سکردو سے پیر ودھائی اڈہ تک


انٹرنیٹ پہ موسم کی صورت حال دیکھ کر خوشی خوشی سو گیا کہ کل فلائٹ لازمی ہوگی مگر صبح قسمت کی طرح موسم نے بھی دھوکہ دیا اور فلائٹ کینسل ہو گئی۔ موسم اتنا خراب بھی نہیں تھا مگر فلائٹ پھر بھی کینسل ہو گئی۔ پی آئی اے کی مرضی یہی تھی تو ہم کیا کہہ سکتے تھے انہوں نے کہا موسم خراب تھا تو ہم مان گئے۔ آگلے چار دن لگاتار برف باری تھی سو بہتری اسی میں سمجھی کی بائی روڈ نکل لیا جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ فلائٹ کے چکر میں چند دن کی چھٹیاں ملیں وہ بھی ختم نہ ہو جائیں۔

ٹکٹ ریفنڈ کرانے کے لئے ایجنٹ کو کال کی تو اس نے کہا کہ بائی روڈ جانا ہے تو میرے ساتھ آجاؤ کار بک کر لیتے ہیں، میں نے حامی بھر لی۔ اس صورتحال میں اس سے اچھا کچھ ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ ٹریول سروس والوں کے دفتر جانے کے لئے جب یادگار چوک سکردو پہنچا تو وہاں پہ لوگوں کا رش لگا ہوا تھا۔ میں نے ڈرائیور سے پوچھا یہ کیا ہو رہا ہے؟ اس نے مجھے بتایا کہ ”یہ لوگ مولانا صاحب کی گرفتاری کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ “

میں نے پوچھا کیوں گرفتار کیا مولانا کو؟ اس نے بتایا کہ گلگت بلتستان کے آئینی حقوق کے سلسلے میں کل فیصلہ ہونا تھا اور چیف جسٹس صاحب نے صاف الفاظ میں کچھ ایسا فیصلہ سنایا ہے کہ گلگت بلتستان کے لوگوں کے ستّر سالوں کی خوش فہمیوں پہ پانی پھیر دیا۔ مولانا صاحب کو کچھ زیادہ ہی غصہ تھا اس بات پہ تو انہوں نے اپنے غصے کو چند سچے مگر کڑوے الفاظ میں اگل دیا، جن کی تاب نہ لاتے ہوئے ریاست کے رکھوالوں نے انہیں جوڈیشل کر دیا اور بولنے والوں کی بولتی بند کرنے کی کوشش کی۔

مگر لوگ اب خاموش نہیں ہورہے۔ اب یہ لوگ احتجاج کر رہے ہیں کہ جب ہم آئینی طور پر آپ کے ملک کا حصہ نہیں تو ہمیں کیوں دھوکے میں رکھا گیا؟ کیوں ہمارے حقوق سلب کیے گئے۔ ریاست یا تو کشمیر طرز کا سیٹ اپ دے یا پھر پاکستان کا آئینی حصہ بنا لے۔ یہ عبوری صوبے والی لولی پاپ اب مزید نہیں چلے گی۔ مگر وفاق کے ماتحت گلگت بلتستان کے سیاستدانوں نہ کبھی ایسا کچھ کرنے کا سوچا تھا نہ کبھی سوچیں گے ”۔

یادگار چوک پہ کھڑے مقامی لیڈرز جن کو اب تک گورنمنٹ میں کوئی عہدہ نہیں ملا تھا پرجوش تقاریر کر رہے تھے اور غم و غصے کا اظہار کر رہے تھے۔ کیونکہ گورنمنٹ میں عہدہ ملنے کے بعد سب عوام کو بھول کر سب شاہ کے غلام بن جاتے ہیں اور عوام کے مثائل اور شکایت ان کی نظر میں جرم بن جاتا ہے۔ مجھے کچھ خاص بات نظر نہیں آئی کیونکہ ایسے دھرنے تو آئے روز یاد گار چوک پہ ہوتے ہیں۔ مگر مجھے تو اپنی فکر تھی سو میں جیسے تیسے ہڑتال کے باوجود ٹریول سروس کے دفتر پہنچ گیا۔

