حکومت کے لئے سیاسی تصادم سے گریز بہتر ہو گا


حکومت کے نمائیندے اپوزیشن کے ساتھ تصادم کی صورت حال کو قائم رکھنے کی کوشش کررہے ہیں۔ گزشتہ روز وزیر اعظم کے معاون خصوصی نعیم الحق نے اپوزیشن لیڈر کو متعدد ٹویٹ پیغامات میں دھمکیاں دی تھیں جس کے رد عمل میں اپوزیشن لیڈروں نے بھی سخت کلامی کی ۔ لیکن وزیر اطلاعات چوہدری فواد نے ترکی بہ ترکی جواب دے کر یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ حکومت اپوزیشن سے کسی مصالحت کے موڈ میں نہیں ہے۔ حکومت اقتدار کے چھے ماہ پورے کرنے والی ہے ۔ جسے عام طور سے کسی حکومت کے لئے ہنی مون پیریڈ کہا جاتا ہے۔ اب تک تحریک انصاف اور حکومت کے نمائیندوں کی تان سابقہ حکومتوں کی غلطیوں کا احاطہ کرنے اور انہیں ملک کو درپیش ہر مسئلہ کا سبب قرار دینے پر ٹوٹتی رہی ہے۔ ’منی بجٹ‘ کے نام پر اپنی ہی مالی پالیسیوں کو تبدیل کرنے کا اعلان ہو یا وزیر اعظم کے ایوان میں آنے پر ہنگامہ آرائی کا معاملہ، سرکاری نمائندے پہلی بار برسر اقتدار آنے اور عمران خان کے ساتھ وابستہ امیدوں اور جذباتی وابستگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ذمہ داری سے گریز کا راستہ نکال رہے ہیں ۔ تاہم اب حکمران جماعت کو باور کرنا ہوگا کہ یہ رویہ مستقل طور سے اختیار نہیں کیا جاسکتا۔ اپوزیشن کی طرف سے الزام تراشی اور ہنگامہ آرائی کسی بھی پارلیمانی جمہوریت میں معمول کی بات ہے لیکن حکومت کو اس کے جواب میں بردباری اور تحمل کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔

وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے آج پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے جو لب و لہجہ اختیار کیا ہے، اس سے حکومت کی سیاسی حکمت عملی میں کسی خاص تبدیلی کا اندازہ نہیں ہوتا۔ فواد چوہدری اور ان کے لیڈر عمران خان کو سمجھنا چاہئے کہ سیاسی تصادم کی صورت میں اپوزیشن کو کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ حکومت پر اعتبار میں کمی واقع ہو گی۔ عوام اب تک ان وعدوں کی تکمیل کا انتظار کررہے ہیں جو روزگار کی فراہمی اور سستے مکانوں کی تعمیر کے لئے کئے گئے تھے۔ اس کے علاوہ وہ ضروریات زندگی کی فراوانی اور سستے داموں دستیابی کی خواہش بھی رکھتے ہیں۔ عمران خان اور تحریک انصاف یہ دعوے کرتے ہوئے اقتدار تک پہنچے ہیں کہ پاکستان وسائل سے مالامال اور ’امیر‘ ملک ہے لیکن بدعنوان حکمرانوں کی کرپشن نے سرکاری خزانے کو بھاری نقصان پہنچایا ہے اور لیڈروں نے اپنی دولت میں اضافہ کیا ہے۔

 اس پیغام کا آسان سا مطلب یہ تھا کہ تحریک انصاف کی شفاف اور دیانت دار قیادت اقتدار سنبھالے گی تو سرکاری وسائل نہ تو ناجائز طریقے سے نجی تجوریوں میں منتقل ہوں گے اور نہ ہی منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک سے باہر بھیجے جاسکیں گے۔ اس طرح کبھی روزانہ دس ارب روپے بچانے اور کبھی سالانہ دس ارب ڈالر سرکاری خزانہ میں اضافہ کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے۔ تحریک انصاف کے لیڈر اس حوالے سے مخلتف بیانات دیتے رہے ہیں۔ ایک دعوے کے مطابق عمران خان کو برسر اقتدار آتے ہی غیر ملکی بنکوں میں چور بازاری سے جمع کیا ہؤا 200 ارب ڈالر واپس لانا تھا ، جس کے بعد تمام قرضہ اتار کر بھی عوام کی بہبود کے منصوبوں کے لئے ایک سو ارب ڈالر سے زائد رقم بچ جاتی۔

