بلوچستان میں بیروزگاری میں تیزی سے اضافہ


بلوچستان ایک طرف قدرتی وسائل سے مالامال صوبہ ہے تو دوسری طرف غربت میں بھی بلوچستان ملک میں پہلے نمبر پر ہے۔ یہاں کی معیشت کا دارومدار زراعت اور مالداری یا پھر سرکاری ملازمتوں پر ہے۔ پرائیوٹ سیکٹر نہ ہونے کی وجہ سے نوجوانوں کی نظریں سرکاری ملازمتوں پر ہیں۔ طویل خشک سالی کی وجہ سے زرعی اور مالداری کے شعبے بھی تباہ ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے بیروزگاری مزید بڑھ گئی ہے۔ ہرسال ہزاروں کی تعداد میں طلباء ڈگریاں حاصل کرتے ہیں لیکن ملازمتوں کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔

صوبائی حکومت ہربجٹ میں ہزاروں نوکریوں کا اعلان توکرتی ہے۔ پورا سال گزرتا ہے لیکن بھرتیاں نہیں ہوتیں۔ اگربھرتیاں ہوتی ہیں تو وہ سفارش کی بنیاد پر ہوتی ہیں جس کی وجہ سے نوجوانوں میں مایوسی پھیل گئی ہے۔ 2016 کے آخر میں سابق چیف سیکرٹری بلوچستان سیف اللہ چھٹہ نے ایک اجلاس کے دوران بتایا کہ بلوچستان میں 35 ہزار کے قریب اسامیاں کافی عرصے سے خالی پڑی ہیں۔ 2017 کے آ غاز میں نواب ثناء اللہ زہری نے اعلان کیا کہ ہم 4 ماہ کے اندر تعیناتیاں کریں گے۔

وہ ایک سال تک مزید وزیراعلیٰ رہے لیکن اپنا وعدہ وفا نہ کرسکے۔ واضح رہے یہ وہی اسامیاں تھیں جس کو بنیاد بنا کر بلوچستان میں سابق وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف ایک ماحول بنایا گیا کہ وہ نوجوانوں کو روزگار دینے میں ناکام ہوئے ہیں اور نوجوانوں میں مایوسی پھیلی ہے۔ جس پر ان کے خلاف اپنے ایم پی ایز نے بھی بغاوت کی اور اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لائی گئی جس پر بالآخر وزیراعلیٰ نواب ثناء اللہ زہری کو استعفیٰ دینا پڑا اور صوبے میں میرعبدالقدوس بزنجو کی حکومت قائم ہوئی۔ نئی حکومت نے بھی اعلان کیا کہ ہم حکومت کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی ہزاروں اسامیوں پر بھرتیاں کریں گے۔ حکومت کی مدت تو ختم ہوئی لیکن بیروزگار نوجوانوں کی امیدیں پوری نہ ہوسکیں

عبدالقدوس بزنجو کی حکومت میں ہر جمعہ کو صوبائی دارالحکومت میں وزیراعلیٰ اور صوبائی وزراء کھلی کچہریوں کا انعقاد کرتے تھے۔ کھلی کچہر ی میں آنے والے زیادہ ترسائلین کی درخواستیں نوکریوں کے حصول کے لئے ہوتی تھیں جس میں بڑی تعداد میں درخواستیں معذور افراد کی بھی تھیں۔ چند کھلی کچہریوں کے انعقاد کے بعد وزراء کی جانب سے کھلی کچہری کے انعقاد سے پہلے ہدایت جاری ہوتی تھی کہ نوکریوں کے حصو ل کے لئے آنے والے سائلین کو ہمارے پاس نہ چھوڑا جائے۔

بلوچستان میں پہلی بار وزیراعلیٰ عبدالمالک بلوچ کے دورمیں ہی میں این ٹی ایس پر پانچ ہزار اساتذہ کی تعیناتیاں کی گئیں جس کے بعد نوجوانوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ اب ہمارے اچھے دن آگئے اور ہمیں روزگار کے مواقع میسر ہوں گے۔ اس کے بعد بھی باقاعدگی حکومت کی جانب سے صوبے کے مختلف اخبارات میں تسلسل سے سرکاری اسامیوں کے اشتہارات مشتہر ہوتے تھے۔ ٹیسٹ اورانٹرویو کا انعقاد بھی ہوجاتا تھا لیکن اس کے بعدمختلف حیلے بہانے بناکر اسامیوں کو منسوخ کیا جاتا تھا یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔ 13 مارچ 2017 ء کو بلوچستان اسمبلی کے ایک اجلاس میں اراکین کے مابین بحث کے دوران انکشاف ہوا کہ ایس اینڈ جی اے ڈی میں جو 159 بھرتیاں کی گئی تھیں۔ ان میں میرٹ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے قرعہ اندازی کے ذریعے خاموشی سے حقدارنوجوانوں کو نظرانداز کرتے ہوئے منظور نظرافراد کو نوازا گیا ہے

صوبے میں بیروزگاری اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ گزشتہ ماہ ریلوے کوئٹہ ڈویژن میں مشتہر ہونے والی 700 اسامیوں کے لئے 35 ہزار سے زائد درخواستیں جمع ہوئیں۔ جنوری کے آغاز میں تحصیلدار کی صرف سات نشستوں کے لئے منعقد ہونیوالے ٹیسٹ میں ہزاروں نوجوانوں نے حصہ لیا۔

وفاقی محکموں میں جعلی ڈومیسائل کے ذریعے بلوچستان کے کوٹے پر کافی عرصے سے بھرتیاں جاری ہیں۔ سینیٹ میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹرعثمان کاکڑ۔ سینیٹرمیر کبیر محمد شہی اور سینیٹر جہانزیب جمالدینی وغیرہ کی جانب سے آواز اٹھائے جانے کے باوجود کوئی شنوائی نہیں ہوسکی نہ ہی تعیناتیوں کا سلسلہ رک سکا۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے انکشاف کیا کہ اسلام آباد میں بلوچستان کے جعلی ڈومیسائل پر بھرتی ایک شخص سے جب اس کا ایڈریس پوچھا گیا تو اس نے کہا کہ میرا گھر بلوچستان کے ضلع لورالائی کے ریلوے اسٹیشن کے قریب ہے جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ لورالائی میں ریلوے کی پٹری تک نہیں ہے تو ریلوے اسٹیشن کہاں سے آئے گا۔

چیئرمین نیب کی جانب سے جعلی ڈومیسائل کے ذریعے بلوچستان کے کوٹے پر بھرتیوں پرنوٹس بھی لیا گیا لیکن بلوچستان کے نوجوانوں کو کوئی فائدہ نہیں مل سکا نہ ہی جعلی بھرتیوں کاعمل رک سکا۔

بلوچستان کے وزیرانڈسٹریز محمد خان طور اوتمانخیل نے کہا ہے کہ صوبے میں بے روزگاری سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ صوبے کے بجٹ کا 75 فیصد حصہ نان ڈویلپمنٹ فنڈ میں جانے کے باوجود صوبے کے نوجوان بیروزگار ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ صوبے میں پرائیوٹ انڈسٹریز کا نہ ہونا ہے۔ ہماری حکومت بہت جلد اس حوالے سے اقدامات اٹھاتے ہوئے صوبے بھر میں انڈسٹریز کو بحال کر ے گی۔ محمدخان اوتمانخیل کا کہنا تھا کہ رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے میں انڈسٹریز نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ موجودہ حکومت صوبے میں صنعت وتجارت کو فروغ دے کر صوبے کو اپنے پاؤں پر کھڑی کرے گی۔

2018 کے عام انتخابات کے بعد جام کمال صوبے کے وزیراعلیٰ منتخب ہوئے تو انہوں نے سرکاری ملازمتوں پرپابندی لگادی جو دو ماہ بعد واپس ہٹائی گئی لیکن تاحال بھرتیاں نہیں ہوئی ہیں۔ باخبرذرائع کے مطابق بلوچستان کے مختلف محکموں میں اس وقت 15 ہزار 790 اسامیاں خالی ہیں۔ ذرائع کے مطابق محکمہ تعلیم میں 10 ہزار 163۔ محکمہ صحت میں 1702۔ بورڈ آف ریونیو میں 979۔ پالولیشن ڈیپارٹمنٹ میں 78۔ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں 15۔ محکمہ لوکل گورنمنٹ 169۔ پی اینڈڈی میں 127۔ محکمہ لیبراینڈ مین پاور میں 259۔ محکمہ سوشل ویلفیئر 183۔ محکمہ خوراک میں 184۔ وومن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں 35۔ انوائرمنٹ ڈیپارٹمنٹ میں 53۔ سروسز جنرل ایڈمنسٹریشن 118۔ محکمہ زراعت میں 74۔ محکمہ ٹرانسپورٹ میں 22۔ سائنس اینڈ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں 57۔ پراسکیویشن میں 114۔ یو اینڈڈی پی ڈیپارٹمنٹ میں 78۔ محکمہ لائیوسٹاک میں 505۔ کالجز اینڈ ہائرایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں 156۔ محکمہ پی ایچ ای میں 232۔ محکمہ ایری گیشن میں 222۔ لاء ڈیپارٹمنٹ میں 23۔ محکمہ خزانہ میں 207۔ انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ میں 15 جبکہ مذہبی امور میں 4 اسامیاں خالی ہیں جو مجموعی طور پر 15790 بنتی ہیں۔

بلوچستان کو بہتری کی راہ پرگامزن کرنے کے لئے سب سے پہلے نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنا ضروری ہے۔ صوبائی حکومت اگر ان اسامیوں کو جلد مشتہر کرکے اس پر میرٹ کی بنیاد پرتعیناتیاں کرے گی تو صوبے سے بیروزگاری کے خاتمے میں مدد ملے گا اور نوجوانوں میں پائی جانیوالی مایوسیاں دور ہوسکتی ہیں جو بلوچستان کی ترقی وخوشحالی اوراستحکام کے لئے بہت ہی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ وفاقی حکومت کو جعلی ڈومیسائل کے ذریعے بلوچستان کے کوٹے میں بھرتیوں کو بھی روکنا ہوگا تاکہ بلوچستان سے بیروزگاری کا خاتمہ ممکن ہوسکے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).