائج کے بعد ایک سال تک حکومت اپنی جگہ ہے اس کو گرانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ اور اپوزیشن کا ہر رکن اسمبلی ایک سال تک ماہانہ 3 لاکھ 70 ہزار کی تنخواہ پر کام کرتا رہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).