تاہم حقیقت احوال یہ ہے کہ حکومت نے ترقیاتی منصوبوں میں چالیس فیصد تک کٹوتی کی ہے اور حکومت کے اعلیٰ و ادنیٰ عہدے دار سعودی عرب یا متحدہ عرب امارات سے عبوری قرضہ وصول ہونے پر اپنی مالی و خارجہ پالیسی کی کامیابی کے ڈنکے بجاتے خوشی سے نہال ہوئے جاتے ہیں۔ وزیر اعظم نے برسر اقتدار آنے کے بعد اب تک کئے جانے والے سب غیر ملکی دورے قرضہ لینے اور مالی سہولت حاصل کرنے کے لئے کئے ہیں۔ اس افسوسناک صورت حال کو تبدیل کرنے کے لئے پارلیمنٹ میں اپوزیشن اور حکومت کو سر جوڑ کر بیٹھنے اور ملکی معیشت کو درپیش چیلنجز سے نجات دلانے کے لئے حکمت عملی بنانے کی ضرورت تھی۔ لیکن اس کے برعکس ایوان کے اندر اور باہر ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لئے جتن کئے جارہے ہیں۔

حکومتی نمائندوں کی تازہ ترین گرم جوشی کی ایک وجہ ساہیوال سانحہ ہے جس پر پنجاب حکومت اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی طرف سے 72 گھنٹے کے اندر انصاف فراہم کردینے کے دعوؤں کے باوجود عام طور سے نہ جے آئی ٹی رپورٹ پر یقین کیا جارہا ہے اور نہ ہی حکومتی اقدامات کو مناسب اور کافی سمجھا جارہا ہے۔ اس سانحہ کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ زور پکڑ رہاہے اور یہ تاثر بھی راسخ ہورہاہے کہ تحریک انصاف کی حکومت بھی سرکاری اداروں کی دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے پرانا رویہ اور ہتھکنڈے اختیار کرنے پر ہی مجبور ہے۔ ساہیوال سانحہ کے بعد کہے جانے والے ہر لفظ اور اٹھائے گئے ہر قدم میں یہی مجبوری کارفرما نظر آتی ہے۔ عمران خان قطر روانہ ہونے سے قبل یہ وعدہ کرکے گئے تھے کہ وہ واپس آتے ہی متاثرین کو فوری انصاف فراہم کریں گے اور قصور واروں کو مثالی سزائیں دلوائی جائیں گی۔ لیکن واپس آنے کے بعد انہوں نے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے ملاقات کرنے اور جے آئی ٹی رپورٹ طلب کرنے کے سوا کوئی اقدام نہیں کیا۔ انہوں نے یہ بھی مناسب نہیں سمجھا کہ وزیر اعلیٰ کی طرف سے اس سانحہ سے نمٹنے میں سرخروئی کے اعلان سے لاتعلقی کا اعلان کرتے یا عثمان بزدار کو متنبہ کرتے کہ ایک انسانی المیہ کو سیاسی نعرے بازی کا ذریعہ نہ بنایا جائے بلکہ صورت حال کی اصلاح کے لئے مؤثر انتظامی اور عملی اقدامات کئے جائیں۔

وزیر اعظم اور پنجاب حکومت کی اسی ناکامی کی وجہ سے قومی اور پنجاب اسمبلیوں میں اپوزیشن کوہنگامہ آرائی کرنے اور حکومت کو مورد الزام ٹھہرانے کا موقع ملا ہے۔ ساہیوال سانحہ ایک قومی المیہ کی حیثیت رکھتا ہے جس نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ لیکن اب حکومت کے نمائندے اس معاملہ پر اپوزیشن کے احتجاج اور ترش کلامی کو وزیر اعظم کی توہین قرار دیتے ہوئے جوابی حملوں پر اترے ہوئے ہیں۔ کل نعیم الحق نے ٹویٹ پیغامات میں اپنا غصہ نکالا تھا اور اپوزیشن لیڈر کی اصل جگہ جیل قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ اگر شہباز شریف اور ان کے ’چمچے‘ اپنی بدزبانی سے باز نہ آئے تو اپوزیشن لیڈر کو اسپیکر کے پروڈکشن آرڈر پر اسمبلی میں آنے کی سہولت ختم کر دی جائے گی۔ آج فواد چوہدری نے اسی دھمکی آمیز لب و لہجہ کو جاری رکھتے ہوئے قرار دیاہے کہ شہباز شریف اور سعد رفیق کی اصل جگہ جیل ہے۔