شاندار گاڑیاں کھڑی تھیں، دیکھ کے خوشی ہوئی کہ سفر میں مزہ آئے گا، اے سی والی گاڑی میں ٹھنڈ کا پتا بھی نہیں چلے گا اور کم وقت میں پنڈی پہنچ جائیں گے۔ ایجنٹ نے ہمیں ٹکٹ کاٹ کے دیے اور کہا گاڑی اگلے چوک سے آپ کو پک کرے گی آپ سب یہاں سے اس گاڑی میں چلے جائیں۔ مہنگا ٹکٹ دینے کا دکھ شاندار گاڑی میں بیٹھتے ہی دور ہو گیا۔ اگلے چوک پہ پہنچنے تو ایک پرانے ماڈل کی جی ایل آئی کھڑی تھی۔ جس کی حالت دیکھ کے لگ رہا تھا کہ پورے محلے والوں نے گاڑی چلانا اسی کار میں سیکھی ہو۔ مگر میری قسمت نے پھر دھوکہ دے دیا اور میری دعا جو تھی وہ جا کے آسماں سے یوں ٹکرا گئی کہ آگئی ہے لوٹ کے صدا اور وہی پرانی کھٹارہ کار میں سفر کرنا پڑا۔ سیٹیں اتنی چھوٹی کہ بندہ آرام سے ہل جل بھی نہیں سکتا تھا۔

ستک نالہ پہنچے تو 3 بج گئے تھے اور بھوک لگ رہی تھی۔ کھانے کے بعد میں ہوٹل سے باہر نکلا تو نالے کے شور میں کسی کے گنگنانے کی آواز نے متوجہ کیا۔ دریا کہ طرف رخ کیے ایک بزرگ لوک گیت گا رہے تھے اور ساتھ لگ بھگ بارہ سال کا لڑکا بھی تھا۔ میں بھی ساتھ کسی بڑے سے پتھر پہ بیٹھ اور گیت سننے لگے۔ بلتی زبان کا کوئی گیت تھا مگر بول سمجھ نہیں آئے کیونکہ اب اتنی پیچیدہ بلتی زبان کم ہی سننے کو ملتی ہے۔ کچھ دیر بعد میں نے بزرگ سے حال چال پوچھا اور کافی دیر باتیں کیں۔

پتا چلا کہ بزرگ کا جوان بیٹا پاک فوج میں سپاہی تھا اور وزیرستان میں کہیں دہشتگردوں سے لڑتے لڑتے شہید ہوگیا ہے۔ اور وہ بچہ بزرگ کا پوتا تھا جسے وہ ڈمبوداس یتیم خانے میں تعلیم حاصل کرنے کے لئے داخل کرانے لے جا رہے تھے۔ ان کا خواب تھا کہ ان کا پوتا بھی پڑھ لکھ کر فوج میں بھرتی ہوجائے اور وطنِ عزیز کی خدمت کرے۔ مگر ان تک شاید یہ خبر نہیں پہنچی تھی کہ گلگت بلتستان پاکستان کا حصہ نہیں بلکہ متنازعہ حصہ ہے۔

ان کو کیا پتہ تھا کہ وہ ستر سال سے دھوکے میں تھے۔ مگر ان کا جذبہ بالکل خالص تھا اور کسی کے فیصلے سنانے سے ان کے جذبے میں کون سا فرق پیدا ہونا تھا۔ اور نجانے کتنے لوگ اس یقین کے ساتھ اپنی جانیں قربان کرتے آئے ہیں کی ہم اس پاک دھرتی کا حصہ ہیں۔ اس لمحے مجھے احساس ہوا کہ ہم ہر طرف سے دھوکوں میں گھرے ہوئے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا۔ بزرگ کو الوداع کہا اور پھر سے سفر شروع ہوا مگر میرے کانوں کو اب تک بزرگ کا گیت اور دریا کا شور سنائی دے رہا تھا اور دماغ میں مختلف سوال امڈ رہے تھے۔ جن کے جواب سوچنے لگا تو مجھے یاد آیا کہ ان کے جواب تو یادگار چوک پہ کھڑے لوگ صبح دے رہے تھے۔ شاید مولانا صاحب نے بھی ایسے سوال کیے ہوں گے جن کہ وجہ سے ان کو جوڈیشل کیا گیا تھا۔

چلاس میں رات کا کھانا کھایا اور سفر پھر سے شروع ہوا۔ راستے میں سواریوں کی سیاسی بحث شروع ہوگئی۔ کسی نے کہا کہ حکومت کے بس میں نہ کبھی یہ کام تھا نہ ان کا ارادہ تھا کہ گلگت بلتستان کو آئینی حیثیت دیں۔ کسی نے کہا کہ موجودہ حکومت کو تو یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ یہ کام کتنا پیچیدہ ہے۔ بس ہوائی باتیں کی گئی کہ یہ حکومت گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دے کے رہے گی۔ مگر اس فیصلے کے بعد سب کی آنکھیں کھل گئی ہیں، اب گلگت بلتستان کی عوام کو اپنی منزل کا راستہ مل گیا ہے۔

بشام سے آگے نکلے تو مجھے نیند آنے لگی۔ ساتھ بیٹھے مسافر نے کہا ایسے سفر میں اگر بندہ سو جائے تو ہو سکتا ہے وہ کبھی نہ جاگے، اس لئے نہیں سونا چاہیے۔ میں نے نڈر بنتے ہوئے کہا کہ اچھا ہے نا اتنی آسان موت آگئی تو۔ مرنا تو ہے ویسے بھی اتنی آسانی سے مر گئے تو اچھا نہیں؟ اس نے کہا چلو آپ سو جاؤ میں جاگتا رہوں گا۔ میں نے آنکھیں بند کیں اور سوچ میں پڑ گیا۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد پتہ چلا کہ ابھی تو بہت سے کام اور خواب ادھورے ہیں، ابھی تو گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بھی بنتے دیکھنا ہے۔ مرنے میں خسارہ ہی خسارہ ہے اور ابھی تو زندگی ٹھیک سے جی بھی نہیں۔ مگر آنکھیں بند رکھیں اور سونے کی ایکٹنگ بدستور جاری رکھی کہ کہیں ساتھ والا یہ نہ سمجھ لے کہ میں ڈر گیا۔

ایکٹنگ کرتے کرتے نجانے کب آنکھ لگ گئی اور صبح آنکھ کھلی تو راولپنڈی کے حدود میں داخل ہوچکے تھے اور بارش ہو رہی تھی۔ ہواؤں میں شامل کیچڑ کی چبھنے والی خاص مہک سے اندازہ ہوا کہ پیر ودھائی اڈہ قریب ہی ہے۔ ڈرائیور نے کمار سانو کے گیت بند کر دیے تھے اور گاڑی پیر ودھائی اڈے کے باہر رک گئی تھی۔ سب نے اپنا اپنا سامان اٹھایا اور ساتھ چنگچی سٹاپ کی طرف چلے گئے۔ مجھے کافی دور جانا تھا سو میں نے اپنا بیگ لیا اور اڈے کے اندر کسی ہوٹل میں ناشتہ کرنے بیٹھ گیا۔

ناشتہ کرتے کرتے زونگ فور جی انٹرنیٹ پیکج لیا۔ اتنے سستے پیکیج دیکھ کے ایک بار پھرسے دل کیا کہ سکردو کے حکمرانوں کو گالیاں دوں مگر پھر یاد آیا کہ ”ایس کام“ کی سروس تو حکمرانوں کے بھی باپوں کی ہے وہ کیوں چاہیں گے کہ کوئی اور کمپنی اپنی انٹرنیٹ سروس شروع کرے اور ”ایس کام“ کا بزنس خراب ہو۔ خیر ناشتہ کر کے جب بل دینے لگا تو پتہ چلا کہ یہ آملیٹ کسی خاص قسم کی مرغی کے انڈے کا تھا جو اتنا مہنگا تھا۔ شاید ہمارے ہینڈسم وزیراعظم صاحب کے دی ہوئی مرغیوں کا انڈہ تھا تبھی ٹیکس، ڈیم فنڈ اور کینسر ہسپتال کے لیے چندہ بھی ساتھ لیا جا رہا تھا جو ساٹھ روپے کا ناشتہ مجھے دو سو ساٹھ کا پڑ گیا۔

اِس دھوکے کے بعد یہ بات تو طے تھی کہ اب ٹیکسی کراؤں تو ہمیشہ کی طرح دھوکہ ہی ملنے والا ہے سو بہتری اسی میں تھی کی اوبر کرا لی جائے۔ میں نے اوبر رائڈ بک کرائی۔ ڈرائیور چار منٹ کی دوری پر تھا۔ دائیں طرف ایک عورت سامنے پرفیوم کی بوتلیں رکھے چھتری لیے بیٹھی تھی۔ میں نے ایسے ہی پرفیوم کی قیمت پوچھی۔ اس نے پنجابی میں کچھ کہا جو مجھے سمجھ نہیں آیا۔ میں نے تھوڑا سا جھک کے پوچھا۔ کیا کہا؟

اس نے منہ بناتے ہوئے اردو میں جواب دیا۔ یہ بیچنے کے لئے نہیں ہیں۔

میں نے سوچا بیچنے کے لئے نہیں ہیں تو اتنی صبح کیوں اتنی بوتلیں لے کے بیٹھی ہے۔ کوئی جواب نہیں سمجھ آیا اور میری رائڈ پہنچ چکی تھی۔ میں خود کو یہ سمجھا کے کار میں بیٹھ گیا کہ یہ بھی کوئی دھوکہ ہی ہوگا۔ رستے بر میں ہمیں درپیش مسائل اور دھوکوں کے بارے میں سوچتا رہا اور پریشان ہوتا رہا۔ مگر مری روڈ میں داخل ہوتے ہی وزیراعظم صاحب کے بڑے بڑے پوسٹرز دیکھے تو ساری پریشانیاں دور ہو گئیں اور دل نے کہا چھوڑو ان سب باتوں کو اور دیکھو کتنا ہینڈسم ہے ہمارا منہ بولا وزیر اعظم۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).