دکھیارے: انیس اشفاق نے لکھا ہے


”دکھیارے“ انیس اشفاق کا ناول ہے۔ یہ منظر اور ماحول کی کہانی ہے۔ دونوں کا المیہ اور طربیہ ایک ہی ہے۔ دونوں کو ثبات نہیں۔ کچھ روحیں اس تبدیلی کو سہار لیتی ہیں مگر بعض کے لیے یہ تبدیلی سینے میں انی کی طرح پیوست ہو جاتی ہے۔ ناول کا راوی چھوٹا بھائی ہے جس کے لیے اپنے بڑے بھائی کی زندگی سے متعلق بے فکری پریشانی کا باعث بنتی ہے۔ وہ بہتا پانی رمتا جوگی ہے اپنی موج میں مست اپنی ترنگ میں رواں۔  نہ بیماری کی فکر نہ علاج کا روگ۔ کوئی سروکار ہے تو اپنی ماں کی قبر پر کتبے کی تنصیب سے یا پھر امام باڑوں کو خستگی سے بچانے سے۔

خیال آتا ہے کہ ناول نگار اس بیانیے سے کیا بتانا چاہتا ہے۔ پہلا نکتہ تو یہ ہے کہ آج سے پچاس سال پہلے اس طرح کے کرداروں کی ہماری زندگیوں میں جگہ تھی۔ ان کی یہ بے عملی عمل پسندوں کو آج کی طرح کھٹکتی نہیں تھی۔ وہ اپنی شرطوں جیتے اپنے برتے زندگی کا جوا کھیلتے۔ نہ جیت کی فکر نہ مات کا غم۔  اگر سروکار ہے تو اپنے آج سے۔

کہانی کار کی مشاقی پر حیرت اس وقت ہوتی ہے جب اپنے بھائی کی زندگی کے بیان میں حزن ہمیں زندگی سے دور نہیں کرتا۔ ایک حوصلہ رہتا ہے۔ کرداروں سے انسیت پیدا ہوتی ہے۔ لکھنؤ کے ماحول میں موجود خواب ناک منظرنامہ حقیقت بن کر سامنے آتا ہے۔ ایک مہذب آہستہ روی۔ ایک متین تفکر۔ نہ معلومات کا انبار نہ جذبات کی منڈی۔ انیس اشفاق اپنے قاری کے اطمینان سے زیادہ اپنے ماحول اور منظر پر توجہ دیتے ہیں۔

بیان میں آرائش کا دخل کم ہوتا ہے۔ آرائشی نثر سے شریفانہ فاصلہ نیرمسعود کی دین محسوس ہوتا ہے۔ نیرمسعود بھی کیفیت کے بیان میں آرائش کو پسند نہیں کرتے۔ ناول میں راوی نے اپنے دو معاشقوں کا ذکر بھی کیا ہے۔ جی، اپنی اپنی زندگی ہے اپنا اپنا چلن۔ ناول میں ان معاشقوں کا بیان بڑے سنبھلے انداز میں کیا گیا ہے۔ ایسے جیسے دھیمی آنچ پر کچھ تیار کیا جا رہا ہو۔ عشق کی کسک اور لاحاصلی کی چبھن پڑھنے والے کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔

دُکھیارے کے ماحول میں تیزی ہرگز نہیں۔ ایک پیچ ہے جس کے لبھاؤ میں آپ پڑھتے چلے جاتے ہیں اور بیانیے کی طاقت آپ کی کیفیت میں حزن اور انبساط بھرتی چلی جاتی ہے۔ یہاں ہاؤ ہو، چیخم دھاڑ نہیں کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی ہو۔ آخر تہذیب کا بیان ہے، مذاق تھوڑی ہے۔ تہذیبیں اپنے بیانیے کی طاقت پر استوار ہوتی ہیں اور مشاق لکھاری اپنی پوروں سے ان کی حفاظت کرتا ہے۔ لکھنؤ کے بارے میں بہت لکھا گیا۔ اس تمام کے باوجود انیس اشفاق کی نثر اور بیان کے سلیقے کی طاقت اپنی جگہ ہے۔

اس ناول میں ڈراما کم ہے۔ تیز تیز وارداتوں سے گزرنے والے قارئین کے لیے شاید اس فکشن میں دلچسپی کم ہو مگر امراؤ جان ادا کے قتیل قاریوں کے لیے اس میں بہت کچھ ہے۔ لکھنؤ کے فکشن میں طوائف کا بیان بہت ہے۔ ٹھیک ہے وہ معاشرت اس بیان کے بغیر تشنہ ہے لیکن انیس اشفاق ایک متوازی بیانیے کی مدد سے ایک صورت حال بیان کی ہے۔ دہرایا نہیں۔ دکھیارے ہاتھ سنبھال کر لکھا گیا فکشن ہے۔ شرط اتنی ہے کہ اسے احتیاط سے پڑھا جائے۔

بیان کے اس سلیقے پر توجہ دی جائے۔ زیادہ تیزی نہ دکھائی جائے۔ پھر تو اس ناول میں آپ کو دینے کے لیے بہت کچھ ہے۔ غم، خوشی، سلیقہ، متانت، محبت، یاد، انتظار، ٹھہراؤ، کیفیت اور جانے کیا کیا کچھ جو ان کہا ہے، اَن سنا ہے۔ آخر ساری باتیں ایک ساتھ کرنا بھی دانائی نہیں ہوتا۔ انیس اشفاق کا یہ ناول پڑھ کر نثر کے وقار کا پتا چلتا ہے اور یہ بڑی بات ہوتی ہے۔

انیس اشفاق

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).