البتہ اس سے بھی زیادہ افسوسناک یہ رویہ ہے کہ وزیر طلاعات نے 2014 کے ماڈل ٹاؤن سانحہ اور ساہیوال سانحہ کا موازنہ کرتے ہوئے کہاہے کہ ماڈل ٹاؤن کی منصوبہ بندی کی گئی تھی جبکہ ساہیوال کا واقعہ غلطی کی وجہ سے ہؤا ہے۔ کسی ایک انسانی المیہ کو دوسرے کے مقابل رکھنا یا ان کا موازنہ کرنا ناقص سیاسی حکمت عملی اور شرمناک انسانی رویہ ہے۔ ساہیوال سانحہ پر مسلم لیگ (ن) اور اس کے لیڈروں کے احتجاج کو یہ کہہ کر مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ ان کے دور میں بھی ماڈل ٹاؤن کا واقعہ ہؤا تھا ۔یا پیپلز پارٹی کو یہ کہہ کر چپ نہیں کروایا جاسکتا کہ سندھ میں بھی پولیس مقابلوں میں لوگ مارے جاتے رہے ہیں۔

 کوئی ایک المیہ دوسرے المیہ کا جواز نہیں بن سکتا۔ اسی طرح اگر ماضی میں پولیس اور سیکورٹی ادارے ظلم کرتے رہے ہیں تو موجودہ حکومت کے نمائندے اس بنیاد پر اس وقت شہریوں کے خلاف ہونے والی دہشت گردی کو درست قرار نہیں دے سکتے۔ تحریک انصاف کو باور کرنا ہوگا کہ مرکز کے علاوہ پنجاب میں بھی اس کی حکومت ہے۔ اگر سابقہ حکمران ذاتی طور پر ملوث ہونے کی بنا پر ماڈل ٹاؤن واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرواکے قصور واروں کو سزا نہیں دلوا سکے تو موجودہ حکومت کو الزام تراشی کی بجائے اب خود یہ کام کرنا چاہئے۔ کیوں کہ اختیار اب اس کے ہاتھ میں ہے۔ تحریک انصاف کو سمجھنا ہو گا کہ وہ صرف ساہیوال سانحہ ہی کی ذمہ دار نہیں ہے بلکہ ماڈل ٹاؤن سانحہ کی سچائی سامنے لانا بھی اب اس کا ہی فرض ہے۔

پنجاب حکومت ساہیوال میں ایک طرف سی ٹی ڈی کو قصور وار قرار دے رہی ہے تو دوسری طرف سی ٹی ڈی کی کارروائی کو درست کہہ کر ذیشان جاوید کو دہشت گرد کہتی رہی ہے جس کے بارے میں جے آئی ٹی نے حقائق تلاش کرنے کے لئے وقت مانگا ہے۔ اس دوران آج یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ صدر عارف علوی نے ذیشان کے بھائی اور والدہ کو ملاقات کے لئے اسلام آباد مدعو کیا ہے۔ حیرت ہے کہ ملک کے صدر نے ایک ایسے شخص کے اہل خاندان کو مدعو کیا ہے جسے پنجاب حکومت اور پولیس دہشت گردی میں ملوث اور اس سانحہ کی وجہ قرار دے رہے ہیں۔

 تحریک انصاف کو دوسروں پر کیچڑ اچھالنے سے پہلے اپنے طرز حکومت اور اقدامات پر نظر ڈال لینی چاہئے۔  صدر سے ذیشان کے اہل خاندان کی ملاقات کا بظاہر کوئی جواز نہیں ۔ وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ یا کسی اعلیٰ سیاسی شخصیت نے سانحہ میں جاں بحق ہونے والے خلیل یا ذیشان کے گھر جا کر ان کے اہل خانہ سے تعزیت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ لیکن اب صدر مملکت غیر واضح حالات میں ایک مشتبہ شخص کے بھائی اور والدہ کو ملنا چاہتے ہیں۔ حکومتی نمائندوں کے اشتعال انگیز بیانات اور صدر مملکت کے اس اقدام سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت ساہیوال سانحہ پر میڈیا کا فوکس ہٹا کر آگے بڑھنا چاہتی ہے ۔ یہ طرزعمل گڈ گورننس کی مثال قائم نہیں کر سکتا۔

عمران خان کو ساہیوال سانحہ سے حقائق کی بنیاد پر نمٹنا چاہئے تاکہ عوام کا غم و غصہ کم ہو سکے۔ اس سانحہ کو عذر خواہی یا اپوزیشن کے مقابلے میں خود کو بہتر ثابت کرنے کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ ملک کی منتخب حکومت کو کام کرنا چاہئے اور اسے کامیاب بھی ہونا چاہئے۔ لیکن یہ کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب حکومت ذمہ دار ادارے کے طور پر کام کا آغاز کرے گی اور اسے تحریک انصاف کے پبلسٹی یونٹ کے طور پر استعمال نہیں کیا جائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali